تھانہ کلچر بدلنا ہے تو سیاسی کلچر بدلو

سیّدناالشیخ عبدالقادرجیلانی حضورغوث پاک ؓ کے عہدمیں ایک نوجوان ان کی تعلیمات اورکرامات کے بارے میں کافی کچھ سن کربیعت کیلئے حاضرخدمت ہوا مگراس کی درخواست کے باوجود غوث اعظمؓ نے اسے اپنا مریدبنانے سے صاف انکار کردیاکیونکہ آپ ؓ اس کی ایک ناپسندیدہ عادت سے آگاہ تھے،آپ ؓ کے انکار پر وہ نوجوان منت سماجت پراترآیا ۔اس نوجوان کی آنکھوں میں محبت ،عقیدت،صداقت اورتڑپ دیکھتے ہوئے حضرت غوث اعظمؓ نے اسے کہا اگرتم میری تین شرطیں مان لوتوتمہاری مرادپوری ہوجائے گی ۔حضورغوث پاکؓ کامثبت جواب سن کر وہ نوجوان فوراً مان گیا اوران سے شرطیں پوچھیں جس پرآپؓ نے فرمایا میری پہلی شرط یہ ہے کہ تم ہرصورت بروقت نماز اداکروگے۔تم جہا ں بھی ہونا وہاں وضوکرنا، اذان دینااوراس طرح نمازپڑھنا گویاتم نمازکی امامت کررہے ہو، نوجوان فوراً مان گیا ۔غوث اعظم ؒ نے دوسری شرط میں فرمایا تم ہرگز جھوٹ نہیں بولو گے ،نوجوان یہ بھی مان گیا ۔اس پرسیّدناالشیخ عبدالقادرجیلانی ؓ نے تیسری شرط کے بارے میںفرمایا تم زندگی میں کبھی چوری نہیں کروگے ،یہ شرط سن پراس نے حضرت غوث اعظمؓ کو بتایا چوری ہماراخاندانی پیشہ ہے اسلئے میں آپ ؓ کی تیسری شرط نہیں مان سکتا لہٰذاءمجھے چوری کرنے کی چھوٹ دے دی جائے اس پرحضرت غوث اعظمؓ نے تیسری شرط عائد نہیں کی ۔وہاں سے رخصت ہوکراس نوجوان آپ ؓ کی ہدایات کے مطابق باقاعدگی سے نمازپڑھنا شروع کردی ۔ایک روز اس نے چوری کی نیت سے بادشاہ کے قصر میں نقب لگا ئی اورشاہی خزانے تک جاپہنچااورکافی مال وزرسمیٹ لیا مگراس دوران نمازفجر کاوقت ہوگیا اوراسے حضرت غوث اعظمؓ کی شرط اور نصیحت یادآگئی مگراس کے دل میں خیال آیا اگرمیںنے قصر کے اندر اذان دی توشہنشاہ اورپہرے داروں کو اس کی موجودگی کاعلم ہوجائے گا اور اس صورت میں میری گرفتاری یقینی ہے پھراس نے سوچا اگرآج میں نے اذان نہ دی اورنمازادانہ کی تو زندگی بھراپنے مرشدکاسامنا کرنے کے قابل نہیں رہوں گا۔اس نے وضو کیا اوراذان شروع کردی ،اپنے قصرمیں اذان کی آوازسن پربادشاہ کوخوشگوارحیرت ہوئی ،اس نے سوچاکوئی اللہ تعالیٰ کاولی اس کے قصرمیں آگیا ہے ۔بادشاہ نے وضوکیااور اپنے وزیروں کے ہمراہ اس نوجوان کی امامت میں نماز اداکی ،اس چورنے جب نمازختم کرکے پیچھے مڑکردیکھا توشہنشاہ اوروزیروں کواپنی امامت میں نمازپڑھتے ہوئے پایا ۔شہنشاہ نے نوجوان سے اس کے بارے میں پوچھا تواس نے بتایامیں چورہو ں مگربادشاہ نے یہ بات تسلیم کرنے سے صاف انکارکردیا اورنوجوان سے کہاتم چورنہیںہوسکتے ۔وہ نوجوان بادشا ہ کو اس دیوارکے پاس لے گیاجہاں اس نے نقب لگائی تھی اورپھراس نے وہ زروجواہردکھائے جواس نے شاہی خزانے سے چوری کئے تھے ۔شہنشاہ بھی بڑا دانااوردوراندیش تھااس نے نوجوان کواپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا ''جو دل للہ تعالیٰ کی یادسے آبادہواورجہاں سچائی کی روشنی ہو وہاں کوئی چورنہیں رہ سکتا''۔

