ریل کہانی

اگرچہ اس بات کو کئی دن گزر گئے ہیں لیکن گزشتہ چند دنوں سے آنکھوں کے سامنے آنے والی خبریں میرے زخموں کو ہرا کر رہی ہیں۔ اخبارات کا مطالعہ کرتے وقت روز تازہ ہوجانے والے زخموں پر گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ایک اعلان کے ذریعے نمک پاشی کر دی۔ جس کرب اور تکلیف کا ذکر کرنے جارہا ہوں وہ دکھ میرا ہی نہیں بلکہ روزانہ پاکستان کے ہزاروں شہری اس کرب سے گزرتے ہیں۔ یقینا میاں صاحب کے اس بیان کے ساتھ ان کو بھی تکلیف پہنچی ہوگی کہ ہمارے محترم وزیراعظم نے دورہ چین کے دوران کہا کہ وہ پاکستان میں بلٹ ٹرین چلائیں گے۔ یہ بہت ہی اچھا بیان تھا اور ایک ترقی یافتہ ملک میں ایسے ہی منصوبوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے لیکن گزشتہ دنوں کراچی سے لاہور اور پھر لاہور سے کراچی بذریعہ ٹرین سفر کرنے کے دوران میں نے پاکستان میں بلٹ ٹرین کی نہیں بلکہ موجودہ ریلوے کے نظام میں بہتری کی ضرورت کو محسوس کیا ہے۔ ریل کے سفر کے دوران اپنے ساتھ پیش آنے والے چند واقعات اور مشاہدات بیان کررہا ہوں جن کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس وقت پاکستان کا ریلوے نظام کس صورتحال سے دو چار ہے اور جب پاکستان کی ٹرینوں پر سفر کرنے والا کوئی بے چارہ وزیراعظم کا یہ بیان پڑھے گا کہ پاکستان میں بلٹ ٹرین چلائیں گے تو یہ اس کے زخموں پر نمک پاشی نہیں تو اور کیا کہلائے گا؟

مجھے حالیہ دنوں اپنے آبائی علاقے میں جانا تھا اس بار اہلیہ اور چند ماہ کا ایک بچہ بھی ہمراہ تھا۔ اسی لیے سوچا کہ بس میں اتنا طویل سفر کرنا مشکل ہوجائے گا لہٰذا میں نے بس پر ریل کو ترجیح دی اور اپنی سہولت اور جیب دونوں کو دیکھتے ہوئے ایک نجی شعبے کی ریل میں سفر کرنے کے لیے 5 دن پہلے ہی ٹکٹ خرید لیے۔ ’’باکمال سروس، لاجواب لوگ‘‘ کا سلوگن رکھنے والی اس ٹرین سروس کا چند سال قبل افتتاح ہوا تھا تومجھے بھی اس پر سفر کرنے کا ایک موقع ملا تھا اور نجی شعبے کی اس ٹرین کا وقت پر پہنچنا، صاف ستھری بوگیاں اور صفائی و سکیورٹی کے اچھے انتظام نے مجھ کو متاثر کیا تھا لہٰذا دلی طور پر مطمئن تھا کہ سفر اچھا گزرے گا لیکن پتہ نہیں کیا ہوا اس نجی ریل کو ناجانے بلور صاحب کی نظر لگ گئی ہے یا موجودہ وزیر کا سایہ اس کے لیے بابرکت ثابت نہیں ہوا۔ مطلوبہ دن سفر شروع ہونے سے قبل ہی میرے لیے آزمائش شروع ہوگئی میں اپنا سفری بیگ اورسوٹ کیس تیار کر کے گیٹ تک لے آیا تھا اور دروازے کے سامنے ٹیکسی بھی آگئی تھی اچانک میرے فون پر ایک میسج آیا جس میں کہا گیا تھا کہ شام 6 بجے کینٹ اسٹیشن سے لاہور کے لیے روانہ ہونے والی ٹرین اپنے مقررہ وقت سے لیٹ ہوچکی ہے لہٰذا گاڑی رات 8 بجے روانہ ہوگی۔ بروقت اطلاع ملنے پر میں نے اﷲ کاشکر ادا کیا اور ٹیکسی والے کو ساری صورتحال بتائی اور کہا کہ بھائی اگر تمہیں اِدھر اُدھر کی سواری مل رہی ہے تو پکڑ لو ہم نے اب 7 بجے روانہ ہونا ہے تاکہ وقت مقررہ پر پہنچ سکیں۔ جب ہم 8 بجے پلیٹ فارم پہنچے تو وہاں لوگوں کی بڑی تعداد شدید گرمی میں بیٹھی یا زمین پر ہی کوئی چادر وغیرہ بچھا کر لیٹی ہوئی تھی، ان میں بعض تو بیچارے ایسے تھے جو شام5 بجے سے ٹرین کا انتظار کر رہے تھے۔ ٹرین 8 کی بجائے مزید ایک گھنٹہ تاخیر سے پلیٹ فارم پر پہنچی اور ہم نے اﷲ کا شکر ادا کیا کہ ریل چل پڑی لیکن میری یہ خوشی عارضی تھی کیونکہ کراچی سے نکلنے کے بعد جھمپیر کے مقام پر جا کر انجن نے ٹرین کے بوجھ کو لے کر چلنے سے معذرت کر لی۔ ایک جنگل نما مقام پر ٹرین کے رک جانے سے مسافر کافی پریشان ہوئے گرمی اور حبس کے ساتھ مچھروں نے بھی یلغار کردی۔ 7ماہ کے ننھے حماس مچھروں کے حملوں سے بے چین ہوکر زور زور سے رونے لگ گئے۔ یہ صورتحال میرے لیے مزید پریشان کن تھی۔ ادھر ادھر معلوم کرنے سے پتا چلا کہ ریل کا انجن فیل ہوگیا ہے اور اب نیا انجن کراچی سے آئے گا تو گاڑی اپنی منزل کی جانب چلے گی جو طویل انتظار کے بعد بالآخر رات 1 بجے پہنچا اور گاڑی نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ یوں ہم اگلے دن 12 بجے کے بجائے شام ساڑھے 6 بجے لاہور پہنچے۔

