چوہدری عبد المجید کی راجدھانی اور انا کی جنگ

آزادکشمیر میں تحریک عدم اعتماد کی بھی منفرد تاریخ ہے ،جو رواں دہائی میں ’’سیاست کا مقبول کھیل ‘‘ بن چکا ہے ،سابق وزیر اعظم راجہ ممتاز حسین راٹھور کو اﷲ کروٹ کروٹ جنت کی بہاریں نصیب فرمائے انہوں نے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا رواج ہماری پارلیمان میں بنیاد و عام کیا جو پھر سردار یعقوب خان خان ،راجہ فاروق حیدر خان اور سردار عتیق خان سے ہوتا ہوا مسلم کانفرنس کو توڑ نے تک چلتاہوا اب پی پی پی کی بنیادیں کھوکھلی کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔اس پر بہت کالم نویسوں نے قلم آزمائی کی ہے مگر ان سطور کو مکمل غیر جانبدار رکھتے ہوئے اصل زمینی حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔

سیاست کی بنیاد عوام کی فلاح بہبود اور عوامی راج سے متعارف ہے ۔ماضی میں جو بھی تحاریک عدم اعتماد سامنے آتی رہیں ان کے عوامل و ثمرات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال پیش نظر ہے کہ کیا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا نا کامی سے عوام کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچ پاتا ہے ۔اگر یہ صرف 25انسانوں کا کھیل ہے تو کیا اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا ضروری ہے۔عوام نان شبینہ کے لئے ترس رہے ہیں ،افسر شاہی نے نظام کو دبوچ رکھا ہے ،انصاف کے لئے ’’قائد اعظم ‘‘ کی تصویر لازمی ہے ،ہسپتالوں میں انسان جانوروں سے بد تر طبی مشکلات کا سامنا کرتے آ رہے ہیں ۔کرپٹ مافیا اپنے مدارج آزادانہ طے کر رہا ہے ،نظام تعلیم بد انتظامی شکل میں جہالت کے فروغ اور بے روزگاری کا سبب بن چکا ہے ،ڈوگرہ راج ختم ہونے کے باوجود اب بھی ہمارا نظم نسق اسی ڈگر پر چل رہا ہے ۔میرٹ کا دعویٰ ہر دور میں ہوتا آیا ہے مگر اس کا جنازہ ہر ایک نے خوب سے خوب تر نکالا ہے ۔سفارش و رشوت کلچر کے رنگ و روپ بدلے گے مگر یہ منہوس بیماری ہمارے رگ و پے میں رچ بسی ہے ۔الغرض عوام کے نمائندے کل بھی نظام نہیں بدل سکے اور اگر یوں ہی چوہے بلی کا کھیل جاری رہا تو آئندہ بھی امید رکھنا عبث ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے محرکین عوام کو نظام بدلنے کی کیا ضمانت دیتے ہیں ۔۔؟؟ اگر عوام کی کھال پٹواری ،کلرک ،فارسٹ گارڈ ،پولیس کنسٹبل سے اوپر تک ادھیڑنا مقصود ہے تو پھر تبدیلی کا کیا فائدہ ،ہاں البتہ چند اہم شخصیات کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچ سکتا ہے مگر عوام جہاں کھڑی ہے وہیں رہے گی۔

حالیہ تحریک عدم اعتماد جس طرح ناکام ہوئی ہے یہ درویش وزیر اعظم کی کسی نیکی کا صلہ لگتا ہے ورنہ جو صورت حال بن چکی تھی اس کا نتیجہ واضح تھا ۔اب عید کے بعد نیا کھیل کھیلنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔اس سارے عمل میں عوام کے مفاد کو حسب روایت مدنظر نہیں رکھا جا رہا ہے بلکہ انا اور بقاء کی اس جنگ میں ایوان کو تختہ مشق بنانے کی تیاریاں نظر آتی ہیں ۔بلا شبہ تحریک عدم اعتماد کا پیش کرنا اور اس کا مقابلہ کرنا جمہوری عمل کا حصہ ہے ۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کروڑوں روپے کے کھیل میں عوام کو کتنے دام ملیں گے ۔جب عوام صفر پر آوٹ ہونگے تو پھر تبدیلی کس کی ہوگی ،کیا چہرے بدلنے سے نظام بدل سکتا ہے اگر ایسا ہوتا تو سابق تین وزراء اعظم سردار عتیق خان ،سردار یعقوب خان اور راجہ فاروق حیدر خان نے کیا ڈلیور کیا ۔آج چوہدری عبدالمجید کو ہٹا کر کیا عوام کو بجلی ،گیس ،پانی ،طبی و تعلیمی سہولیات کی فراہمی میں ریلیف مل جائے گا۔۔؟؟؟ ہر گز نہیں !! یہ کھیل سرمایہ داری کھیل کی ترجمانی کر رہا ہے ۔