ان دنوں پھرسے قومی اداروں سے بدعنوانوں کوہٹانے اورتھانہ کلچر تبدیل کرنے کامژداسنایا جارہا ہے ۔میں سمجھتاہوںآفیسرزیااہلکاروں کوبرطرف کرکے بدعنوانی کاباب بند نہیں کیا جاسکتااس کیلئے ان کے اندر کا چورنکالناہوگاجس طرح اگرکسی کنویں میں کتا گرجائے توکنواں پاک کرنے کیلئے پانی نہیںکتا نکالناپڑتا ہے۔ہمارے اداروں میں سرکاری ڈیوٹی کے فرض کوانتہائی اہمیت دی جاتی ہے مگر زیادہ تر افرادکوفرض نماز کی بروقت بجاآوری سے سروکار نہیں ہوتا ۔ ایک سابقہ اے ایس پی کینٹ نے اپنے آفس کے سپاہی کوڈیوٹی کے دوران نمازجمعہ اداکرنے پر معطل کردیا تھا،اس سیّدزادے کے بقول ڈیوٹی کافرض نمازسے زیادہ بڑافرض ہوتاہے ۔جوانسان خودکوبدلناچاہتا ہے ،جوبرائیوں سے نجات اورفلاح پاناچاہتا ہے وہ نماز شروع کردے اس کی کایاپلٹ جائے گی۔نمازہرقسم کی برائیوں کیخلاف ڈھال کاکام کرتی ہے۔اداروں سے بدعنوانی سمیت دوسری برائیاں دورکرنے کیلئے اہلکاروں اورجیل کے اسیران کوباجماعت نماز پڑھنے کی تاکید کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم وتربیت کیلئے ہفتہ واریاماہواربنیادوں پردرس قرآن کااہتمام کیا جائے۔تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے ملک میں رائج سیاسی کلچر بدلناہوگا۔ہماری پولیس کاریمورٹ کنٹرول حکمرانوں اورسیاستدانوں کے ہاتھوں میںہے ۔زیادہ ترواقعات میںڈوریاں سیاستدان ہلاتے ہیں مگرناکامی اوربدنامی کابوجھ پولیس کواٹھاناپڑتاہے جبکہ زیادہ ترسیاستدانوں کا دھونس دھاندلی کے زورپر اسمبلیوں میں آناجانالگارہتا ہے۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی کابیڑابھی سیاستدان اٹھاتے اورتھانہ کلچر کابیڑاغرق بھی وہی کرتے ہیں،انہیں پولیس کوایک خودمختاراوربااختیارادارہ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔پولیس فورس میں آئی جی سے سپاہی تک ان کی ٹرانسفرپوسٹنگ کارکردگی نہیں بلکہ پسندناپسنداورسفارش کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔اوپرسے آنیوالے ایک فون پربڑے بڑے آفیسر اِدھر سے اُدھر ہوجاتے ہیں ۔اگرواقعی تھانہ کلچر بدلناہے تواس ادارے کوسیاستدانوں کے چنگل سے چھڑاناہوگاجواسے اپنے گھر کی باندی بنائے ہوئے ہیںورنہ شہریوں اورپولیس کے درمیان بداعتمادی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ضروری نہیں آپ میری رائے سے اتفاق کریں مگرمیں سمجھتاہوں تھانہ کلچر کی تبدیلی اورپولیس فورس کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کیلئے ریٹائرڈجج صاحبان،سابق جرنیل حضرات ،ریٹائرڈ آئی جی اور دانشوروںکی ایک بااختیاراورخودمختارکمیٹی بنائی جائے جوقابلیت اورسنیارٹی کی بنیادپربراہ راست آئی جی سمیت اعلیٰ آفیسرز کی ٹرانسفرپوسٹنگ کرے اورحکمرانوں کوپولیس کے کسی بھی معاملے میں بیجا مداخلت سے روکے ۔