’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی سیاسی پالیسی سے آزادی ضروری

۱۵؍ اگست کو ہم ہندوستانی قومی تیوہار کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ ۱۹۴۷ ؁ ء میں اسی دن ہمیں انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اس لئے سامراج کے خلاف پہلے پہل بر سر پیکار ہونے والے مسلمان ہی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جد و جہد آزادی کے مبارک قافلہ میں غیر مسلم بھائی بھی ساتھ ہو لئے تھے اور آزادی ان سب کی مشترکہ قربانیوں کا نتیجہ تھی۔ مجاہدین آزادی کے صف اول میں اگر شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ ، شاہ عبد العزیزؒ اور شاہ اسمعیل شہیدؒ جیسے جیالے بزرگ تھے تو بعد کے لوگوں میں سردار ولبھ بھائی پٹیل، بھگت سنگھ ، گاندھی جی اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسی شخصیات کے ناموں کو بھی تاریخ نے اپنے اوراق میں عظیم مجاہدین آزادی کے طور پر محفوظ کر لیا ہے۔ مجاہدین آزادی کی فہرست میں مسلم، ہندو سمیت ہندوستان کے ہر فرقہ کی نمائندگی اس بات کی مظہر ہے کہ وطن کی آزادی کی خاطر سارے ہندوستانی متحد تھے۔ حالانکہ ایسے لوگوں کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے جو انگریزوں کے چاپلوس تھے ۔ یہ لوگ خود بھی جنگ آزادی میں شریک نہیں ہوئے اور دوسروں کو بھی اس سے روکنے کی کوشش کی۔ مگر وطن پرمر مٹنے والوں کے مقابلہ میں انگریزوں کی خاطر ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالنے والے ان افراد کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ تبھی تو ان کی کوششوں اور خواہشوں کے بر عکس ہندوستان انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہو گیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستانیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کرنے والے افراد پر مشتمل یہ گروہ ختم ہو گیا۔ بلکہ اس طرح کی جماعت آج بھی ایک حقیقت ہے اور اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ہاں ، اس کا طریقہ کار اور اس کے مقاصد ضرور بد ل گئے ہیں۔

آج کل یہ جماعت کچھ مذہبی۔سیاسی رہنماؤں اور ان کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ نظریاتی طور پر فرقہ واریت میں یقین رکھتے ہیں اور فرقہ وارانہ فسادات کرواکر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ انھیں کی سازشوں کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی خاطر مذہب، علاقہ، زبان اور ثقافت سے بالاتر ہو کرانگریزوں کے خلاف متحد ہو کر جہاد کرنے والے آج تک مختلف بنیادوں پر نہ صرف یہ کہ بٹے ہوئے ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف بر سرِپیکار بھی ہیں۔ یہ صورتِ حال مجاہدینِ آزادی کی روحوں کو تکلیف پہنچانے والی ہے۔ انھوں نے ایک متحدہ پلیٹ فارم سے انگریزوں سے لوہا لیا تھا اور اس طرح سے ان کی ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کا سخت توڑ کیا تھا۔مگر ہم اپنے آباء و اجداد کے اس قابلِ تقلید نقش قدم پر چلنے میں نا کام ہیں۔

آزادی کے بعد سے چھ دہائی سے زائد کاعرصہ گزر چکا ہے لیکن ہمیں مل جل کر رہنے کا ہنرنہیں سیکھنے دیا گیا۔ سیاسی پارٹیوں اور عوام الناس پر اپنی بر تری بر قرار رکھنے کے خواہش مندکچھ مذہبی رہنماؤں کی اس جماعت نے اپنے مفاد کی خاطر ہمیں اُنھیں لوگوں سے الجھائے رکھا جن کے ساتھ ہم اپنی زندگی کے روز و شب گزارتے ہیں۔اِس طبقہ کے اُس نظریہ کی اصلاح ضروری ہے جس کے مطابق سیاسی اور مذہبی بر تری کی خاطر عوام الناس کو باہم دست و گریباں رکھنا نا گزیر ہے ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا ہے ہم خود کو آزاد کہنے کے مستحق نہیں ہوں گے ۔ جب انگریز تھے تو ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی پر وہ عمل پیرا تھے اور ان کے جانے کے بعد یہ سیاسی۔مذہبی طبقہ اس پالیسی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ تو ہم آزاد کیسے ہوئے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانیوں کی اکثریت، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، امن پسند ہے اور شر پسند عناصر کی تعداد کم ہے ۔لیکن تالاب کے سارے پانی کو گدلا کرنے کے لئے صرف چند مچھلیاں کافی ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹے سے گروہ کی امن مخالف سرگرمیاں پورے ملک کے امن کو غارت کر دیتی ہیں۔انھیں چند مچھلیوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں جن سے ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی طرح سے متاثر ہوتی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ مجاہدین آزادی کے اس خواب کو پورا کرنے میں ہم ابھی تک ناکام ہیں کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔دستور کے معماروں نے تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی رواداری کو بر قرار رکھتے ہوئے ہندوستان کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہمارا دستور فرقہ پرستی کی بجائے بقائے باہم اور امن و آشتی کی وکالت کرتا ہے۔ لیکن فرقہ وارانہ فسادات میں اب بھی ایک ہندوستانی دوسرے ہندوستانی کے جان و مال کو نقصان پہنچا کر خوش ہوتا ہے۔