اب وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کو اﷲ تعالیٰ نے موقع عنایت فرمایا ہے کہ وہ انقلابی اصلاحات کا آغاز کریں اور تحریک عدم اعتماد کے محرکین کو بھی مہلت ملی ہے کہ وہ تبدیلی کی صورت میں عوام کو کیا دینے کا منشور رکھتے ہیں ،وزیر اعظم آذادکشمیر چوہدری عبدالمجید جس سرگرمی سے تحریک عدم اعتماد کی نا کامی کے بعد سیاسی مہم چلا رہے ہیں انہیں وقت ضائع کئے بغیر چند ایک اقدامات اور فیصلوں پر عمل درآمد کروانا پڑے گا ۔جس سے براہ راست عوام کو آفادہ پہنچنے کی امید ہے ۔آذادکشمیر میں توانائی کا کوئی بحران نہیں مقامی پیداوار کا چوتھا حصہ درکار ہے جو 350میگاوٹ تک ہے ۔واپڈا کی نو سر بازی سے شارٹ فال پیدا ہو رہا ہے اس نظام کو یوں بہتر کیا جا سکتا ہے کہ مقامی پیدا وار کو محکمہ برقیات کے تحت تقسیم کیا جائے نیز مقامی بجلی پیدا کرنے والے علاقوں میں صارفین سے 50%ریلیف دیکر بلات وصول کئے جائیں ،طبقاتی نظام تعلیم کو بیک جنبش قلم ختم کر دیا جائے اور نصاب تعلیم یکساں رائج کیا جائے،ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں مفت ٹیسٹ اور ابتدائی طبی امداد کے لئے ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جائے ،جملہ تھانوں میں حوالاتی کی جان ،عزت و آبرو کا تحفظ یقینی بنایا جائے تاکہ جرائم پیشہ عناصر ابتدائی تربیت مثالی طور پر حاصل کر سکیں ،ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ٹریفک قانون سے ہر شہری کو آگاہی دی جائے ،اشیاء خورد و نوش کے نرخوں کواعتدال پر رکھنے کے لئے پرائس کمیٹیاں تشکیل کی جائیں جن میں تاجر ،سماجی ،صحافتی اور اعلی انتظامیہ کے نمائندوں کو بحیثیت ممبر رکھا جائے ،آئے روز منگلا متاثرین کے مسائل کا تذکرہ گذشتہ ۶ سے ۸ سالوں سے سن رہے ہیں ،اس ضمن میں محکمہ قواعد میں نرمی لا کر متاثرین کو ان کا حق دلایا جائے ،مزید براں آذادکشمیر کے سبھی بازار 79%خالصہ سرکار رقبہ پر تعمیر ہیں جن کے قابضین ایک مرلہ سے چار کنال تک 60سال گذرنے کے باوجود مالکانہ حقوق سے محروم ہیں ،قواعد میں نرمی لا کر جو قابضین 60سال سے تعمیر و ترقی کر چکے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں انہیں ایک نوٹیفیکشن کی رو سے مالکانہ حقوق دیئے جانے کے احکامات صادر کئے جائیں ۔جنگلات کشمیر کا حسن ہیں ،جبکہ کشمیر کے باشندوں کا زیادہ تر لکڑ سے گھر بنانا اور توانائی حاصل کرنا آسان اپروچ ہے لہذا ہر شہری کو کم از کم دو سال بعد کائل کا ایک درخت فری دینے کا اعلان کیا جائے ۔ان کے علاوہ کئی مسائل ایسے ہیں جن کے لئے قانون سازی ضروری ہے ان پر آئندہ قسط میں ذکر کیا جائے گا ۔رہی بات تحریک عدم اعتماد کے محرکین کی تو وہ آئندہ تحریک پیش کرنے سے پہلے اپنا عوامی منشور سامنے لائیں ،سازشوں ،چمک اور روایتی سیاسی کھیل سے اجتناب کرتے ہوئے صحت مند سیاسی عمل کو ترجیج دیں اسی میں ہر دونوں فریقین کی سیاسی زندگی وابستہ ہے ۔میں نہ مانو،انا اور ذاتی بقاء کی جنگ لڑنے کی بجائے دور اندیشانہ انداز میں سیاسی عمل کو مضبوط کیا جائے۔
Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 23154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.