اے،بی،سی اور ڈی گروپ تعلیمی ادارے

اُوپن ائیر کھلی ہوا والے بنا درو دیوار کے 15ہزار9سو 96 ا سکولز معصوم بچوں کو تازہ ہوا فراہم کر تے ہیں ۔54ہزار8سو7ا سکولوں میں پینے کاپانی موجود نہیں تاکہ بچے اپنے گھروں سے صاف اور شفاف پانی تھرماس میں بھر کے ساتھ لائیں خود بھی پئیں اور اساتذہ کو بھی پلاکر اجرِ عظیم حاصل کریں۔اِن ہی اسکولوں کی بدولت دوسرے تمام اسکولوں میں بھی پانی کی فراہمی کو معطل کرنے کے بارے سوچنے کے بعد سمجھا جا رہا ہے۔57ہزار7سو34 اسکولوں میں بیت الخلاء موجود نہیں۔کہا جاتا ہے کہ بھوت اسکولز سب سے زیادہ سند میں ہیں جِن کی تعداد 7ہزار5سوکے لگ بھگ بتائی جاتی ہے ۔پنجاب میں بھی بھوت اسکولز ہیں مگر صرف 3ہزار کے قریب ،رپورٹ کے مطابق سرحد میں 18سو اور بلوچستان میں 325تک بھوت سکولز ہیں تعلیم کے قدردانوں کی کرم نوازی سے اسلام آباد میں بھی 20کے قریب بھوت سکولز کا انکشاف ہوا ہے ۔ پرائیویٹ اسکولز میں ایک بچے کی فیس اُس کے غریب والدِ محترم کے پورے ماہ کے وظائف کے ہم پلہ ہوتی ہے جبکہ کتابیں یہاں بھی کاغذ کی پڑھائی جاتی ہیں سونا چاندی کے مصنوعی ورک تک استعمال نہیں ہوتے۔

ایک کہاوت ہے کہ’’ گیلی مٹی سے خود بخود اینٹیں نہیں بن جاتیں ۔کمہار جو کچھ چاہے گیلی مٹی سے بنا ئے یہی حال نئی پود کا ہوتا ہے‘‘ہماری قوم کی نئی نسل کا مستقبل اِن تین ہستیوں کے ہاتھ میں ہے ۔1۔والدین(گھر) 2۔ مولوی حضرات (مدارِس) 3۔ اساتذہ اکرام(اسکول)معذرت کے ساتھ یہ تینوں ہستیاں اپنے اپنے فرائض میں کوتاہی برت رہی ہیں اور رہتی کسر صاحبِ اقتدار نکال دیتے ہیں۔