پولیس والے اس وقت تک ڈیلیور نہیں کرسکتے جس وقت تک انہیں اپنی پرموشن اورٹرانسفر پوسٹنگ کیلئے سیاستدانوں کے محلات کاطواف کر نے سے نجات نہیں مل جاتی ۔پاکستان کاکوئی ادارہ بدعنوانی سے سوفیصد حدتک پاک نہیں ہے تاہم کرپشن کی میراتھن ریس میں سیاستدان پچھلی کئی دہائیوں سے اپنی نمبرون پوزیشن برقراررکھے ہوئے ہیں جبکہ پولیس کامعاملہ بدسے بدنام برا کے مصداق ہے ۔ ہمارافرسودہ سیاسی نظام تھانہ کلچر کی تبدیلی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ ہمارے طاقتورسیاستدان انتخابات کے دوران پولیس کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔

جس طرح پولیس میں آئی جی پی خان بیگ، ناصرخان درانی،ملک احمدرضاطاہر، کیپٹن (ر)محمدامین وینس،جاویدسلیمی، چودھری شفیق،اختر حیات خان لالیکا،جواداحمدڈوگر کی صورت میں فرض شناس اوردبنگ آفیسرزکی کمی نہیںمگرکچھ گندی مچھلیاں بھی ہیں جوقانون کی پاسداری سے زیادہ اپنے سرپرست سیاستدانوں کی احکامات کی تعمیل کواپنافرض سمجھتی ہیں۔ پہلے پولیس والے قاتلوں اورقحبہ خانوں سے ''وصولی '' نہیں کرتے تھے مگراب لاہورمیں جابجا قحبہ خانے چل رہے ہیں اورہمارامعاشرہ اخلاقی دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہاہے ۔تھانہ فیکٹری ایریاوالٹن کی سرکاری گاڑی روزانہ صبح فیروزپورروڈپر ایک بدنام زمانہ ہوٹل کے بالمقابل کھڑی ہوتی ہے اورباوردی اہلکار اندربیٹھ کرناشتہ کر تے ہیں ۔اس ہوٹل میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کوگھنٹوں کی بنیادپرروم رینٹ پرفراہم کئے جاتے ہیں۔کوئی باضمیرانسان جس کے گھر میں ماں ،بیوی ،بہن اوربیٹی ہووہ اس طرح کی سرگرمیوں کی سرپرستی نہیں کرسکتا ۔اس قسم کی چندگندی مچھلیوں نے پورے تالاب کوگنداکردیا ہے اورلوگ پوری پولیس فورس پرانگلیاں اٹھاتے ہیں۔تاہم اگر کسی رشوت خوریاکام چور اہلکارکومعطل یابرطرف کیاجاتا ہے تو اسے چند گھنٹوں،دنوں یادوچارمہینوں میں سیاستدانوںاورصحافیوں سمیت مختلف بااثرشخصیات کے دباﺅپرتنخواہوں اور مراعات سمیت بحال اوردوبارہ اسی سیٹ پرتعینات کردیا جاتاہے۔دباﺅمیں آکر کام کرنیوالے آفیسر بھی ان سیاستدانوں کے رحم وکرم پرہوتے ہیںاگرکوئی حکم نہ مانے تواگلے روزاس کے ہاتھوں میں تبادلے کاپروانہ تھمادیااسے اوایس ڈی بنادیا جاتا ہے۔درحقیقت طاقتورسیاستدانوں اورسرمایہ داراشرافیہ نے پاکستان اوراس کے بیشترقومی اداروں کویرغمال بنایا ہوا ہے۔