واپسی پر ایک بار پھر قسمت مجھے اسی نجی کمپنی کے ریل گاڑی پر سفر کرنے کے لیے لے آئی۔ دفتر میں حاضری کے سبب جلد ہی چل پڑا کہ گھر جا کر ایک دن آرام کے لیے مل جائے گا۔ جاتے وقت جو مشکل پیش آئی اس پر دل کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں آخر وہ بھی ایک انسان کی بنائی ہوئی ایک مشین ہے کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے اور میں ایک بار پھر سفر کا عزم کر کے تیاری و پیکنگ کرنے لگ گیا اس بار مجھے نائٹ کوچ کے بجائے صبح 6 بجے چلنے والی گاڑی کا ٹکٹ ملا۔ لیکن روانگی سے قبل پھر میرے لیے ویسی ہی آزمائش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ صبح 6 بجے چلنے والی ٹرین اڑھائی گھنٹے لیٹ تھی مگر اذیت میں اضافہ اس وقت ہوا جب بتائے گئے مقررہ وقت پر بھی ٹرین پلیٹ فارم پر نہیں پہنچی۔ لاہور کی شدید گرمی میں مسافروں کا بر ا حال ہو رہا تھا۔ ایسے میں گرمی اور پیاس نے ستایا تو ہمارے نئے نئے وزیر ریلوے محترم سعد رفیق صاحب کا بیان یاد آیا کہ ٹرینوں کی تاخیر کی صورت میں مسافروں کو کھانا اور پانی مفت فراہم کیا جا ئے گا۔ اس بیان کے ذہن میں آتے ہی پلیٹ فارم پر چکر لگانے لگ گیا کہ کہیں تو بیچارے مسافروں کے لیے یہ سخاوت کی جارہی ہوگی لیکن ایسا کچھ نہ پاکر مجبوراً میں اسٹال پر پانی خریدنے چلا گیا اسٹال والے بھی مسافروں کی مجبوری سمجھتے ہیں لہٰذا اس نے 40، 50 روپے میں ملنے والی پانی کی بوتل 70 روپے میں مجھ کو تھما دی۔ صرف لاہور میں نہیں بلکہ تمام ریلوے اسٹیشنوں پر انتہائی ناقص اشیاء اور جعلی منرل واٹر کی بوتلیں مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں اور مسافر یہ خریدنے پر مجبور ہیں۔