غربت کے ستائے والدین پرائیویٹ تو کیا نچلے درجے کے سرکاری اسکول میں بھی اپنے جگر گوشہ کو داخل کر وانے کی استطاعت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ انہیں کچی عمروں میں ہی دینی مدارس کے حوالے کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ کھانا ، پینا ،رہائش وغیرہ سب کچھ فری ہوتا ہے۔یوں معصوموں کے ذہن مختلف انداز میں نشو نما پاتے ہیں ۔قلم پکڑنے کی چاہ دِل میں دبائے ہزاروں معصوم بچے سگنل پرکھڑے وائپر اور رومال تھامے اشرافیہ کی چمکتی ماروتیوں کو مذید چمکا رہے ہوتے ہیں ۔کیا غربت امیری کی زر خرید غلام بن کر رہ گئی ہے ؟کاروں میں بیٹھنے والے تمام بڑے بھی بچے ہوتے ہیں جبکہ فٹ پاتھوں اور سگنلوں پر کھڑے معصوم بچے بھی بچے نہیں حقیراور اچھوت کہلائے جاتے ہیں۔جب تک ہمارے نظریات ،ہماری سوچ نہیں بدلے گی تب تک کچھ نہیں بدلے گا خواہ سو سال مذید ہی کیوں نہ گذر جائیں۔ہمیں مستحکم ہونے کیلئے اپنی آنے والی نسلوں کو بِلا امتیاز ایک جیسا نصاب ،ایک جیسا تعلیمی معیار اور ایک جیسا ماحول مہیا کرنا ہوگا۔جب تک حکومت غریب عوام کی جانب سے کیے گئے پرائیویٹ اسکولز کی فیسوں میں کمی کے مطالبے پر عملدرآمد نہیں کرواتی تب تک اندازِ تعلیم اور معیارِ زندگی میں اُونچ نیچ کا تناسب برقرار رہے گا۔نہ صرف پورے پاکستان کا نصاب ایک ہونا چاہیے (یہاں مادری زبان کی تبدیلی کی بات ہر گز نہیں ہو رہی ،نصاب ایک اندازِ بیاں خواں کوئی بھی ہو) بلکہ تعلیمی معیار ایک ہو اورفیسوں میں زمین و آسمان کا فرق بھی نہ ہو ۔
اگر ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے ایک جیسے گوشت پوست کے انسانی بچوں کی تعلیم و تربیت میں فرق کرنا انتہائی مقصود ہے تو اِس تجویز پر عمل کرتے ہوئے پورے پاکستان کے اسکولوں کو 4مختلف گروپوں میں منقسم کر دیا جائے ۔(D) ،(C) ،(B) ،(A) یقینا (A) گروپ کے اسکولوں کی فیسیں بھی اے کلاس کی ہوں گی اور (D) گروپ یقینا سب سے نچلے درجے کے اسکول میں شامل ہوگا ۔(A) گروپ کے اسکولوں سے ٹیکس بھی (A) کلاس یعنی 50سے100روپے پر بچہ وصول کیا جائے۔اِسی طرح (B) ، (C) اور (D)سے بھی مخصوص ٹیکس وصول کیا جائے۔کونسا اسکول کِس گروپ میں شامل ہے باہر لکھا ہوناضروری ہے ، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہو……’’خبر دار! تمام غریب بچے (C) ،(B) ،(A)اسکولوں سے دور رہیں…… وزارتِ امیری‘‘۔یوں ثابت ہو جائے گا کہ غریب کے بچے پیدا ہوتے ہی (D) کلاس کے قابل ہوتے ہیں۔جب اُردو کی کی لغت ایک ہے ،انگلش کی ڈکشنری ایک ،میتھ کے کلئے ایک تو پھر تعلیم و تربیت کا معیار کیوں جدا جدا ہے؟پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں نے خواتین کی تعلیم کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے۔وہ یہ بات کیوں بھول گئے کہ بچپن میں وہ جِن اُستانیوں سے پڑھے ہیں وہ بھی تو خواتین ہی تھیں ۔نیلسن منڈیلا کے مطابق ’’دنیا کو تبدیل کرنے کا موثر ترین ہتھیار تعلیم ہے‘‘۔

آج ہم پڑھی لکھی اور ذہین بیوی کا انتخاب کرتے ہیں مگر اپنی بیٹی یا بہن کی تعلیم کو بیڑیاں پہنا کر گھر میں نظر بند کر دیا جاتا ہے۔’’یہ تعلیم و تربیت اور خواندگی کی قلت ہی تو ہے جو گزشتہ روز پنجاب( سمبڑیال) میں ہار سنگہار کیے عروسی جوڑے میں ملبوس دلہن رخصتی کا انتظار ہی کرتی رہی اور بینڈ باجوں کے ساتھ آنے والی بارات کھا پی کے عین رخصتی کے وقت اِک ’’دودھ پلائی‘‘ کی چھوٹی سی رسم پر جھگڑ کر بنا دلہن ہی واپس لوٹ گئی۔یہ جہالت کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے‘‘ ۔نصاب میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اِس بات پر بھی غورکرنا ہوگاکہ ملک میں ہر طبقے کیلئے ایک ہی معیارِ تعلیم کیسے رائج کیا جائے؟گاؤں دیہات اور شہری ٹیچرز کی تربیت نئے ایک جیسے تعلیمی نصاب اور تعلیمی ماحول کے عین مطابق کی جائے۔حکومت اگر نئی نسل کی تعلیم وتربیت کیلئے بہترین حکمتِ عملی اپنا لیتی ہے تواِس طرح جیل خانوں ،اصلاح خانوں ،مقدموں اور مجرموں پر خرچ ہونے والے اخراجات میں بھی نمایا کمی کی جاسکتی ہے۔ بیشمار پرائیویٹ اسکولز ہفتہ اور اتوار دو دِنوں کی چھٹی مناتے ہیں جِس سے صرف اور صرف بچے کی تعلیم کا حرج ہے۔ اسکول مالکان اور ٹیچرز دو دِن خوب عیاشی کرتے نظر آتے ہیں۔تعلیمی اداروں کی ہفتے میں صرف ایک چھٹی پر خاص غور کیا جائے۔بیشمار اسکولوں میں10ماہ لگاتار فیسیں وصول کر نے کے بعد (جون ،جولائی) دو ماہ کی چھٹیوں کی فیس بھی وصول کی جاتی ہے ۔سمر کیمپ سے الگ کمایا جاتا ہے جو کہ ایک غریب کے ساتھ سراسر زیادتی ہے ۔

