"اس سے پہلے کہ آگ لگ جائے"

آج پھر وہ اُسی کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی، جہاں کافی عرصہ پہلے بھی وہ آ چکی تھی پر اُس وقت اُس کے ہاتھ میں ایک چھری تھی جس سے وہ اُسے زبح کر دینا چاہتی تھی۔ یہ گونگے کا کمرہ تھا۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی جیسے اُس کی آنکھوں کے سامنے منظر گھومنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحان صاحب کے گھر۔جیسے رنگ و نور کا سیلاب امڈ آیاتھا ۔یہ بھی ارمان نکالنے کا ایک بہانہ ہی تو تھا۔ لڑکیوں نے تو جیسے آج قسم کھائی ہوئی تھی کہ مرکز نگاہ اگر وہ نہ ہوئیں تو قیامت ہو گی۔ کوئی لڑکی اپنے درزی کو کوس رہی تھی تو کوئی اپنے درزی کی تعریف میں رطب اللسان تھی۔ بیگم فرحان اپنی سوجی ٹانگوں کا شکوہ کرتی ہر طرف بے کار گھومے جا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ حسب معمول ہر کس و ناکس پر چلا بھی رہی تھیں۔

پری ایک گوشے میں آنے والے مہمانوں کا تصور دل میں بسائے جانے کن خیالوں میں گُم تھی کہ اُس نے گونگے کو ایک بار پھر اپنی جانب گھورتے ہوئے پایا، اس کے تن بدن میں تو آگ ہی لگ گئی
کیا ہے منحوس؛؛ پری چلاتے ہوئے بولی تھی’’
اور وہ اس کے چلانے پر گھبرا کر وہاں سے بھاگ گیا۔ وہ اُسے اکثر ہی گھورتا رہتا تھا، ملازم تھا گھر کا اور کئی بار پٹا بھی تھا پری کے ہاتھوں، جوان تھا اور کافی اچھی صورت بھی تھی، اسی لئے فرحان اُسے رکھتے ہوئے ہچکچاتے بھی تھے۔ کئی بار تو اُنہوں نے گھر سے نکالا بھی لیکن کوئی اور موزوں نوکر بھی نہیں ملتا تھا جو گدھوں کی طرح کام کرتا۔ کام بھی تو اتنا زیادہ ہوتا تھا چناچہ گونگا واپس بلا لیا جاتا، جو وہیں کہیں آس پاس کی مسجد یا پارک میں ہمیشہ پڑا ہوتا تھا

مہمان پہنچ گئے تھے اور مہمان خانہ آباد تھا۔

" یار لڑکا ہے تو خوبصورت لیکن قد کاٹھ میں مار کھا گیا ہے’’

یہ عظمیٰ تھی پری کی چھوٹی بہن جس نے اپنی کزنز کو دھیمے لہجے میں مخاطب کیا تھا۔ سب کزنز نے فورا اُس کی تائید کی اور سب نے اشاروں کنایوں میں لڑکے کو مسترد کر دیا۔
؛؛ بس کچھ ایویں سے ہی لوگ ہیں؛؛
بیگم فرحان نے مہمانوں کے جاتے ہی اعلان کیا،
؛؛ لڑکا چھوٹے قد کا ہے، ایسے لوگ آدھے زمین میں اور آدھے اوپر ہوتے ہیں، میری پری کے لئے مجھے شہزادہ چاہیے؛؛۔
اور فرحان صاحب ہمیشہ کی طرح ان کی بات پر گردن اثبات میں ہلا کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج پھر وہی گہما گہمی تھی اور رونقیں تھیں کہ لگتا تھا کہ جیسے واپس لوٹ آئی ہوں۔ بس پچھلی بار سے مہمان کچھ کم آئے ہوئے تھے جیسا کہ پھپھو کے گھر سے خدیجہ نہیں آئی تھی اور خالہ کے یہاں سے فاطمہ۔

ڈائننگ روم میں ٹیبل پر انواع اقسام کے کھانے، مٹھائی اور جانے کیا کیا۔ سجا ہوا تھا مہمان خدا خدا کر کے پہنچے، اور نشستوں پر براجمان ہوئے۔ آپسی تعارف شروع ہوا، گھر والے تعارف کروا چکے تو رشتے کے لئے آئے ہوئے مہمانوں کی باری آئی،
" یہ وسیم ہے’’

لڑکے کا تعارف کروایا گیا۔ گھر والوں کی تو جیسے ناک بھنویں تن گئی ہوں۔ وہ جسے لڑکا سمجھے تھے یہ وہ نہیں تھا بلکہ اُس کے ساتھ بیٹھا ہوا سانولے سے رنگ کا شرمیلا سا لڑکا تھا۔ بیگم نے فرحان صاحب کو ایسے دیکھا جیسے کہا ہو کہ کھانا کھلائیں اور چلتا کریں۔

