حضرۃ الشیخ بنوری اور عربی زبان وادب- حصہ چہارم

فضیلۃ الشیخ ولی خان المظفر

ایک عالم نما کی تقریر پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
موصوف کی تقریر کا یہ خلاصہ ہے ، ظاہر ہے کہ تقریر کا یہ حصہ قطعاً تحقیق کے خلاف اور بڑی غلط فہمیوں پر مشتمل تھا اور قابلِ برداشت نہ تھا، راقم الحروف نے مجبور ہوکر صدرِ محترم کومخاطب کیا کہ مقرر موضوع سے باہر ہوگیا ہے اور آپ چونکہ اردو نہیں سمجھتے اس لئے تنبیہہ نہیں ہوا، براہِ کرم اس کو روک دیں چونکہ موصوف کی بات میرے نزدیک ناقابلِ برداشت تھی اس لئے طبعاً غصہ آنا چاہیے تھا، چنانچہ شدید اور سخت لہجہ میں یہ احتجاج عربی زبان ہی میں کیا:
’’یاسیدي الرئیس، أرجوک أن تُلجم ھذا الخطیب فإنہ قد خرج عن موضوعہٖ ووسّع دائرۃ الاجتہاد إلی النصوص القطعیۃ الصریحۃ أرجوکم أن تلجموہ‘‘․

جناب صدرِ جلسہ! مقرر کو روکئے، یہ اپنے موضوع سے نکل گئے ہیں اور انہوں نے نصوصِ صریحہ قطعیہ کو اجتہاد کے دائرے میں لانے کا دعویٰ کیا ہے اس لئے براہِ کرم روک دیجئے۔

میرے احتجاج پر مشرقی پاکستان کے دو عالموں نے مندوبین میں سے کھڑے ہوکر احتجاج کیا، مولانا مفتی محمود صاحب نے صدرِ جلسہ سے تنقید کے حق کا مطالبہ کیا، مندوبین کے علاوہ ہال میں سامعین نے شور مچایا، الغرض مقرر نے تقریر کو مختصر کرکے ختم کیا، سب سے پہلے ڈاکٹر سید محمد یوسف صاحب صدر شعبۂ عربی کراچی یونیورسٹی نے باجازتِ صدر عربی میں بہت عمدہ سلجھی ہوئی تقریر فرمائی کہ ’’عقل کے دائرے کو جو شخص اتنا وسیع کرے گا، کہ قرآن وحدیث کے صریح نصوصِ قطعیہ بھی اس کی زد میں آجائیں وہ تومسلمان ہی نہیں ہے‘‘۔ اس تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا اور عرب ممالک کے مندوبین بھی خوش ہوگئے۔ اس کے بعد ڈاکٹر حب ﷲ نے جو الأزہر میں مجمع البحوث الإسلامیہ کے ڈائریکٹر اور بڑے محقق عالم اور دینی تصلب وپختگی میں ممتاز ہیں، باجازتِ صدر نہایت عمدہ اور مؤثر تقریر فرمائی اور فرمایا کہ ’’افسوس کہ جناب مقرر نے جن احادیث سے عقل کی اہمیت بیان کی ہے، یہ احادیث بہت ہی ضعیف یاموضوعی ہیں اور عقل کا دائرہ شریعت کے اندر محدود ہے، عقل کو یہ آزادی کبھی نہیں دی گئی کہ شرائعِ الٰہیہ کے حدود سے باہر جائے، فلسفی عقل کے لئے شریعت میں کوئی جگہ نہیں، عملی عقل کا دائرہ وحیِ الٰہی کے دائرے میں ہے‘‘۔ باقی جو کچھ بقیہ تقریر کا حصہ تھا، چونکہ وہ خالص اردو میں تھا اس لئے ڈاکٹر حب اﷲ نہ سمجھ سکتے تھے نہ اس کی ترید فرماسکے، آخر میں صدرِ محترم السید الحسینی نے تنقید کے لئے راقم الحروف کو دعوت دی، میں نے چاہا کہ عربی میں تقریر ہو لیکن اردو خواں حاضرین کا اصرار تھا کہ تقریر اردو میں ہو تاکہ ان کے پلے بھی کچھ پڑے، کیونکہ سابق دو تقریریں عربی میں تھیں۔ (بصائر وعبر: ۶۷۶/۱)۔

