اضافی جنرل سیلز ٹیکس کی غیر قانونی وصولی کے خلاف عدالت عظمیٰ کا از خود نوٹس

عدالت عظمیٰ نے جی ایس ٹی میں کیا گیا اضافہ واپس لینے کا حکم دے کر حکمرانوں سیاستدانوں اور عوام کو بتا دیا ہے کہ عدالت صرف اور صرف قانون کی حکمرانی چاہتی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں عوام کے ساتھ ظلم نہیں ہونے دے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ عدلیہ کسی بھی پارٹی کی طرفدار نہیں کوئی بھی آئین اور قانون کے خلاف کام کرے گا عدلیہ اس کا نوٹس لے گی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے دور حکومت کا پہلا بجٹ پیش کیا تو بجٹ خسارہ کو کم سے کم کرنے کیلئے جہاں اس نے سولہ وزارتوں کے صوابدیدی فنڈز ختم کر دیئے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں کمی کی گئی۔ وزارتوں کی تعداد کو کم کیا گیا۔ وہاں اس نے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کر دیا۔ جنرل سیلز ٹیکس پہلے سولہ فیصد کے حساب سے وصول کیا جا رہا تھا۔ اس بجٹ میں اس کو بڑھا کر سترہ فیصد کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جن اشیاء پر جنرل سیلز ٹیکس لاگو نہیں ہوتاتھا۔ ان چیزوں پر بھی جنرل سیلز ٹیکس کا اطلاق کر دیا گیا۔ اس اضافہ کا اطلاق پٹرولیم مصنوعات اور گیس پر بھی ہوا جس سے ان کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کی تجویز آتے ہی ملک بھر میں مہنگائی کا ایک طوفان امڈآیا۔ اشیاء ضروریہ سمیت ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ عدالت عظمیٰ سابق دور حکومت میں سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف نوٹس لے چکی ہے۔ جس میں عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ تییس روپے کی سی این جی نوے روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ اسی کیس میں ایک اور ریمارکس میں عدالت عظمیٰ نے کہا بارتھا کہ جس کو دیکھو وہ لوٹ مار میں لگا ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سی این جی قیمتوں اور اخراجاتے تحقیقات بھی کرائی تھیں۔ جس کے بعد فاضل عدالت نے سی این جی کی قیمتیں کم کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد سی این جی تیس روپے کلو سستی ہوگئی تھی۔ یہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عوام کیلئے سب سے بڑا ریلیف تھا۔ جو عوام کو کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے نہیں عدالت عظمیٰ کی طرف سے ملا تھا۔ اس بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کے ساتھ ہی مہنگائی نے بھی اپنے تیور بدل لئے۔ جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ عدالت عظمیٰ نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف از خود نوٹس لے لیا۔ یہ نوٹس چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نوٹ پرلیا۔ اٹارنی جنرل اوگرا سمیت فریقین کو نوٹس جاری کردیئے گئے۔ از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی تو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے ابھی تک ٹیکس کی منظوری نہیں دی۔ صدر نے بھی دستخط نہیں کیے۔ پھر ایف بی آر نے نوٹیفکیشن کیسے جاری کر دیا۔ بل کی منظوری سے قبل ٹیکس کیسے لیا جاسکتا ہے؟ پارلیمنٹ سے بجٹ منظور ہوئے بغیر جی ایس ٹی میں اضافے کا اطلاق کیسے ہو گیا؟ ٹیکس قانون کے تحت ہی وصول کیا جاسکتا ہے۔ ابھی تک اس کا کوئی قانون پاس نہیں ہوا۔ جی ایس ٹی سولہ فیصد سے سترہ فیصد کر دیا گیا ہے۔ جی ایس ٹی میں اضافہ سے تما م اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ لگتا ہے کوئی روک ٹوک نہیں۔ ہم نوٹیفکیشن معطل کریں گے۔ قیمتوں میں اضافے پر عدالت کے تحفظات ہیں۔ جتنے پیسے وصول کیے گئے ہیں واپس کرائیں گے۔ ایف بی آر حکام لوگوں کا خون چوس رہے ہیں۔وزیر خزانہ نے ابھی تقریر میں فنانس بل کی تجاویز ہی دی تھیں۔ کہ حکومت کے وفاداروں نے بھاگم بھاگ سیلز ٹیکس نافذ بھی کردیا۔ اب لوگ متحرک ہیں اور کوئی غیر قانونی کام برداشت نہیں کریں گے۔ عدالت نے ایف بی آر سے نوٹیفکیشن طلب کر لیا۔ اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ عدالت نے ایف بی آر حکام کو فوری طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ جی ایس ٹی میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی پیش کیا جائے۔ قیمتوں میں اضافہ نئے مالی سال کے شروع ہونے سے ہی ہوسکتا ہے۔جو یکم جولائی سے شروع ہوتا ہے۔ عدالت یہ نوٹیفکیشن معطل کرے گی۔پارلمینٹ میں بحث کے بعد یہ اضافہ منظور نہ ہوا توپھر کیا ہوگا۔ کیا لوگوں کی جیبوں سے نکلا ہوا پیسہ واپس کیا جاسکے گا۔ عدالت نے کہا کہ خوردنی تیل پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا جس پر ہمیں سخت تشویش ہے۔ وزارت پٹرولیم اور ایف بی آر نے کس طرح سے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اٹارنی جنرل منیر ملک نے کہا کہ وہ حکومت سے ہدایت لے کر جواب دیں گے۔ عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ 1931ء کے تحت عبوری ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے۔ ٹیکس کی پیشگی وصولی کا مقصد ذخیرہ اندوزی روکنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ذخیرہ اندوزی ایک جرم ہے۔ وفاقی اورصوبائی حکومتیں ذخیرہ اندوزی روکنے میں ناکام رہیں۔ کھانے کی چیزوں پر بھی ٹیکس لگانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ابھی تک فنانس بل منظور نہیں ہوا اور ٹیکس وصولی شروع کردی گئی ہے۔ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اگر عدالت کو مطمئن نہ کیا گیا تو تمام نوٹیفکیشن منسوخ کر دیں گے۔ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز احمد نے کہا اس سے کیا فرق پڑجاتا پندرہ روز بعد ایسا کرلیا جاتا فنانس بل منظور ہونے دیا جاتا۔ منیر اے ملک نے کہا پندرہ روز بعد پٹرولیم مصنوعات میں بہت زیادہ اضافہ کرنا پڑتا۔ جسٹس اعجاز احمد نے کہا کہ جب اوگرا کو پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ تو وہ اپنے جاننے والے پٹرول پمپوں پر بتا دیتے ہیں۔ جس سے وہ پٹرول ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ عوامی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ اوگر اکے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاہم نے سب کچھ قانون کے مطابق کیا۔ عدالت چاہے تو اس کو معطل یا منسوخ کردے۔ چیف جسٹس نے کہام ہم کہہ دیتے ہیں جب تک فنانس بل منظور نہیں کر لیا جاتا اس کی وصولی روک دی جائے۔ ایکٹ کہتا ہے آپ سولہ فیصد ہی ٹیکس وصول کر سکتے ہیں۔ سی این جی پر چھبیس فیصد وصول کر رہے ہیں۔ عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ اور اٹارنی جنرل سے آئینی اور قانونی نکات پر معاونت طلب کرلی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کھانے پینے کی تیس سے زائد اشیاء کو اضافی ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ ایف بی آر کو کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس نہ بڑھانے کیلئے ٹیکس لکھ دیا۔ اضافی ٹیکس لینے والے تاجروں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ ایف بی آر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ روزمرہ کھانے پینے کی اشیا کو اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کا فیصلہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔ جوروزمرہ اشیا جی ایس ٹی اضافے سے مستثنیٰ ہوں گی۔ان میں سبزیاں، گوشت، دودھ، انڈے، سرخ مرچ، مچھلی، دالیں، ادرک، ہلدی، دلیہ، فروٹ، ادویات، پولٹری اور پولٹری فیڈ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دہی ، مکھن، نمک ، آلو، پیاز، ڈبل روٹی، نان ، چپاتی، بن، رس، اور بعض دیگر اشیا پر بھی ایک فیصد سیلزٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ایف بی آر کے مطابق تمام فیلڈ آفسز کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں مستثنیٰ قرار دی گئی اشیا پر دکاندار ایک فیصد اضافی ٹیکس وصول نہ کریں۔ اس حوالے سے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ عبوری ٹیکسز ایکٹ 1931ء کے تحت جی ایس ٹی کی شرح سولہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کرنے کا اطلاق مذکورہ تمام اشیا پر لاگو نہیں ہوگا۔ ان اشیا کو سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء کے تحت جی ایس ٹی میں اضافے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ سے فنانس بل کی منظوری سے قبل جی ایس ٹی کے نفاذ کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے وزارت خزانہ کا ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے بتایا اشیائے خوردونوش جیسے سبزی، دودھ، انڈے، مچھلی، پھل ، نان ، ڈبل روٹی اور ادویات ٹیکس کے نفاذ سے مستثنیٰ ہیں۔ اور وزارت نے اس سلسلہ میں ایف بی آر کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان اشیا پر وکوئی ٹیکس نہ لے سکے اور اس کی سخت مانیٹرنگ بھی کی جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جن اشیا پرٹیکس کا نفاذ نہیں ہوا۔ ان کی بھی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ عوام بے بس ہیں اور منہ مانگی قیمت ادا کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر جی ایس ٹی کا نفاذ ڈیکلریشن کے ذریعے ہی کرنا ہے تو آئین او ر پارلیمنٹ کی کیا ضرورت ہے۔ ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار تو صدر کو بھی نہیں۔ پارلیمنٹ اور آئین کا تحفظ کیا جائے جس کیلئے اتنے عرصے سے جدوجہد کی جارہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے جب کہا کہ ٹیکس کا قبل از وقت نفاذ ذخیرہ اندوزی روکنے کیلئے کیا گیا۔ تو چیف جسٹس نے کہا اس کا نقصان تو عام آدمی کوہوا۔ حالانکہ اس نے کون سا دوسوبوری آلو گھر میں ڈال لینا تھا یا دس گاڑیوں میں پٹرول ڈلوانا تھا۔ وہ تو ایک کار یا موٹر سائیکل کی ایک ٹینکی ہی بھروا سکتا ہے۔ جی ایس ٹی میں اضافے کے فوری نفاذسے مہنگائی کا طوفان آگیا۔ صارفین سے اربوں روپے وصول کیے جارہے ہیں جو قومی خزانے میں نہیں جیبوں میں ڈالے جارہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جی ایس ٹی کا فوری نفاذ 1931ء کے ایکٹ کے تحت کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جب اسمبلیاں موجودہیں تو ایسے قانون کو کیسے جواز بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت آئین کے تحت کام کر رہی ہے اسے آئین کی پاسداری کرنی چاہیے۔ نوے فیصد پٹرول پمپ غیرم رجسٹرڈ ہیں پھر حکومت کو ٹیکس کیسے ملے گا۔ قانون کے بھگوڑے غیر رجسٹرڈ افراد عوام پربوجھ ڈال رہے ہیں۔ ٹیکس مستقل ہوتا ہے جو نافذ کرنے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے۔ انگریزوں کے بنائے قوانین کے مطابق عوام پر کیسے بوجھ ڈالا جاسکتا ہے۔ بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ حکومت بذات خود طریقہ کار وضع کرلے ۔ بصورت دیگر عدالت فیصلہ کرے گی۔ حکومت کو ڈیکلریشن میں ترمیم کرنا پڑے گی ۔ ترمیم کے بعد بھی عدالت اس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا جن چیزوں پر ٹیکس کی چھوٹ تھی ان کا نوٹیفکیشن کیوں جاری نہیں کیا گیا۔ اخباری رپورٹس کے مطابق نوے فیصد کاروبار غیر رجسٹرڈ ہے۔ غیر رجسٹرڈ کمپنیاں جی ایس ٹی کا تقاضا نہیں کرسکتیں۔ عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے اوگرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ وہ دیگر ممالک میں اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اپنائے گئے طریقہ کار اورموجود قانون کے علاوہ عدالتی فیصلوں کی مثالیں عدالت میں پیش کرتے ہوئے عدالت کی معاونت کریں۔ مقررہ دن اس کیس کی سماعت ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومتیں ٹیکس کے بغیر نہیں چلتیں۔ حکومت کو ٹیکس لگانے سے نہیں روکتے لیکن جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ جی ایس ٹی لگانے کے موجودہ طریقہ کار کی اجازت دے دی توپارلیمنٹ کا کردار ختم ہو جائے گا۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت نے ٹیکس وصولیوں کے 1931ء کے عبوری ایکٹ کو کالعدم قرار دینا ہے تو پھر اس کو ماضی کی بجائے مستقبل سے کالعدم کیاجانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار مسلم لیگ ن کے اقبال ظفر جھگڑا کے وکیل کو دلائل دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ کے موئکل تو خود حکومتی جماعت کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ تو فاضل وکیل نے کہا میں آئین اور قانون کے مطابق دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے ۔فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت اوگرا کو ہدایت دے کہ جی ایس ٹی میں اضافے سے جو رقم حاصل ہوئی اس کو واپس لے کر بیت المال میں جمع کرایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا آج تو حکومت کا اپنا بندہ ہی یہ بات کررہا ہے ہم مثبت رویہ پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہی اصل قانون کی حکمرانی کی مثال ہے ۔ فاضل وکیل نے کہا میں حکومت کا حصہ ہوں موکل کے حوالے سے میری کچھ حدود ہیں ورنہ میں تو کہوں گا یہ لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ایف بی آر کے وکیل رانا شمیم نے کہا کہ جی ایس ٹی سولہ فیصد ہی ہے چھبیس فیصد کا تاثر غلط ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو ٹیکس لگانے سے نہیں روکتے۔ لیکن ٹیکس کیلئے جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ ایسا چلتا رہا تو ہر کوئی اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھادے گا۔ حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کیا دکانداروں نے قیمتیں پندرہ فیصد بڑھا دیں۔ جو چاہتا ہے اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا رہا ہے۔ ایف بی آر درست انداز میں کام کرے تو پیسہ باآسانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ غیر قانونی طور پر وصول کی گئی رقم واپس ہونی چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا پشاور ہائی کورٹ 1931ء کے ایکٹ کو درست قرار دے چکی ہے۔ اوگرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 63-A کے تحت کوئی بھی حکومتی رکن بجٹ تجاویز سے اختلاف نہیں کرسکتا ۔ سب کو یقین تھا کہ جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ کی تجویز منظور ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت ٹیکس لگانے کا اختیار پارلیمنٹ کو ہے ۔ اگر حکمران خود ٹیکس لگائیں گے تو پارلیمنٹ سے کو ن رجوع کرے گا۔ حکومت پٹرول اور گیس پر زیادہ سے زیادہ سولہ فیصد ٹیکس وصول کر سکتی ہے۔ سی این جی پر مجموعی طور پر چھبیس فیصد ٹیکس غیر منصفانہ ہے۔ کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جی ایس ٹی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا مختصر فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے میں پٹرلیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت کو اضافی سیلزٹیکس کی وصولی کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔ سی این جی پر اضافی 9 فیصد ٹیکس بھی واپس لیا جائے۔ اور اگرا اس حوالے سے نیا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں انیس سو اکتیس کے سیکش چارکو آرٹیکل ستر کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اگر پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ صارفین سے سیلز ٹیکس ماضی سے ہی وصول کیا جائے۔ تو اس رقم کوحکومت کو واپس کردیا جائے گا۔ ورنہ عدالت اس کے استعمال کے بارے میں فیصلہ سنائے گی۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیا گیا ایک فیصد اور سی این جی پر لیا گیا 9فیصد یکم جولائی تک غیر قانونی ہے۔ اس کا اطلاق فنانس بل کی منظوری سے ہی ہو سکتا ہے۔ یہ اضافہ حکومت فوری طور پر وصول کرکے رجسٹرار آفس میں جمع کرائے ورنہ عدالت اس حوالے سے کوئی اور حکم جاری کرے گی۔ حکومت ایک بیان بھی جمع کرائے گی جس میں بتایا جائے گا۔ کہ حکومت ایکٹ آف 1990ء کے سیکشن سی کے تحت سی این جی پر ٹیکس کی شرح سولہ فیصد کر چکی ہے۔ 9فیصد سے یہ اضافہ پچیس سے چھبیس فیصد بنتا ہے۔ جو واپس لے لیا گیا ہے۔ اس ٹیکس کی واپسی کی رقم بھی رجسٹرار آفس میں جمع کرائی جائے۔ روزمرہ استعمال کی عام اشیا کی قیمتیں جو اس اضافہ کی وجہ سے بے تحاشا بڑھ گئی تھیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قیمتوں کو کنڑول اور بے جا منافع کمانے والوں کے خلاف سیکشن چھ اور سات ایکٹ آف 1977ء کے تحت کاروائی کریں۔ اوگرا بھی سی این جی پر 9فیصد اضافہ کا نوٹیفکیشن واپس لے کر نیا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ اور فنانس بل کی منظوری تک سی این جی پر سولہ فیصد ہی وصول کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اقبال ظفر جھگڑا اور رخسانہ زبیری کی درخواستوں اور از خود نوٹس کی سماعت کے بعد جاری کیا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات اور سی این جی پر اضافہ واپس لے لیا۔ قیمتیں یکم جون کی سطح پر واپس آگئیں۔ جنرل سیلز کی ٹیکس کی اضافی غیر قانونی وصولی کے خلاف از خود نوٹس لے کر عدالت عظمیٰ نے ایک بار پھر بتا دیا ہے کہ ملک حکومت چاہے کسی کی بھی ہو وہ نہ تو کوئی غیر قانونی کام ہونے دے گی اور نہ ہی عوام پر ظلم ہونے دے گی۔ سابقہ دور حکومت میں جو لوگ کہتے تھے کہ جوڈیشری حکومت کی مخالف ہے اس نے پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ اس کیس کی سماعت کے بعد ان کو اپنے یہ الفاظ واپس لے لینے چاہییں۔ کیونکہ سپریم کورٹ نے نئی حکومت کے شروع میں ہی اس کے اقدام کے خلاف از خود نوٹس لے لیا ہے۔ آخر میں ہم عدالت عظمیٰ سے استدعا بھی کرتے ہیں کہ موبائل بیلنس پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یکم جولائی سے سو روپے کے ریچارج پر 58.50روپے ملیں گے۔ یہ بھی عوام پر ظلم ہے۔ موبائل بیلنس پر پہلے ہی سب سے زیادہ شرح سے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ ٹیکس لگانا ہی ہے تو موبائل کمپنیوں پر لگایا جائے ۔ جس کا اثر صارفین پر نہ پڑے۔ عدالت عظمیٰ اس اضافی ٹیکس کو بھی واپس کرائے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302959 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.