ایک سچا صحافی

 ۲۹جون۲۰۱۳ بروز ِہفتہ کوروزنامہ ایکسپریس میں چھپنے والے جناب طلعت حُسین صاحب کے کالم ’’میں ایک سورما صحافی ہوں‘‘کوپڑھنے کے بعد یقین جانیئے کہ دل جیسے ہماری قوم اورہماری قوم کے اُن نامور لوگوں کی مجبوریوں ، لاچاریوں اور بے بسی کو سوچ سوچ کے ایک ماتم کی کیفیت میں مُبتلا ہے،کہ جن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں کہ یہ تو آزاد میڈیاکے لیئے کام کرتے ہیں ،اور جو چاہے لکھ سکتے ہیں اور جو چاہے کہہ سکتے ہیں ، جب کہ حقیقت اِس کے برعکس ہے۔

میں یہ کالم چھپنے سے لیکر اب تک کئی بار پڑھ چُکا ہوں،اور بار بار پڑھنے کی وجہ شایدمیرے اندر میں کہیں نہ کہیں یہ بھی ہے کہ میں طلعت حُسین صاحب کی وہ کالم لکھتے وقت کی تکلیف کو سوچ کر اُن کے اندر کی بے بسی ،لاچاری اور غم کو بانٹنے کی جستجو کر رہا ہوں۔

حالانکہ ہم جیسے دیوانے لوگ اپنے اپنے ذاتی ماحول میں بیٹھ کر اپنے اپنے ذاتی دائروں کے اندر یہی باتیں چیخ چیخ کر بتا نے اور سمجھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کے سارے کے سارے صحافی کعبے کی اینٹ نہیں ہیں ،اور نہ ہی سارے کے سارے چینلز اور اُن کے مالکان زم زم سے نہائے ہوئے ہیں، لیکن چمک دھمک کے ساتھ ڈاریکٹ اِن ڈاریکٹ اَن دیکھے مداریوں کے ہاتھوں پیش کیئے جانے والے یہ پروگرامس دیکھنے والے لوگ یہ بات ماننے کو تیار ہی کہاں ہیں۔

خیر میری چاہت ہے کہ آپ سے طلعت حُسین صاحب کے کالم کا کچھ خاص حصہ شیئر کیا جائے ۔۔،

طلعت حُسین صاحب لکھتے ہیں
’’یہ کیفیت مجھ پر کبھی کبھی طاری ہوتی ہے۔لہٰذاجو میں کہنے جا رہا ہوں غور سے پڑھیئے گا۔میں آپ کوبتاتا ہوں میں کیا نہیں لکھ سکتا ہوں۔کون سے موضوعات ہیں جن پر نظردوڑاتے ہوئے میں گھبراتا ہوں۔حقائق سے آنکھیں چُراتا ہوں۔کون سے خوف مجھ پر روزانہ حملہ آور ہوتے ہیں اور میں اپنے قلعے کی فصیل کو چھوڑ کر پسپائی اِختیار کر لیتا ہوں،میں اور میرے وہ ساتھی جو میرے لکھے کو چھاپنے کے ذمہ دار ہیں آزاد نہیں۔میں جرات نہیں کر سکتا کہ آپ کو کراچی میں ہونے والی خون ریزی کی اصل وجوہات بتاؤں۔میری ہمت جواب دے جاتی ہے جب میں بوری بند لاشوں کے پیچھے ہونے والی خونی سیاست کی گٹھیاں سُلجھانے لگتا ہوں۔میں مُلک سے سارے باہر موجود قیادت پر تنقید نہیں کر سکتا۔میں حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں کے بارے میں آپ کو نہیں بتا سکتا، مجھے پتہ ہے اگر میں نے غلطی سے کراچی کو جلانے کی سازش کے بارے میں کچھ کہہ دیاتو وہ نہ ٹی وی پر چلے گااور نہ ہی وہ چھپے گا۔

میرے دوست صحافی پردے کے پیچھے مجھ سے اتفاق کرتے ہیں کہ اُن کے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں مگراپنی ناکامی کون مانتا ہے۔اپنے عیب بیان کرنے کی ہمت کس میں ہے۔نوکری سب کو پیاری ہے پیسے کے بغیر وقت گُزارنا مشکل ہے اور زندگی محض بیزاری ہے۔لہٰذا نہ میں خود سکت پاتا ہوں اور نہ دوست حوصلہ بندھاتے ہیں۔لہٰذا کراچی کے بارے میں ایک ہی رٹ ہے کہ اِس کی خرابی میں سب نے حصہ ڈالا ہے۔یہ جملہ سُن کر آپ کے کان پک گئے ہوں گے،میری بھی زبان تھک گئی ہے لیکن کیا کروں،دوسرا جملہ لکھنے کی گنجائش موجود نہیں۔

اِسی طرح کا ایک ممنوعہ موضوع میرے اپنے شعبے میں موجود کالی بھیڑیں ہیں۔یہ لوگ اپنی خواہشیں پوری کرنے کیلئے دہائیوں کی کاوش سے تیار کئے ہوئے صحافتی معیاراور اقدار کو پس پشت ڈال گئے ہیں۔بعض نے تو قلم کو اسکول کی ویگن کی طرح کرائے پر دیا ہُوا ہے جو ایک مہینے ایک محلے میں گھومتی ہے اور اگلے مہینے بہتر دام بٹورنے کیلئے کسی اور جگہ متعین ہو جاتی ہے۔ایسے لوگوں نے صحافت کو بدنام کر دیا ہے۔اِنہیں نہ اپنی ذمہ داری کا احساس ہے نہ دوسروں کے حقوق کا۔ان میں سیاسی جماعتوں کے پِٹھوہیں اور یا اس شعبے میں اُس محنتی اکثریت کے نام کو بیچنے والے جو باوجود مشکل حالات کے خاموشی سے اپنے صحافیانہ فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔اس مخصوص گروہ کہ چندافراد نہ جانے کن ایجنڈوں پر کام کرتے ہیں۔پاکستان کے چہروں پر روزانہ تیزاب پھینک کر انکو خوشی محسوس ہوتی ہے۔‘‘

