جیلوں کی سکیورٹی نامناسب اقدامات ذمہ دار کون؟

ایک کے بعد ایک مماثلت رکھنے والے واقعات نے ہماری سیکیورٹی فورسسز کو ہلا کے رکھ دیا ہے پاکستان کی تاریخ کا دوسرا بڑاجیل توڑنے کا واقعہ جس میں کئی شدت پسند جیل کو توڑ کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اس وقت ملک بھر میں جیلوں کی تعداد نواسی ہے جس میں زیادہ تعداد صوبہ پنجاب میں ہے ان جیلوں کے باہر کلوز سرکٹ کیمرے تو لگے ہوئے ہیں لیکن اْن میں سے زیادہ تر کیمرے مرکزی دروازے کے علاوہ قیدیوں سے ملاقات کرنے والے افراد کے علاوہ جیل کے اندر کام کرنے والے قیدیوں کو فوکس کرتے ہیں جیلوں کے باہر لگے ہوئے کیمرے مرکزی دروازے سے ایک سو فٹ کے فاصلے پر ہونے والی کارروائی کو مانیٹر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اپریل سنہ دو ہزار بارہ میں خیبر پختون خوا کے علاقے بنوں کی جیل ٹوٹنے کے بعد حکومت نے جیلوں کی سیکیورٹی کے لئے مناسب اقدامت کرنے اور ان کی سیکیورٹی برھانے کا فیصلہ کیا تھا مگر ڈیرہ جیل کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ فائلو ں کی گرداب میں کہیں گم ہو گیا ہو گا اگر کچھ بہتری ہو جاتی تو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن تھی منصوبے کے تحت جیلوں کی سیکیورٹی سخت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے آس پاس کے علاقوں میں انٹیلیجنس کا نظام مضبوط بنانے، جیلوں میں موبائل جیمرز کی تنصیب کا اعلان کیا گیا تھا۔ پاکستان میں شدت پسندوں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے جیلوں پر ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے دی گئی ہدایات پر ایک سال گزر جانے کے باوجود عمل درآمد نہیں ہوسکا یا عمل درآمد کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی ایک سنجیدہ سوال ہے ان ہدایات پر عمل نہ کرنا ایک مجرمانہ غلطی ہے جس کا خمیازہ آج ایک بار پھر پاکستانی قوم کو بگھتنا پڑا اس واقعے کی وجہ سے عالمی دنیا میں پاکستانی فورسسز کی بڑی سبکی ہوئی شدت پسندوں کے طرف سے بنوں جیل پر حملے کے بعد اْس وقت کی وفاقی حکومت نے چاروں صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ جیلوں کے باہر سکیورٹی کیمرے لگانے کے علاوہ موبائل فون جیمرز لگائے جائیں اور مضبوط بنکر تعمیر کیے جائیں اور ہر ممکن اقدمات کیے جائیں تاکہ شدت پسندوں کے حملوں کو روکا جاسکے لیکن میڈیا کی اطلاعات کے مطابق پاکستان کی کسی بھی جیل کے باہر سکیورٹی کیمرے اور موبائل فون جیمرز نہیں لگائے گئے اور اگر کہیں کوئی کیمرا لگایا بھی گیا ہے تو اس کی رینج نہ ہونے کے برابر ہے یا پھر وہ جیل کو عملے کو چیک کرنے کے لئے لگایا گیا ہے اس کے علاوہ جیلوں میں بم پروف بنکرز بنانے کے بارے میں بھی احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن ابھی تک صرف چار جیلوں میں بنکرز بنائے گئے ہیں ان جیلوں میں سے پنجاب کی دو اور سندھ اور ایک بلوچستان کی جیل شامل ہے موبائل جیمرز کی جہاں تک بات ہے تو اس پر بھی کوئی خاطر خواہ کام ہوتا نظر نہیں آیا جس کی وجہ سے ڈی آئی خان جیل پر حملہ کر کے 243خطرناک قیدی چھڑا لے گئے جن میں کچھ انتہائی مطلوب لوگ تھے جو کہ سیکیورٹی اداروں نے کئی نوجوانوں کی قربانیاں دے کر گرفتار کیے تھے ۔وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر صوبہ خیبر پختون خوا میں میں شدت پسندوں کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار ہونے والے شدت پسند اور کالعدم تنظیموں کے اہم رہنماؤں کو پنجاب کی تین جیلوں میں رکھا گیا ہے اور ان شدت پسندوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے ان جیلوں میں راولپنڈی اڈیالہ جیل ، بہاولپور اور فیصل آباد کی جیلیں شامل ہیں ان جیلوں کے اندر اور باہر رینجرز اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی بڑی تعداد میں تعینات ہیں پنجاب کی جیلوں میں شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر صوبہ خیبر پختون خوا میں میں شدت پسندوں کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار ہونے والے شدت پسند اور کالعدم تنظیموں کے اہم رہنماؤں کو پنجاب کی تین جیلوں میں رکھا گیا ہے اور ان شدت پسندوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے جن کی سیکیورٹی حالیہ واقعے کے بعد مذید سخت کر دی گئی ہے اس کے علاوہ شدت پسندوں کے حملوں کی صورت میں صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے جیل کے عملے کو کمانڈو تربیت دینے کا عمل بھی فی الحال سْست روی کا شکار ہے۔ ملک بھر کی مختلف جیلوں کے عملے کو فوجی کمانڈوز مرحلہ وار تربیت دے رہے ہیں تاکہ پوری فوری طور پر ایکشن کرنے کے قابل ہو سکیں وزارت داخلہ نے صوبائی حکومتوں کو شدت پسندوں کے حملوں کے پیش نظر رینجرز یا فرنٹیر کانسٹیبلری کی خدمات دینے کی پیشکش کی تھی تاہم زیادہ تر جیلوں کے باہر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو تعینات نہیں کیا گیاتھاجیلوں میں چلنے والے موبائل فونوں کی وجہ سے اور موبائلز جیمرز کے نہ ہونے کی وجہ سے اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے کی مخبری یا دیگر معلومات جیل کے اندر سے شدت پسندوں کے ساتھیوں نے کی ہو ۔اور یہ بھی امکان غالب ہے کہ ایسا کرنے کے لئے ان لوگوں نے کئی ماہ اس جیل کی نگرانی کی ہو اور ہماری پولیس اور دیگر جیل سیکیورٹی عملے کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نوٹ کیا ہو تب جا کے انھوں نے یہ سب کاروائی کی ہو ۔اس سارے عمل میں جہاں جیل سیکیورٹی اور پولیس کی لاپرواہی کا پتا چلتا ہے وہاں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد منصوبے تو بناتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہ کر کے ایسے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آو ہماری نا اہلی دنیا کو دکھاؤ۔وفاقی وزیر داخلہ صاحب کافی سخت آدمی ہیں امید ہے کہ وہ اس ضمن میں ضرور ایکشن لیں گے اور جس طرح انھوں نے پورے ملک کی سیکیورٹی کو بہتر ٹریک پر ڈالنے کی کوشش کی ہے امید ہے کہ وہ اب جیلوں کی حالات اور ان کی سیکیورٹی کے بارے میں کوئی فول پروف پالیسی بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے پے در پے واقعات کے بعد اب بھی اگر کوئی مناسب اقدامات نہ کیے گے تو ہونے والا نقصان ناقابل تلافی ہو گا جس کی تمام تر ذمہ داری وزارت داخلہ پر ہوگی ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 207561 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More