حقیقت میلاد النبی - حصہ سوم

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِO

البقرة، 2 : 152

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور (میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کروo‘‘

اس آیتہ کریمہ میں تلقین کی گئی ہے کہ خالی ذکر ہی نہ کرتے رہو بلکہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر شکرانے کے ساتھ ایسے کرو کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ خلقِ خدا بھی اس کو سنے۔ اس پر مستزاد اظہارِ تشکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نعمت پر خوشی کا اظہار جشن اور عید کی صورت میں کیا جائے۔ اُممِ سابقہ بھی جس دن کوئی نعمت انہیں میسر آتی اس دن کو بطورِ عید مناتی تھیں۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں وہ بارگاہِ اِلٰہی میں یوں ملتجی ہوتے ہیں :

رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا.

القرآن، المائدة، 5 : 114

’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)۔‘‘

یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت پر عید منانے کا ذکر ہے۔ عیسائی لوگ آج تک اتوار کے دن اس نعمت کے حصول پر بطور شکرانہ عید مناتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا نزولِ مائدہ جیسی نعمت کی ولادت و بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ اس نعمتِ عظمیٰ پر تو مائدہ جیسی کروڑوں نعمتیں نثار کی جاسکتی ہیں۔

’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب ایک یہودی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ جس دن آیت۔ اَلْیَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ۔ نازل ہوئی اس دن کو بطور عید مناتے ہیں؟ اگر ہماری تورات میں ایسی آیت اترتی تو ہم اسے ضرور یومِ عید بنا لیتے۔ اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور جگہ کو جہاں یہ آیت اتری تھی خوب پہچانتے ہیں۔ یہ آیت یومِ حج اور یومِ جمعۃ المبارک کو میدانِ عرفات میں اتری تھی اور ہمارے لیے یہ دونوں دن عید کے دن ہیں۔

1. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1 : 25، رقم : 45
2. مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017
3. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043
4. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012

اس پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر تکمیلِ دین کی آیت کے نزول کا دن بطورِ عید منانے کا جواز ہے تو جس دن خود محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اسے بہ طور عید میلاد کیوں نہیں منایا جاسکتا؟ یہی سوال فضیلتِ یومِ جمعہ کے باب میں اَربابِ فکر و نظر کو غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

رِوایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے میلاد کی خوشی میں بکرے ذبح کر کے ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔ اس پر امام سیوطی (849۔ 911ھ) کا اِستدلال ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب آپ کی ولادت کے سات دن بعد کرچکے تھے اور عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار کیا جاتا ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ضیافت اپنے میلاد کے لیے دی تھی عقیقہ کے لیے نہیں۔

روایات شاہد ہیں کہ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پورا سال نادر الوقوع مظاہر اور محیر العقول واقعات کا سال تھا۔ اس میں اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول جاری رہا یہاں تک کہ وہ سعید ساعتیں جن کا صدیوں سے انتظار تھا گردشِ ماہ و سال کی کروٹیں بدلتے بدلتے اس لمحہ منتظر میں سمٹ آئیں جس میں خالق کائنات کے بہترین شاہکار کو منصہ شہود پر بالآخر اپنے سرمدی حسن و جمال کے ساتھ جلوہ گر ہونا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کے موقع پر اِس قدر چراغاں کیا کہ شرق تا غرب سارے آفاق روشن ہو گئے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ نے اُن سے بیان کیا :

شهدت آمنة لمَّا وُلِدَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فلمَّا ضربها المَخَاض نَظَرْتُ إلي النجوم تدلي حتي إني لأقول : إنها لتقعن عليّ. فلما ولدت خرج منها نور أضاء له البيت الذي نحن فيه والدَّار، فما شيء أنظر إليه إلا نور.

’’جب ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وقت آیا تو میں سیدہ آمنہ سلام اﷲ علیھا کے پاس تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے آسمان سے نیچے ڈھلک کر قریب ہو رہے ہیں یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے اوپر گر پڑیں گے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر جس میں ہم تھے اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘

1. شيباني، الآحاد والمثاني : 631، رقم : 1094 (أم عثمان بنت أبي العاص رضي اﷲ عنها)
2. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 147، 186، رقم : 355، 457
3. ماوردي، أعلام النبوة : 247
4. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
5. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 111
6. أبونعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
7. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 247
8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 79
9. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264
11. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 220
12. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
13. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی نبوتِ مبارکہ کی شروعات کیسے ہوئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

دعوة أبي إبراهيمَ، وبُشري عيسي، ورأت أمي أنه يخْرُجُ منها نور أضاءت منه قصور الشام.

’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت ہوں۔ اور (میری ولادت کے وقت) میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ اُن کے جسم اَطہر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘

1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 262، رقم : 22315

2. ابن حبان نے ’’الصحیح (14 : 313، رقم : 6404)‘‘ میں ایک اور سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔
3۔ بخاری نے ’’التاریخ الکبیر (5 : 342، رقم : 7807 ! 1736)‘‘ میں مختلف سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔
4۔ بخاری نے ’’التاریخ الاوسط (1 : 13، رقم : 33)‘‘ میں مختلف سند سے انہی الفاظ پر مشتمل طویل روایت بیان کی ہے۔

5. ابن أبي أسامه، المسند، 2 : 867، رقم : 927
6. روياني، المسند، 2 : 209، رقم : 1267
7. ابن الجعد، المسند : 492، رقم : 3428
8. طيالسي، المسند : 155، رقم : 1140
9. طبراني، المعجم الکبير، 8 : 175، رقم : 7729
10. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 402، رقم : 1582
11. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 46، رقم : 113
12. لالکائي، اعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 422، 423، رقم : 1404
13. أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6 : 90
14. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 248
15. ابن عساکر، السيرة النبوية، 1 : 127
16. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 275، 306، 322
17۔ ہیثمي نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
18. سيوطي، کفايۃ الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 79

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 94741 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.