بالآخر 11 بجے کے قریب ٹرین آ کر اسٹیشن پر رکی تو انتظار اور گرمی کی شدت سے بے حال تھکے ماندے مسافر اس پر ٹوٹ پڑے۔ ٹرین انتہائی سست رفتار سے چلنا شروع ہوئی اور چند کلو میٹر کا سفر 3 گھنٹوں میں طے کیا۔ ٹرین کے اتنا سست رفتار سے چلنے کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ریلوے انتطامیہ نے مزید تاخیر سے بچنے کے لیے ایک کم طاقت والا انجن لگا کر ریل کو روانہ کر دیا ہے بعد میں طاقتور انجن آنے کے بعد ریل اپنی مطلوبہ رفتار کے ساتھ چلنا شروع ہوئی۔

کراچی سے لاہور کے لیے ہم نے جس بوگی پر سفر کیا وہ پھر بھی کچھ سہولیات سے آراستہ تھی یعنی اکانومی کلاس کے لیے سب سے بڑی سہولت قابل استعمال حالت میں ٹوائلٹ، پنکھے اور لائٹ کا موجود ہونا ہے لیکن لاہور سے کراچی کے لیے جس انداز میں بوگیوں کو جوڑا گیا تھا اس سے کہیں بھی یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ نجی شعبے کی خصوصی گاڑی ہے اس بات کے ثبوت کے طور پر کہ یہ نجی شعبے کی گاڑی ہے ایک بوگی کے باہر نمایاں طور پر ’’اے آر ایس‘‘ لکھا ہوا تھا باقی اندرونی طور پر اس کی حالت سرکاری ٹرینوں جیسی ہی تھی۔ یعنی ٹوٹے پھوٹے پانی سے خالی اور غلاظت سے اٹے باتھ رومز، ٹوٹی ہوئی لائٹیں اور صفائی کا فقدان ایسی گاڑی جس کا سفر ہی اس قدر تکلیف دہ ہو اس کے انجام کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں اور یوں جس گاڑی نے رات بارہ بجے ہمیں کراچی پہنچانا تھا صبح 10بجے کے قریب ہمیں کینٹ اسٹیشن پر اتارا۔

میری وزیر ریلوے اور وزیر اعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ اس وقت بھی پاکستانی عوام کا بڑا حصہ ٹرین کے سفر کو ترجیح دیتا ہے آپ مقروض اور معاشی طور پر بے حال ملک کے کھربوں روپے لگا کر فی الحال بلٹ ٹرین سروس کا نہ سوچیں بلکہ پاکستانی عوام کا جو طبقہ ریل پر سفر کرتا ہے اس کے لیے یہی ریلوے کا نظام اچھا ہے۔ بس ذرا سی مہربانی کر کے محکمہ ریلوے میں جو کرپشن ہورہی ہے اس کو ختم کریں اور چند کروڑ روپے لگا کر سرکاری گاڑیوں کو پابندی کے ساتھ چلائیں۔ اربوں روپے لگا کر چلائی گئی بلٹ ٹرین کے ٹکٹ بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو ں گے بلکہ اتنا زیادہ ملکی سرمایہ خرچ ہونے کی بعد عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی بڑھے گا۔ جس طرح میٹرو بس سروس سے عوام الناس کی ایک بہت محدود تعداد فائدہ اٹھا رہی ہے اوراس پر لاگت بہت زیادہ آئی ہے بالکل یہی صورتحال بلٹ ٹرین کی ہوگی۔ لہذا کچھ پاکستان اور اس کی عوام پر رحم کرتے ہوئے محکمہ ریلوے کو سدھارنے کے لیے خداراکچھ اقدامات کریں۔
Muhammad Naeem
About the Author: Muhammad Naeem Read More Articles by Muhammad Naeem : 20 Articles with 15574 views Member of KUJ | Sub-Editor/Reporter at Weekly Jarrar & KARACHIUPDATES |Columnist | http://www.facebook.com/Tabssumnaeem
.. View More