(حقیقت میلادالنبی (چوتھا حصہ

احادیث میں یوم عاشورہ کے حوالے سے جشنِ میلاد کو عید مسرت کے طور پر منانے پر محدثین نے استدلال کیا ہے۔ یوم عاشورہ کو یہودی مناتے ہیں اور یہ وہ دن ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ اس طرح یہ دن ان کے لیے یوم فتح اور آزادی کا دن ہے جس میں وہ بطور شکرانہ روزہ رکھتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ ہجرت کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود مدینہ کا یہ عمل دیکھا تو فرمایا کہ موسیٰ پر میرا حق نبی ہونے کے ناتے ان سے زیادہ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورا کے دن اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ اس پر بھی بہت سی روایات ہیں جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی کا دن جشن عید کے طور پر منا سکتے ہیں تو ہم مسلمانوں کو بدرجہ اولیٰ اس کا حق پہنچتا ہے کہ ہم حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن مثالی جوش و خروش سے منائیں جو اﷲ کا فضل اور رحمت بن کر پوری نسل انسانیت کو ہر قسم کے مظالم اور ناانصافیوں سے نجات دلانے کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
3. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727
4. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130
5. أبوداود، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444
6. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734
7. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، 336، رقم : 2644، 3112
8. أبو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567

آخری بات یہ کہِ اس کائناتِ اَرضی میں ایک مومن کے لیے سب سے بڑی خوشی اِس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماہِ ولادت آئے تو اسے یوں محسوس ہونے لگے کہ کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور اس کے لیے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ جس طرح اُمم سابقہ پر اس سے بدرجہ ہا کم تر احسان اور نعمت عطا ہونے کی صورت میں واجب کیا گیا تھا جب کہ ان امتوں پر جو نعمت ہوئی وہ عارضی اور وقتی تھی اس کے مقابلے میں جو دائمی اور اَبدی نعمتِ عظمیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہورِ قدسی کی صورت میں اُمتِ مسلمہ پر ہوئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ بدرجہ اَتم سراپا تشکر و امتنان بن جائے اور اظہارِ خوشی و مسرت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔

قرآن مجید نے بڑے بلیغ انداز سے جملہ نوع انسانی کو اس نعمت اور فضل و رحمت کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے جو محسنِ انسانیت پیغمبر رحمت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں انہیں عطا ہوئی اور جس نے ان اندھیروں کو چاک کر دیا جو صدیوں سے شبِ تاریک کی طرح ان پر مسلط تھے اور نفرت و بغض کی وہ دیواریں گرا دیں جو انہیں قبیلوں اور گروہوں میں منقسم کیے ہوئے تھیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.

’’اور اپنے اوپر (کی گئی) اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے۔

آل عمران، 3 : 103

ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پھر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو رشتہ اُخوت و محبت میں پرو دینا اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا اور شکرِ اِلٰہی بجا لانا اُمتِ مسلمہ پر سب خوشیوں سے بڑھ کر واجب کا درجہ رکھتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 94334 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.