طلعت حسین صاحب آگے لکھتے ہیں کہ
’’اِنکا ماضی عیاں ہونے کے باوجود ان کے راز افشاں کرتے ہوئے میں گھبراتا ہوں۔سوچتا ہوں کہ کہیں انکے ہاتھوں مارا نہ جاؤں۔ان کی تہمت لگانے کی فیکٹریاں دن رات چلتی ہیں۔ایسے ایسے افسانے گھڑ سکتے ہیں کہ کیا کوئی قابل جادوگر نظر کا دھوکا دیتا ہوگا۔ان کے تعلقات کا جال بھی وسیع ہے۔طالبان بھی انکے یار ہیں اور امریکی بھی ان کے مددگاروں میں شامل ہیں۔یہ خود کش حملہ آوروں کے ساتھ بھی ہیں اوران حملوں میں مارے جانے والوں کے لواحقین کے دُکھ میں شریک نظر آتے ہیں۔

میں انکا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔میں امریکہ کے خلاف بھی تسلسل سے نہیں لکھ سکتا۔میرا واشنگٹن سے کوئی جھگڑا نہیں ،ہو بھی کیسے سکتا ہے۔میں تیسری دُنیا میں کام کرنے والے چوتھے درجے کا صحافی ہوں اور وہ سُپر پاور۔‘‘

اور پھرذرا آگے چل کر طلعت حسین صاحب لکھتے ہیں کہ
’’ میں یہاں یہ بھی تصیح کرنا چاہوں گا کہ میں امریکہ کے خوف کی وجہ سے چُپ سادھے ہوئے نہیں ہوں۔۔میری جان،شام ،عراق،لیبیا،افغانستان،فلسطین کے مسلمانوں سے زیادہ قیمتی تو نہیں ہے کہ میں اس کے چلے جانے کی تشویش میں مُبتلہ ہو کہ حق گوئی کا راستہ ترک کر دوں۔میں خاموش اس وجہ سے ہوں کے ہمارے ذرائع ابلاغ کے نظام میں جو اثرورسوخ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے حاصل کر لیا ہے اُس کی موجودگی میں بات کرنا فضول ہے۔پروپیگنڈے کا ایک نقار خانہ ہے جس میں ایک طوطی کی آواز نے دبنا ہی ہے۔کون سا ایسا ادارہ ہے جہاں ان کے حامی اور دوست موجود نہیں ہیں۔‘‘

طلعت حُسین صاحب نے آگے لکھا کہ
’’اس کے علاوہ دہشت گردوں کے بارے میں بھی نہیں لکھ سکتاجن کے سامنے ریاست مُنہ نہیں کھولتی،منتخب حکومتیں راستہ تبدیل کر کے آئیں بائیں شائیں کرتی ہوئی اپنی توجہ کہیں اور مبذول کر لیتی ہیں،اُن سے میں سینگ کیسے لڑاسکتا ہوں۔ــ‘‘

اور پھر کالم ختم کرنے سے ذرا پہلے طلعت حُسین صاحب لکھتے ہیں کہ
’’مجھے معلوم ہے کے دہشت گردی افغانستان اور ہندوستان کی سر زمین سے باقائدہ منصوبے کے تحت پھیلائی جا رہی ہے۔میں نے کچھ شواہد بھی دیکھے ہیں مگر پھر حکومت اور ریاست کاروائی نہیں کرتی تو میں اکیلا کیا تیر مار لوں گا۔ویسے بھی شاہ رُخ خان اورکترینہ کیف کے جادو میں مُبتلہ قوم کو میں ان سازشوں سے آگاہ کر کے کتنی کامیابی حاصل کر لوں گا۔‘‘

یہ کچھ اہم پوائنٹس تھے جو میں نے طلعت حُسین صاحب کے کالم ـ’’میں ایک سورما صحافی ہوں‘‘ سے منتخب کر کے آپ سے شیئر کئے۔لیکن میری خواہش ہے کے آپ اِس کالم کو خود سے بھی ضرور پڑھیئے گا۔ ــ
کچھ لوگ شور شرابے اور چیخ و پُکار کے ساتھ بہت کچھ لکھ کر بھی یہ بتا جاتے ہیں کہ ہم بزدل انسان اور جھوٹے صحافی ہیں،لیکن کبھی کبھی کچھ لوگ نہایت نرم لہجے میں تھوڑا سا لکھنے کے باوجود بھی یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ وہ بہادر انسان اور سچے صحافی ہیں۔

میرے خیال میں طلعت حُسین صاحب نے تلخ حقیقتوں پر مبنی یہ کالم لکھ کرثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک بہادر انسان اور ایک سچاصحافی ہے۔اﷲ اُنہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔آمین۔
Nadeem Gullani
About the Author: Nadeem Gullani Read More Articles by Nadeem Gullani: 13 Articles with 8626 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.