مفکرِ پاکستان علامہ اقبال ؒ کا ذکر ،اہم شخصیات کے بارے حقائق ،نعتیں اور نظمیں تیسری جماعت سے لیکر میٹرک تک نکال دینے کا فیصلہ کِسی محبِ وطن پاکستانی کا ہر گز نہیں ہوسکتا یقینا اِس کے پیچھے مخصوص ہاتھ ہیں ۔کچھ عرصہ قبل بھی پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں نے نصاب سے اسلامی مواد کے اخراج کا مطالبہ کیا تھا اور اِسے2013ء کی نگراں حکومت میں پایہ تکمیل تک پہنچائے جانے کا انکشاف ہوااِس معاملے میں لازمی انکوائری کمیشن تشکیل دی جانی چاہیے۔ یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو تعلیمی سرگرمیوں پر سب سے کم خرچ کرتا ہے ۔پاکستان تعلیم پر مجموعی پیداوارکا 2فیصد سے بھی کم خرچ کرتا ہے ۔نواز شریف صاحب نے کہا تھا کہ ہم تعلیمی بجٹ کو 4فیصدتک لے جائیں گے خدا کرے ایسا ہوجائے۔

آج بھی غریب گھرانوں میں مستقبل کے مفکر،دانشور،صحافی،شاعر،لیکچرار،علامہ اور اسکالر پیدا تو ہوتے ہیں مگر غربت کی کھینچی لکیر اور حکمرانوں کی غیر توجہی کی بدولت کبھی منظرِ عام پر نہیں آپاتے۔ایسے گھرانوں کے چشم و چراغ کم و بیش ہی اچھے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ غربت سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور برائی ہے ہی نہیں۔علامہ اقبال ؒ نے ٹھیک ہی فرمایا تھا کہ ’’غربت ام الخبائث ہے‘‘ابھی گزشتہ دِنوں نو لکھا تھانہ کی حدود میں لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ہوٹل میں 19سالہ آئی کام پارٹ ون کے طالب علم یاسر نے غربت کے ہاتھوں تنگ دل برداشتہ ہو کے زہریلی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی ۔یاسر بھی آگے بڑھنے کے خواب دیکھتا تھا اُسے بھی بڑا آدمی بنناتھا مگر یاسرشائد یہ رازِ نہاں جان گیا تھا کہ وہ (D)گریڈ ہے ۔ دہشت گردی ، بے روزگاری،لوٹ کسوٹ،فراڈ،دھوکہ دہی،قتل وغارت،خواتین کی بے حرمتی،خودکش دھماکے اور خودکشیوں کی اہم وجہ ناخواندگی اور غربت ہے۔اِس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مساوی تعلیم ہے ایسی تعلیم جو انسانیت سیکھاتی ہے۔ اِسی تعلیم و تربیت کے بل بوتے پر ہم امریکہ جیسے سُپر پاور کے بالمقابل آنے کے ساتھ ساتھہ اپنی ذہانت اور تعلیم کی بنا پر ہر پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل سے نمٹ سکیں گے یہاں تک کہ بجلی خود اپنے ہاتھوں سے پیدا کرسکتے ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ چند صاحب نظر افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے جِس کا کام صرف ہونہار اور قابل اسٹوڈنٹس کو زمین کی تہہ سے بھی ڈھونڈ کر نکالنا اور پھر اُن کو مخصوص وظائف اور مراعات فراہم کر کے مذید تراشنا اور نکھارنا ہو۔
Muhammad Ali Rana
About the Author: Muhammad Ali Rana Read More Articles by Muhammad Ali Rana: 51 Articles with 37552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.