فسادات نے ہمارے درمیان حائل عدم اعتماد کی خلیج کو وسیع کیا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اِ کّا دُکّا فسادات کو چھوڑ کر بقیہ فسادات کو سیاسی سر پرستی حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے فسادی بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال شرپسند عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ایک فساد کے ختم ہو جانے کے بعد دوسرے فساد کے ہونے کا خدشہ ہمیشہ بر قرار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ماضی میں ہمیں جبل پور، تیل چری، جمشید پور، بھیونڈی، مرادآباد، بھاگلپور اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے فسادات جھیلنے پڑے تھے تو ہمیں ۲۰۰۲ ء گجرات کے بھیانک فسادات سے بھی گزرنا پڑا ہے۔ مزید یہ کہ ہر سال بڑے تہواروں کے موقع پر مختلف علاقوں میں لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔

ملک کی دو بڑی پارٹیوں پر اس الزام کو جھوٹ نہیں قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف مقاصد کے حصول کے لئے فسادات کرواتی ہیں۔ ہندتوا میں یقین رکھنے والی بی جے پی اگر فسادات سے مسلمانوں کو نقصان پہنچاکر ہندوؤں کو خوش کرنے کے الزام سے بری نہیں ہے تو کانگریس بھی ایسے الزام کا سامنا کر رہی ہے کہ وہ فسادات کے ذریعہ اقلیتوں کے دلوں میں خوف پیدا کر تی ہے اور پھر متاثرین کا سب سے بڑے مسیحا بن کر الیکشن میں ان کی ہمدردی حاصل کرتی ہے۔

ہمارے آباء و اجداد نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف دونوں مسلح اور غیر مسلح جہاد کیا تھا۔ اس کے لئے انھیں جانی و مالی قربانیاں پیش کرنا پڑی تھیں۔ آج ہمیں دیگر مسائل سمیت فسادات اور اس کے اصل سبب متعصب ذہنیت کے خلاف علمِ جہاد بلند کر نا ہوگا تا کہ ہمارے جان و مال محفوظ ہو سکیں۔ ہمیں فسادات سے آزادی کی طویل جنگ لڑنی ہو گی۔

بڑے پیمانے پر کرائے جانے والے منظم فساد کے لئے خاص طور سے خفیہ ایجنسیوں کی گرفت کی جانی چاہئے کہ اتنے بڑے پیمانے پر رچی جانے والی ملک مخالف سازش کی انھیں بھنک بھی نہیں لگی، یا اگر انہیں معلوم بھی ہوا تو کچھ وجوہات کی بنا پر اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بیشک متعلقہ انتظامیہ کی بر وقت کار روائی سے ایسے فسادات پر بھی تھوڑے وقت میں قابو پا کر انھیں طویل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن چھوٹے پیمانے پر ہونے والے فسادات جو کہ کسی وقتی حادثہ کی وجہ سے واقع ہوتے ہیں ان کے لئے مقامی پولس ذمہ دار ہے۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ ایک حادثہ جو صرف و قتی کشیدگی کا سبب بن سکتا تھا انتظامیہ کی لا پرواہی سے جان ومال کے بھاری نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو جاتا ہے۔ مندروں میں گائے کا گوشت پھینکنے اور تہواروں کے موقع پر مسجدوں سے گزرتے ہوئے بلا وجہ ہڑ بونگ اور اشتعال انگریز نعرے بازی کے ذریعہ پیدا شدہ کشیدگی کو مقامی پولس بآسانی قابو میں کر سکتی ہے۔ لیکن جب یہی پولس اپنی آنکھوں کے سامنے کشیدگی کو فرقہ وارانہ تصادم میں تبدیل ہونے بلکہ ٹکراؤ کی صورت میں کسی خاص فرقہ کی طرفداری کرتی ہے تو اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ دونوں طرف کے لوگوں کا جانی اور مالی خسارہ ہو۔

