پندرہ جولائی 2013 ءکو دنیا بھر سے ٹیلی گرام سروس کا خاتمہ

بہت سے لوگ جن کی کوئی نہ کوئی یاد اس ایجاد سے وابستہ ہے، اس کے خاتمے کی خبر سے افسردہ ہیں ۔ مگر یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا۔

یہ مئی 1844 ءکی 24 تاریخ تھی جب واشنگٹن میں بیٹھے سیموئیل مورس نے بالٹی مور میں اپنے کاروباری حلیف الفریڈ ویل کو ایک پیغام بھیجا ۔ مورس کو اپنی اس ایجاد کی اہمیت کا اندازہ تھا جبھی اس نے قدیم انگریزی میں پیغام دیا “خدا نے ہم سے کیا کام کروالیا ہے”۔

اور واقعی یہ ایک ایسا بڑا کام ثابت ہوا کہ صدیوں کے فاصلے لمحوں میں سمٹ گئے ۔ 1855 ءمیں امریکا سے ہزاروں میل دور بیٹھے سرسید احمد خان نے جب غالب سے اپنی تالیف ’ آئین اکبری‘ پر تقریظ لکھوانی چاہی تو غالب نے لکھا

۔”اس دفتر پارینہ کو زندہ کرنے کے لئے سر سید جیسے با صلاحیت آدمی کا اس قدر محنت صرف کرنا وقت کا زیاں ہے۔ یہ وقت آئین اکبری پہ نگاہ بازگشت ڈالنے کا نہیں بلکہ انگریزوں کے دستور آئین سے نظر ملانے کا ہے۔ جنہوں نے عناصر فطرت کو تسخیر کر کے نو بہ نو ایجادات کی ہیں اور بحر و بر پر اپنا سکہ رواں کر دیا ہے”۔

آگے چل کر انھوں نے لکھا

Mirza-Ghalib۔”ابھی تک آپ اپنے پرانے آئین جہاں بانی کی ترتیب و تصحیح میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ زندگی کا نیا آئین کلکتہ پہنچ گیا ہے اور بہت جلد ہند کی ساری تہذیبی زندگی کو اپنی گرفت میں لے لے گا”۔

غالب آخر غالب رہے۔اور صرف دو برس بعد اسی ٹیلی گرام کی بدولت انگریزوں نے 1857 ءکی جنگ جیت لی۔

اردو ادب میں اس ٹیلی گرام سے وابستہ بہت سے ادب پارے بھی موجود ہیں ۔ رتن ناتھ سرشار کا فسان آزاد ہویا نذر سجاد حیدر کا ناول مذہب عشق، پطرس کا میں ایک میاں ہوں یا جوگندر پال کا ٹیلی گرام۔ اس ٹیلی گرام کا ذکر جابجا موجود ہے۔

انیسویں اور بیسویں صدی کے بہت سے واقعات بھی ٹیلی گرام سے جڑے نظر آتے ہیں۔

ہوائی جہاز کی ایجاد ہو یا ٹائی ٹینک کی غرقابی، پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہو یا دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ۔ ہر واقعے کی اطلاع کے ساتھ ٹیلی گرام وابستہ ہے۔

مگر اب یہ سب کچھ قصہ پارینہ بننے والا ہے۔ ٹیلی گرام کی حکمرانی سو سواسو سال رہی۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے زمین کی طنابیں سمٹ گئیں ۔ دنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی۔ فیکس، کورئیر، انٹرنیٹ، ای میل، سیلولر فون اور پھر ایس ایم ایس اطلاع کا تیز ترین ذریعہ بنتے چلے گئے۔ لوگ ٹیلی گرام کو بھولتے چلے گئے ۔ صرف بھارت میں 1985 ءتک روزانہ چھ کروڑ ٹیلی گرام بھیجے جاتے تھے جو 2008 ءمیں 22 ہزار روزانہ اور 2013 ءمیں 5 ہزار ٹیلی گرام روزانہ تک آگئے۔

telegram 2یہ خط نہیں ہے تار ہے جواب کا انتظار ہے جیسے عامیانہ اشعار اپنا مفہوم کھونے لگے۔تار برقی،تار بابو اور تار گھر کے الفاظ بے معنی ہونے لگے تو پھر تار کب تک زندہ رہتا۔

امریکا، آسٹریلیا، جرمنی، آئر لینڈ،ملائیشیا،نیپال اور نیوزی لینڈ میں تو تار برقی بند ہوہی چکا تھا، ساڑھے سات برس پیشتر 30 نومبر 2005ءکو پاکستان نے بھی ٹیلی گرام کو دیس نکالا دے دیا۔ اب دنیا میں صرف بھارت ہی ایک ایسا ملک بچا تھا جہاں ٹیلی گرام کا سلسلہ کسی کسی نہ کسی طور باقی تھا۔

مگر اب وہاں سے بھی اس نظام کی سناؤنی آگئی ہے۔ اطلاع ہے کہ 14 جولائی 2013 ءکو بھارت میں بھی ٹیلی گرام ختم ہوجائے گا۔ اس رات جو آخری ٹیلی گرام روانہ کیا جائے گا اس پر انگریزی میں اسٹاپ لکھا ہوگا اور یوں 15 جولائی 2013 ء کو یہ 169 سالہ سلسلہ ماضی کی داستان بن جائے گا۔۔۔۔۔
Najamuddin Ghanghro
About the Author: Najamuddin Ghanghro Read More Articles by Najamuddin Ghanghro: 583 Articles with 703004 views I m now Alhamdulillah retired from Govt. Service after serving about 39 ys. Passing ,Alhamdulillah a tense less life. MAY ALLAH CONTINUE IT.AAMEEN

.. View More