حاجی حبیب الرحمن نے بحیثیت آئی جی پی اپنے منصب کے ساتھ بھرپورکمٹمنٹ اوراپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کی بنیادپر اچھی یادیں چھوڑی ہیں۔آئی جی آفس سے پنجاب بھرمیں تھانوں تک آج بھی حاجی حبیب الرحمن کی دوررس اصلاحات دیکھی جاسکتی ہیں۔ حاجی حبیب الرحمن نے بحیثیت آئی جی پی اپنے معتمدٹیم ممبرز خان بیگ(سٹنگ آئی جی پی )،ناصرخان درانی ،کیپٹن (ر)محمدامین وینس ،اخترحیات خان لالیکا اوردوسرے آفیسرز کی معاونت اورمشاورت سے تھانہ کلچرکوتبدیل کرنے کی سنجیدہ کاوش کی مگرسیاسی کلچر کاپہاڑ ان کی راہ میں حائل ہوگیا تاہم پھربھی وہ جاتے جاتے پولیس فورس کی اصلاح کیلئے کئی انمٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں اوریقیناان کاویژن ان کے بعدآنیوالے پنجاب کے آئی جی حضرات کیلئے مشعل راہ ہے۔آئی جی پی خان بیگ کئی اہم عہدوں پربااحسن فرائض منصبی انجام دے چکے ہیں۔خان بیگ ڈسپلن اورکارکردگی پرکمپرومائز نہیں کرتے۔پنجاب کے انتھک اورمنتظم وزیراعلیٰ شہبازشریف نے پنجاب میں امن وامان کی صورتحال کوبہتر بنانے کیلئے خان بیگ کوآئی جی پی مقررکیا ہے تویقیناوہ خان بیگ کی انتظامی اورقائدانہ صلاحیتوں سے آگاہ ہوں گے کیونکہ کوئی کاہل اورنااہل میاں شہبازشریف جیسی متحرک شخصیت کے ساتھ دو قدم نہیں چل سکتا۔خان بیگ کوکسی''کال''پرنہیں بلکہ ان کی کمٹمنٹ اورکارکردگی کی بنیاد پرآئی جی پی مقررکیا گیا ہے ،میںخان بیگ کودیکھتاہوں تومجھے حاجی حبیب الرحمن یادآجاتے ہیں۔پولیس فورس کے ایک زبردست آفیسرکیپٹن (ر)محمدامین وینس ان دنوں ایک اہم کورس میں مصروف ہیں ۔ فائٹر امین وینس اب تک ہرعہدے پراپنی خدادادصلاحیتوں کالوہامنوانے میں کامیاب رہے۔ شہریوں کوامیدہے امین وینس کاکورس مکمل ہونے کے بعدانہیں ان کی قابلیت اورصلاحیت کے مطابق اچھی پوسٹنگ ملے گی ،اس قسم کے دبنگ آفیسر پولیس فورس کے ماتھے کاجھومر ہیں،میں نے کئی بار حاجی حبیب الرحمن کو اپنے سابقہ معتمدامین وینس کی صلاحیتوں کی توصیف کرتے سنا ہے۔پولیس فورس کی ڈی پی آرنبیلہ غضنفر بھی ہرطرح کے حالات میں اپنے کام سے انصاف کرتی ہیں ۔سمارٹ جواداحمدڈوگربڑے کام کے آفیسر ہیں امید ہے ان سے کوئی بڑاکام لیا جائے گا۔ڈی پی اوساہیوال سیّد خرم علی شاہ ،ڈی پی اوخانیوال راناایازسلیم ،زیرک سلمان سلطان رانا،منجھے ہوئے ایس پی چودھری ذوالفقار احمد،پرجوش ایس پی شعیب خرم جانباز،فرض شناس عاطف حیات،انصاف پسندصابربھٹہ،جہاندیدہ حاجی عباس،درویش صفت مستحسن شاہ،خوش مزاج ذوالفقاربٹ ،پروفیشنل عاطف معراج ،انتھک مختارعلوی اورپرعزم ناصرخان لودھی کی صورت میں امن وامان کیلئے سردھڑ کی بازی لگانیوالے آفیسرز پولیس فورس اورمعاشرے کااثاثہ ہیں۔ پولیس سمیت ہرشعبہ میں گندی مچھلیاں ہیں تاہم پولیس میں اب بھی فرض شناس آفیسرز کی اکثریت ہے ۔پرانی انارکلی میں بم دھماکے سے قیمتی جانوں کاضیاع سی سی پی اولاہور چودھری شفیق وران کی ٹیم کیلئے ایک چیلنج اوران کاکڑاامتحان ہے۔قانون فطرت کے مطابق تبدیلی ہمیشہ اوپرسے نیچے کی طرف آتی ہے جس دن ہمارے سیاستدانوں نے اپنارویہ درست اور کلچرتبدیل کرلیا اس دن تھانہ کلچر بھی خودبخودبدل جائے گا۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.