در اصل پولس اور ان کے اوپر کے دیگر افسران میں کچھ لوگ ابھی بھی ایسے ہیں جو فرقہ پرست ذہنیت کے حامل ہیں۔ وہیں سیاسی پارٹیاں بھی اپنے مفاد کی خاطر عوام الناس کو لڑانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ ان سے ہمیں نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ فسادات کو روکنے میں تساہلی سے کام لینے والے افسران کی سرکوبی بہت ضروری ہے ۔ابھی تک کے مشاہدات بتاتے ہیں کہ محض تبادلہ کر دینا کار گر ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح سے فساد کے اصل ملزمین کو سزا نہیں دی جاتی ہے۔ چاہے وہ ممبئی کے فسادات ہوں یا گجرات کے ، فساد کے اصل ملزمین آزاد گھوم رہے ہیں۔

معرف سماجی کارکن تیستا سیتلواد نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ ’’جب تک سزا سے مستثنی کا کلچر ختم نہیں ہوتا ، فرقہ وارانہ فسادات کے قصور واروں کو سزا نہیں دی جاتی، ہم یہ پیغام نہیں دے پاتے کہ تقسیم کی سیاست ہم برداشت نہیں کریں گے تب تک ایسے واردات کو روکنا ممکن نہیں ہے۔‘‘

حکومت کو چاہئے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے معاملے کو سنجیدگی سے لے اور مجوزہ فرقہ وارانہ فساد مخالف بل کو پارلیمنٹ کے جاری مانسون اجلاس میں پیش کرکے اسے پاس کرائے۔ سیتلواد جیسے سماجی کارکنان کا ماننا ہے کہ یہ بل فسادات کی روک تھام میں بہت معاون ثابت ہو گا۔ عرصہ دراز سے مختلف سماجی اور حقوق انسانی کی تنظیموں کا مطالبہ رہا ہے کہ حکومت اس بل کو پاس کراکے فسادات روکنے کے تئیں اپنی سنجیدگی دکھائے۔ لیکن حکومت نے ان مطالبات کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ چونکہ فسادات میں اکثر اقلیتی فرقے ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اس لئے ان کی نمائندہ مختلف تنظیمیں اس مطالبہ کو رکھنے میں پیش پیش ہیں۔ مگرحکومت شاید اس بل کو پاس کراکے اکثریتی فرقہ کے انتہاپسند عناصر کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتی ہے۔ واضح رہے کہ کچھ لوگ اس قسم کی آوازیں اٹھا رہے ہیں کہ یہ بل ہندو مخالف ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی اسی حوالہ سے بل کے تعلق سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ لیکن بل فی الحقیقت فسادی مخالف ہے۔ فسادیوں کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ بل کسی مخصوص فرقہ کو نشانہ بنانے یا کسی خاص جماعت کی خوشامد کے لئے ہے غیر معقول بات ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حصول کے لئے ہمیں فسادات سے ہر حال میں نجات حاصل کرنی ہو گی۔ اور اس سلسلے میں اگر فرقہ وارانہ فسادا ت مخالف بل معاون ہے تو بلا امتیاز مذہب و جماعت ہر ہندوستانی کو حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ اس بل کو پاس کرے ۔ اپنے مفادات کو بڑھاوا دینے والے غذائی تحفظ بل کو حکومت شارٹ کٹ راستہ اختیار کرتے ہوئے اگر صدارتی اعلامیہ کے ذریعہ پاس کرانے کی کوشش کرسکتی ہے تواسے ملک کے وسیع مفادات کے پیش نظر فرقہ وارانہ فساد بل کو پارلیمنٹ میں بحث کے بعد پاس کرانے میں بھی دلچسپی ہونی چاہئے؟ اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو اس سال کے یوم آزادی پرہندوستانیوں کے لئے یہ بہترین تحفہ ہو گا جو مجاہدین آزادی کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خواب کی تکمیل میں بھی معاون ہو گا۔
Abdul Hameed Yousuf
About the Author: Abdul Hameed Yousuf Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.