میری تقریر ڈاکٹر حب ﷲ صاحب کی تقریر ہی کا تکملہ ہے، امتِ محمدیہ کا اس پر اجماع ہے کہ جو حکم شرعی قرآن وحدیث میں واضح طور پر آگیا ہے نہ اس میں اجتہاد کی گنجائش ہے نہ اس کی مخالفت کا امکان، اجتہاد کا دائرہ وہ حوادث وواقعات ہیں جہاں کتاب وسنت خاموش ہوں جو جدید مسائل پیش آئیں ان میں قرآن وسنت نے اجتہاد کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ اس کا حکم دیا ہے، ان مسائل میں اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا رہے گا، ان مسائل میں اجتہاد کو بند کرنا اسلام کو بدنام کرنا ہے، البتہ اجتہاد کے لئے اہلیتِ اجتہاد کی ضرورت ہوگی، اس کے لئے کوئی وجہِ جواز نہیں کہ جو شخص اجتہاد کااہل نہ ہو وہ بھی اجتہاد کرے……

آگے چل کر اپنی تقریر پر حاضرین کا تبصرہ نقل کرتے ہیں:
الحمدﷲ میری اس مختصر تقریر کی تصور سے بالاتر قدر افزائی ہوئی اور سامعین کو فوق العادہ سکون ہوا، عربی ممالک کے مندوبین میں سے الشیخ عبدالرحمن وکالی مراکش و رباط کے مندوب نے اٹھ کر فرمایا:
’’یاشیخ واﷲ إن خطابک وھذا الحدیث الذی ذکرتہ کان بلسماً لجروحنا‘‘․
’’آپ کے اس بیان اور اس حدیث نے ہمارے زخموں پر مرہم کا کام کیا‘‘۔

دوسرے دن اجلاس میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا مقالہ بہت اہم تھا، اجلاس الاستاذ احمد حسن الباقوری (جمہوریہ مصر) کی صدارت میں شروع ہوا اور حضرت مفتی صاحب نے اپنا مقالہ اردو میں پڑھ کر سنایا جو تقسیمِ دولت اور اسلامی نظام معیشت پر تھا، پسند کیا گیا، بعد ازاں چائے کے وقفے کے بعد جناب مسعود چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف کا انگریزی میں مقالہ تھا جس میں قرآن کریم سے’’اشتراکیت یاسوشلزم‘‘ کے اثبات کی کوشش کی گئی تھی، اور علماءِ امت پر کچھ ناشائستہ انداز سے تنقید تھی، مقالہ انگریزی میں تھا، مقالہ ختم کرنے کے بعد ہال میں شور اور غوغا آرائی ہوئی بلکہ اتنا شور ہوا کہ معاملہ قابو سے باہر ہوگیا، آخر مولانا مفتی محمود صاحب نے استاذ باقوری سے تقریر کرنے کی اجازت لی کہ یہ ہنگامہ بغیر تردیدی تقریر کے خاموش نہیں ہوسکتا، چنانچہ مفتی صاحب کی تقریر سے لوگوں کو تسلی ہوگئی اور اس روز کی مجلس بھی ختم ہوگئی (أألائک آبائي فجئني بمثلہم إذا جمعتنا یاجریر المجامع)۔ (بصائر وعبر: ۶۸۰/۱)۔
شعبہ تحقیق وتصنیف کی تأسیس کے ذیل میں لکھتے ہیں:

ہمیں اپنی کوتاہ سامانی اور کم مائیگی کے ساتھ ساتھ اس راستے کی مشکلات کا پورا احساس ہے، تاہم اﷲ تعالیٰ کی نصرت و اعانت کے بھروسے پر اپنے حقیر وسائل کے مطابق کئی موضوعات پر کام شروع کردیا گیا، الحمدﷲ چار مخلص ومحقق اہل علم واہل قلم اس خدمت کے لئے وقف ہیں، جن میں سے بعض حضرات اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں کے ماہر ادیب ہیں۔

عربی سے اردو ترجمہ کے لئے سب سے پہلے شیخ مصطفیٰ سباعی مرحوم کی کتاب ’’السنۃ ومکانتھا في التشریع الإسلامي‘‘ کو منتخب کیا گیا، جو اپنے موضوع پر بے نظیر جامع کتاب ہے، ترجمہ کی پہلی جلد طبع ہوچکی ہے اور دوسری زیر طبع ہے، اردو کتابوں میں مولانا محمد اسحاق صدیقی کی تصنیف ’’دینی نفسیات‘‘ اچھوتی کتاب ہے، جو زیرِ طبع ہے اس کے بعد موصوف کی دوسری تصنیف ’’ختمِ نبوت‘‘ عنقریب شائع کی جائے گی، جس میں مسئلہ ختم نبوت کے عقلی ونفسیاتی پہلوؤں پر نئے انداز سے بحث کی گئی ہے۔

کتابوں کی نشرواشاعت کے لئے ’’مکتبہ رشیدیہ غلہ منڈی ساہیوال‘‘ کو شعبۂ تحقیق و تصنیف مدرسہ عربیہ اسلامیہ کی جانب سے وکیل بنایا گیا ہے، اﷲ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے اس ذمہ داری کو بخوشی اٹھانا منظور کرلیا ہے، ہمیں حق تعالیٰ کے الطافِ غیبیہ سے امید ہے کہ جس طرح مدرسہ کی مشکلات کے حل کرنے میں ہماری دستگیری فرماتے ہیں، اسی رح اس شعبہ کی ضروریات کی تکمیل میں ہماری امداد فرمائیں گے، وھو ولي التوفیق والنعمۃ وھو حسبنا ونعم الوکیل․
جون ۱۹۷۶ء، ربیع الثانی ۱۳۹۲ھ۔
(بصائر وعبر: ۶۰/۲)۔

شیخ عبدالحلیم محمود شیخ الأزہرکی آمد کے موقع پر ان کے تاثرات کا اپنے الفاظ میں اظہار فرماتے ہوئے:
الحمدﷲ کہ موصوف کو مدرسہ دیکھ کر خوشی بلکہ حیرت ہوئی اور جب ایک امریکن نومسلم طالب علم یوسف طلال نے ان کے سامنے فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک تقریر پڑھ کر سنائی تو موصوف کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ نیویارک کا یہ نومسلم انگریز عربی زبان کا کس خوبی سے تلفظ کرتا ہے ، فرمانے لگے کہ زندگی میں پہلی مرتبہ ایک انگریز کو صحیح عربی تلفظ کرتے دیکھا، ہمارے طلبہ کے تخصصات (ڈاکٹریٹ) کے بعض مقالات کا جب ان کو علم ہوا تو خواہش ظاہر فرمائی کہ دو مقالے جن میں سے ایک عبداﷲ ابن مسعود پر تھا، وہ ادارۂ ازہر شریف کی طرف سے شائع کریں گے، یہ محض حق تعالیٰ جل ذکرہ کا احسان ہے کہ ہمارے ایک گمنام ادارے کی حیثیت اتنی کردی کہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی علمی یونیورسٹی اس کے طلبہ کے مقالات کو شائع کرنے کی خواہش کرتی ہے ﴿ذلک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم﴾(بصائر وعبر: ۳۲۸/۲)۔

