آخر ہم امداد کیوں لیں

پاکستان کو دہشت گردی کےخلاف جنگ میں ساتھ دینے پر امریکہ کی طرف سے مالی امداد کا سلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے اور یہ امداد کئی بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اب امریکہ سے امداد حاصل کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے لیکن اس امداد سے عوام کو کوئی فائدہ حاصل ہو رہا ہے کہ نہیں ۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرف دور سے لے کر اب تک اس امداد سے کتنے تعلیمی ادارے اور ہسپتال قائم ہوئے اور کتنی امداد لوگوں کی معاشی حالت بہتر کرنے میں خرچ ہوئی۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہ چبھتے ہوئے سوالات ہیں جن کے جواب کے لئے تمام پاکستانی نہ صرف منتظر ہیں بلکہ امداد کی بندر بانٹ پر اپنے انہی حکمرانوں سے نالاں بھی ہیں جنہیں انہوں نے خود ہی منتخب کیا ہے۔اس بارے میں راقم السطور کی رائے یہ ہے کہ امداد امریکی ہو یا دیگر غیر ملکی اس کا مقصد تو عوام کے مسائل پر قابو پانا اور انہیں بنیادی سہولتیں ان کی دہلیز پر مہیا کرنا ہوتا ہے، تاہم وطن عزیز میں جیسے کہ ہر طرف ہی کرپشن، لا قانونیت، اقربا پروری، خود غرضی کا دور دورہ ہے اس لئے یہ غیر ملکی بالخصوص امریکی امداد جو کہ گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کےخلاف جنگ لڑنے کی بابت پاکستان کو مل رہی ہے کا بھی انتہائی غلط استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز میں اس کے مثبت اثرات دور دور تک نظر ہی نہیں آ رہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی امداد سرے سے مل ہی نہیں رہی۔ ویسے تو لفظ امداد ہی زندہ اور غیرت مند اقوام کےلئے کسی طور درست نہیں، تاہم اگر باامر مجبوری اس کا حصول نا گزیر بھی ہو جائے تو اسے ان ضرورت مندوں پر خرچ کیا جانا ہی اس کا صحیح مصرف ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ یہ ان لوگوں کی جیبوں کی نذر ہو جاتی ہے جو خود امداد دینے کے قابل ہوتے ہیں لیکن لالچ اور ہوس زر سے لبریز ہونے کے باعث وہ حق داروں کا حق غصب کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور خوف خدا سے زرہ برابر بھی نہیں ڈرتے بلکہ ان کا ایمان صرف اور صرف اسی عارضی دنیا کے عیش وعشرت پر ہوتا ہے ورنہ ایک اسلامی ملک میں امداد کا غلط ہاتھوں میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی آج یہ نوبت آتی کہ کیا امریکی امداد ہمارے لئے درست ہے یا نہیں اور کیا اس کا استعمال ٹھیک ٹھیک ہو رہا ہے یا نہیں۔

راقم السطور امداد کے حق یا مخالفت کرنےوالے دونوں مکتبہ ہائے فکر سے اتفاق کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں نکتہ ہائے نظر حب الوطنی پر مبنی ہیں کیونکہ امداد کے مخالف قومی ہمیت و غیرت کو مقدم گردانتے ہیں جبکہ امداد کا حصول درست قرار دینے والے زمینی حقائق اور معروضی حالات و واقعات کو مد نظر رکھ کر اس کی حمایت کرتے ہیں٬ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو اس قابل بنائیں کہ کسی سے امداد لینے کی بجائے ہم دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس حوالے سے اپنے حکمرانوں کو راقم السطور کا یہ مشورہ ہے کہ وہ خودی کو بلند کریں اور خود انحصاری کی پالیسی اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ارض پاک کو ہر نعمت سے نوازا ہے اگر ہمارے حکمران ان وسائل کو درست طور پر استعمال کرنے کی نہ صرف پالیسی وضع کریں بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا شمار جلد ہی امداد کرنے والی اقوام میں نہ ہو سکے۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے ارض پاک کے دوست ہمسایہ ملک چین کی مثال موجود ہے جس نے ستر کی دہائی میں آنیوالے قیامت خیز زلزلے جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے شہر زمیں بوس ہو گئے ۔ دنیا امداد کرنے کے لئے امڈ آئی مگر اس وقت کے غیرت مند چینی حکمرانوں نے یہ کہہ کر دنیا کی امداد کی پیشکش ٹھکرا دی کہ آزمائش بھی ہم پر آئی ہے اور اسے جھیلیں گے بھی ہم خود اور اس کا مقابلہ بھی ہم خود ہی کریں گے۔ اس حکومتی اقدام و فیصلے کا چینی عوام نے بھی اسی طرح ساتھ دیا اور حکومت کے شانہ بشانہ اس آزمائش کی گھڑی کو اپنے لئے کامیابی و کامرانی کے موقع میں بدل دیا۔

آج و طن عزیز جن بحرانوں میں گھرا ہے ان سے اسے نکالنے کے لئے ہمیں چین کی طرح کے عزم و حوصلے کی ضرورت ہے لیکن اگر ہم اس حوالے سے اپنے حکمرانوں کو دیکھتے رہے تو ہم اپنے اہداف کسی صورت حاصل نہیں کر پائیں گے اس لئے پہل ہم عوام ہی کو کرنا ہو گی۔ ویسے بھی فرمان خدا و رسول ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی ان پر حکمران مسلط کئے جاتے ہیں٬ لہٰذ ا ہمیں اپنے حکمرانوں کا احتساب کرنے سے قبل اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو سر بلند کر سکیں اور ارض پاک پر لگے ان بدنما داغوں کو دھو کر دنیا کے نقشہ میں وہ مقام دلائیں جن کا ہمارے آباؤ اجداد نے خواب دیکھا اور ہمارے لئے اس وطن کو دنیا سے حاصل کیا ۔ دنیا میں سربلندی، آزادی اور خود مختاری کے ساتھ رہنے اور ارض پاک کو حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ ثابت کرنے کے لئے ہم عوام کو قائد اعظم کے تین نکات ”اتحاد٬ تنظیم٬ یقین محکم “ پر عمل کرنا ہوگا۔ راقم السطور کی نظر میں یہ کوئی ناممکن بات نہیں صرف سچے جذبے کی ضرورت ہے۔ آغاز کے لئے ہم سب ذخیرہ اندوزی٬ کرپشن٬ رشوت و ناجائز منافع خوری٬ اقرباء پروری سے توبہ کرلیں تو وطن عزیز سے محض ایک ماہ میں مہنگائی اورغربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ آئندہ انتخابات میں ہم ان تمام سیاست دانوں کو یکسر مسترد کر دیں جو ہمیشہ خود غرضی اور ذاتی مفاد کو مقدم رکھتے چلے آرہے ہیں٬ چاہیے اس حوالے سے ہمیں اپنی نظریاتی وابستگیوں تک کی قربانی ہی کیونکر نہ دینی پڑے اگر ہم عوام نے یہ دو اہم قدم اٹھا لئے تو منزل ہماری دسترس میں ہوگی ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی ہدایت سے نوازے اور ارض پاک کو استحکام و سرفرازی سے ہم کنار کرنے میں ہماری رہنمائی اور مدد فرمائے۔ (آمین)
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112611 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More