مصری صدر اپنا لائحہ عمل جاری رکھنے کے لیے پرعزم

 عالم اسلام کے حالات دن بدن بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں۔ابھی ایک ملک کی حالت سدھرتی نہیں کہ دوسرے میں سازشیں شروع کردی جاتی ہیں۔برما، افغانستان، عراق ، چیچنیا،بوسنیا، کشمیر، فلسطین اور شام سمیت کئی علاقوں میں تو ایک عرصے سے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جاری ہے ہی، جو قدرے پرسکون اسلامی ممالک تھے، ان میں بھی اسلام دشمنوں نے اپنی دشمنانہ سازشوں کا آغاز کردیا ہے۔ پہلے ترکی میں اسلام پسندوں کی مستحکم و منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی، اس کے بعد مصر میں الاخوان المسلمون کی قائم حکومت کے خلاف سازشوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ابھی الاخوان المسلمون کو حکومت سنبھالے ایک سال ہی گزرا ہے، کہ ان سے غیروں کی سرپرستی میں حکومت ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

اتوار کے روز اسلام مخالف قوتوں کی سربراہی میں اخوان کی منتخب حکومت کے خلاف تحریر اسکوائر کے مقام پر ایک بہت بڑا احتجاجی جلوس نکالا گیا۔مظاہرین صدر مرسی سے حکومت چھوڑنے کا مطالبہ کررہے تھے۔اس کے بعدپیر کے روز مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مسلح افراد نے حکمراں جماعت الاخوان المسلمون کے ہیڈ کوارٹرز پر دھاوا بولنے کے بعد اسے نذرآتش کردیا ہے اور مظاہرین کے روپ میں بلوائی وہاں سے سامان لوٹ کر لے گئے اور عمارت کو نذر آتش کردیا ۔اخوان کے ترجمان کے بہ قول قریباً ڈیڑھ سو بلواَئیوں نے ہیڈکوارٹرز پر دھاوا بولا تھا۔عینی شاہدین کے مطابق عمارت پر مظاہرین کے پٹرول بموں سے حملے کے وقت اخوان کا کوئی کارکن دفتر میں موجود نہیں تھا اور انھیں وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔اخوان کے ہیڈ کوارٹرز پر حملے کے دوران مسلح بلوائیوں کی فائرنگ سے متعدد افراد بھی مارے گئے۔ محمد مرسی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران بعض گروہوں نے اخوان کے خلاف اپنے شدید جذبات کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس جماعت نے ان کے عوامی انقلاب کو ہائی جیک کر لیا ہے اور وہ اپنی انتخابی کامیابیوں کو اقتدار پر گرفت مضبوط بنانے اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے استعمال کررہی ہے۔واضح رہے کہ صدر مرسی نے مظاہرین کے مطالبات کے حل کے لیے حزب اختلاف کو مذاکرات کی پیش کش کی تھی اورحکومت مخالف ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بعد ایوان صدرکی جانب سے حزب اختلاف کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی پیش کش کی گئی۔صدارتی ترجمان ایہاب فہمی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ”ہم ڈائیلاگ کے ذریعے ہی کسی مفاہمت تک پہنچ سکتے ہیں۔ایوان صدر حقیقی اور سنجیدہ قومی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔“ فہمی نے مظاہرین پر زوردیا کہ وہ اپنے احتجاج کے دوران امن کو برقرار رکھیں اور مرسی مخالف مظاہروں کو مصر میں آزادی اظہار کی ایک مثال بنائیں۔ الااخوان المسلمون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی اخلاقی گراوٹ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مصری دارالحکومت کے معروف تحریراسکوائر پر منتخب جمہوری حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران غیر ملکی صحافی سمیت 70 خواتین کی عصمت دری کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ حکومت مخالف مظاہرے کے دوران مردوں کے گروپ خواتین کو جنسی ہوس کا نشانہ بناتے رہے ۔اتوار کومظاہرے میں 46 خواتین جبکہ پیر کو 17 خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ویب سائٹ پرجاری بیان کے مطابق حکومت مخالف مظاہرے کے اندر جرائم پیشہ افراد شامل ہیں جن کی نہ تو سیاسی تربیت ہے اور نہ وہ کسی کے کنٹرول میں ہیں۔اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو مظاہرین اس قدر گھٹیا حرکتیں کریں ان کے پس پشت کون سی قوتیں ہوسکتیں ہیں۔

الاخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ بلوائیوں نے تشدد کی آخری حد عبور کر لی ہے اور وہ اپنے دفاع میں کارروائی کرے گی۔اخوان کے ترجمان جہاد الحداد نے قاہرہ کے علاقے المقطعم میں مشتعل مظاہرین کے اپنے ہیڈکوارٹرز پر حملے کے بعد کہا ہے: ”مصری اس طرح کی کارروائیوں پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور نہ اپنے اداروں پر حملوں کو قبول کریں گے۔معاشرے میں کسی ادارے کے لیے یہ بہت ہی خطرناک رجحان ہے کہ وہ تشدد کو تبدیلی کے لیے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرے کیونکہ اس سے دوسروں کو بھی اسی کی شہ مل سکتی ہے۔“ انہوں نے سیکورٹی فورسز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اخوان کے ہیڈ کوارٹرز کو تحفظ مہیا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔صدر مرسی نے چند روز پہلے ہی اس بات سے اگاہ کیا تھا کہ سابق رجیم کے ارکان اور اسلام مخالف قوتیں ان کی حکومت کے خلاف سازش کررہے ہیں۔مرسی حکومت کے انتہا پسند ناقدین الاخوان المسلمون پرالزام عاید کررہے ہیں کہ وہ سرکاری اداروں میں اسلامیوں کی اجارہ داری قائم کررہے ہیں جبکہ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ عشروں سے بدعنوانیوں سے لتھڑے ہوئے اداروں کی تطہیر کررہے ہیں۔

دوسری جانب اتوار کے روزمصر کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے تمام سیاسی قوتوں کو کسی تصفیے تک پہنچنے کے لیے اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچتے تو پھر انھیں مستقبل کے لیے فوج کے نقشہ راہ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس میں ہر کوئی شامل نہیں ہوگا۔مصر کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے خبردار کیا کہ آرمی ملک کے حالات خراب ہونے کی صورت میں خاموشی تماشائی نہیں بنے گی اور وہ تشدد کو روکنے کے لیے مداخلت کرے گی۔سابق شکست خوردہ صدارتی امیدوار اور اپوزیشن لیڈر حمدین صباحی نے صدر مرسی کے اقتدار نہ چھوڑنے کی صورت میں فوج سے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”مسلح افواج کو اقدام کرنا چاہیے کیونکہ انھوں نے ہمیشہ عوام کی رائے کی طرف داری کی ہے۔“فوجی سربراہ کے بیان کے جواب میں مصر کے صدر محمد مرسی نے ملک میں جاری سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے فوج کی جانب سے دی گئی اڑتالیس گھنٹوں کی مہلت کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ اس سے صرف ابہام پیدا ہوگا۔صدر کا اصرار ہے کہ وہ قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے اپنا لائحہِ عمل جاری رکھیں گے۔ تاہم مصری فوج نے بعد میں اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد فوجی بغاوت نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں پر موجودہ کشیدگی ختم کرنے کے لیے زور دینا ہے۔بیان کے مطابق عسکری قیادت فوجی بغاوت کو پالیسی کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج 1977، 1986 اور 2011 میں مصر کی گلیوں میں رہی لیکن فوجی بغاوت نہیں کی۔تاہم مصری صدر محمد مرسی نے منگل کو کہا کہ فوج نے سیاستدانوں کو وقت دینے سے پہلے ان سے مشورہ نہیں کیا گیا۔صدارتی دفتر کا خیال ہے کہ اس بیان میں کچھ چیزیں ایسی ہے جس سے کنفیویژن بڑھنے کا خطرہ ہے۔ صدر مرسی کا اس بات پر اصرار ہے کہ انھوں نے حزبِ مخالف کے گروہوں کو مشاورت کی دعوت تو دی ہے مگر انھوں نے تعاون نہیں کیا۔ صدر کے حامی کہتے ہیں کہ مصر میں جو بھی بڑے بڑے مسائل ہوں، استحکام کے لیے صدر مرسی کو اپنی مدت مکمل کرنی چاہیے۔ اس سے قبل اپنی صدارت کے ایک سال کے موقع پر صدر مرسی نے کہا تھا کہ ملک میں جاری بے اطمینانی کے اظہار سے ’مصر کے مفلوج ہونے کا خطرہ‘ ہے۔

مرسی 30 جون 2012 کو انتخاب میں کامیابی کے بعد مصر کے پہلے اسلامی صدر بنے تھے۔ان کی صدارت کا ایک سال سیاسی بے اطمینانی اور معیشت میں گراوٹ کی زد میں رہاہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اخوان کی حکومت کے خلاف موجودہ سازش میں اسلام دشمن قوتیں شامل ہیں جو کسی طرح بھی اسلام پسند حکومت کو برداشت نہیں کرسکتیں۔اخوان حکومت کے ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے سراسر غلطی پر ہیں کیونکہ ابھی اخوان کو حکومت سنبھالے ایک سال ہی ہوا ہے ، جس میں حسنی مبارک کی حکومت کا کرپٹ گند صاف کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ایک سال میں تو حکومتیں صحیح طرح سے سنبھل بھی نہیں پاتیں، اخوان کی یہ کامیابی ہے کہ اس نے مصر کے دگرگوں حالالات کو صرف ایک سال کے عر صے میں کافی حد تک درست کردیا ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 635364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.