جامعۃ الأزہر کو اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے:
ازہر میں ایک شعبہ قائم کیا گیا، جس کے زیر اہتمام تمام عالم میں خواہ اسلامی ہوں یا غیراسلامی، عربی ادب ، عربی علوم یا اسلامی دعوت کے لئے علماء بھیجے جاتے ہیں، چنانچہ امریکہ سے پاکستان تک یہ سلسلہ جاری ہے، کراچی، ڈھاکہ، لاہور، پشاور تمام جگہ یہ اساتذہ عربی سکھانے یا قرأت سکھانے یا بقیہ علوم سکھانے کے لئے موجود ہیں اور بعض ممالک میں تو اتنے علماء بھیجے کہ حد ہوگئی، صومالی لینڈ (صومالیہ) میں سو کے قریب عالم بھیجے، اس طرح ہزاروں کی تعداد میں ’’مبعوثین‘‘ باہر کی دنیا میں بھاری مشاہرات سے بھیجے جاتے ہیں، اور اہل وعیال سمیت ان کے آنے جانے کے لئے ہوائی جہازوں تک کے تمام مصارف حکومت برداشت کرتی ہے۔ (بصائر وعبر: ۳۴۷-۳۴۶/۲)۔

مدارس عربیہ کے لئے لائحہ عمل کے عنوان تلے رقمطراز ہیں:
9- عربی بولنے کی قابلیت مقاصد میں شامل کرنی چاہیے، تین سال کے بعد تدریس کی زبان عربی ہونا چاہیے۔
9- عربی ادب پر خاص معیار سے توجہ دینی ہوگی، تقریر و تحریر کی تربیت دی جائے اور اس کے لئے بہت تفصیل طلب اور مہم تنبیہات کی حاجت ہے، جو بعد میں عرض کروں گا۔
9- ہر زمانہ کا ایک فن ہوتا ہے، اس زمانہ کا مخصوص فن، تاریخ و ادب ہے، اس پر توجہ زیادہ کرنی ہوگی۔
9-قرآن کریم کا ترجمہ ابتداء سے شروع کرنا چاہیے اور تین چار سال میں ختم کرنا چاہیے، بغیر کسی تفسیر کے محض ترجمہ ابتداء ً زیردرس ہونا چاہیے اور قابلیت بڑھانے کے لئے مخصوص اجزاء اور سورتوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور لغوی وادبی تحقیق کے ساتھ پڑھانا چاہیے۔
9- طلبہ کے مطالعہ کے لئے ایک دارالمطالعہ مخصوص ہو، ان کے لئے مفید کتابیں اور عربی مجلات وجرائد رکھنے چاہئیں۔
9-مدرسہ کے سالانہ بجٹ میں ایک رقم مستقل بسلسلۂ اصلاحِ نصاب اور تبدیلِ کتب علیحدہ کرنا ضروری ہو، یہ اس لئے کہ نصاب کی مشکلات میں سب سے زیادہ مشکل مرحلہ ہمارے غریب مدارس کے لئے قلتِ سرمایہ کا ہے۔
9-تین نصابوں کی ضرورت ہے:
ایک سہ سالہ نصاب جس میں فقہ، قرآن وحدیث، تاریخ، صرف ونحو، معانی، عربی ادب ،عقائد اور فرائض شامل ہوں تاکہ جو شخص صرف اپنی ضرورت کے لئے عالم بننا چاہتا ہو، وہ علم حاصل کرسکے ، تعلیم تدریس کو پیشہ نہیں بنانا چاہتا ہو بلکہ تجارت وغیرہ میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہو۔ (الحمدﷲ یہ نصاب دراسات دینیہ کی شکل میں حضرت صدرِ وفاق نے خود مرتب کرکے جاری کردیا ہے)۔

مدرس وعالم بننے کے لئے نصاب زیادہ سے زیادہ ہشت سالہ ہو۔

تیسرا نصاب درجۂ تکمیل کا ہے، ایک سال کا اور دو سال کا ، اس میں مفتی، محدث، ادیب، مؤرخ وغیرہ اسی قسم کے چند شعبے ہوں۔ (بصائر وعبر: ۵۶۷-۵۶۶/۲)
(ختم شد)
zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 66206 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.