کھانے کی میز پر اتنی خاموشی تھی کہ مانو کسی قبرستان میں بھی نہ ہو۔ شائد لڑکے والے بھی صورت حال بھانپ گئے تھے اور نہ پائے رفتن کی مثال بنے کھانا زہر مار کر رہے تھے، کھاتے کے ساتھ ہی اُنہوں نے اجازت طلب کی اور گھر کے تنے ہوئے ماحول میں کچھ کمی یوں واقع ہوئی کہ بیگم فرحان نے ہر کسی پر اپنا غصہ نکال دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کی بار جو معقول رشتہ آیا تھا وہ قریب قریب دو برس گزرنے کے بعد خدا خدا کر کے ہی آیا تھا اور فرحان صاحب دل میں تہیہ کر چکے تھے کے بیگم کی ایک نہ سُنیں گے۔ یہ اُن کے دوست کے چچا زاد بھائی تھے۔ خوب اہتمام ہوا تھا مگر صرف گھر والوں تک بات رہی تھی۔ وہ لوگ آئے ، لڑکا دیکھنے میں جوان اور ہینڈ سم بھی تھا ۔ عظمیٰ اور بیگم فرحان آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو او کے کا سگنل دے چکے تھے۔ لگتا تھا کہ بس رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔
،،دیکھئے فرحان صاحب،،
چائے کی چسکی لیتے ہوئے جمال صاحب بولے، جو کہ لڑکے کے والد تھے۔
" میں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ خرم نے انگلینڈ میں شادی کی تھی’’
ایک بم سا جیسے کسی نے بیگم فرحان کے کانوں کے قریب پھوڑ دیا ہو، ذرا سا اچھلیں مگر پھر خود کو سنبھال لیا۔
،، پر اب اس نے اُس لڑکی کو طلاق دے دی ہوئی ہے، بس اُس سے اس کی ایک بچی ہے جو ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے، آپ لوگ سوچ لیجئے گا اور پھر مجھے جواب دے دیجئے گا؛؛
بات ختم کرتے ہوئے جمال نے یہ کہہ کر پیالی ٹیبل پر رکھی اور اجازت چاہی۔

کسی کی کیا مجال کے اُنہیں مثبت جواب دینے کا سوچتا بھی، بیگم خشمگیں نگاہوں سے میاں کو دیکھ رہی تھیں ۔

اُن کے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک گھر والے گُم سُم بیٹھے رہےیہاں تک کہ پری داخل ہوئی اور بولی
،، کیا ہوا ہے آپ لوگوں کو،،
،، کچھ نہیں بیٹے ہم کچھ گھر کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ رنگ روغن کروا ہی لیں،،
فرحان بولے تھے اور پری سب جانتے ہوئے بھی انجان سی بن گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بار جو رشتہ آیا تھا وہ ہر لحاظ سے قابل رشک تھا، لڑکا خوب کماؤ، خوبصورت اور بڑے گھر کا تھا، مانو قسمت کھل ہی گئی ہو آخر۔

پری کو بلوایا گیا، عظمیٰ اُسے لے کر اندر آئی اور سب بیٹھ گئے۔ بیگم آصف نے جو لڑکے کی ماں تھیں اور ماڈرن خیالات کی مالک تھیں اصرار کیا کہ سبھی کھانا ساتھ ہی بیٹھ کر کھائیں گے، چناچہ پری بھی وہیں بیٹھ گئی۔ لڑکے کے والد کا انتقال ہو چکا تھا اس لئے بیگم آصف ہی کو سبھی فیصلے کرنے تھے۔

کھانے کے بعد چائے کا دور شروع ہوا، گونگے نے مہمانوں کو چائے پیش کی اور میزبانوں کی طرف بڑھا۔ اتنے میں بیگم آصف چائے کی پیالی سے کھیلتے ہوئے گویا ہوئیں،،
دیکھئے مسز فرحان میں لگائی لپٹی رکھنے کی عادی نہیں ہوں،،’’
گونگا اس بیچ مسز فرحان کو چائے دے کر پری کی طرف بڑھا۔
،، پری کی عمر زیادہ ہے، آپ چاہیں تو عظمیٰ کا رشتہ ہم پکا کرتے ہیں،،
بیگم آصف نے جیسے بھونچال برپا کر دیا ہو کمرے میں۔ گونگا پری کو پیالی پکڑا چکا تھا جو اُس نے یہ سُنتے ہی پوری کی پوری گونگے پر اُنڈیل دی اور وہاں سے باہر دوڑ گئی۔
جاتے جاتے بھی بیگم آصف نے تاکید کی کہ اُنہیں جلد بتا دیا جائے کیونکہ وہ زیادہ عرصہ انتظار نہیں کر سکتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

،، میں نے آج مسز آصف کے ہاں عظمیٰ کے لئے ہاں کر دی ہے۔ اُن کا فون آیا تھا اور میں اتنا اچھا رشتہ کسی صورت گنوا نہیں سکتا،،
دفتر سے واپسی پر فرحان صاحب نے اعلان کیا۔ پری کے اندر جیسے کچھ ٹوٹ گیا ہو۔ وہ چپ چاپ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔ اگلے ہی دن مسز آصف وہاں آن دھمکیں کہ اُن کی امانت اُن کے حوالے کی جائے کہ اب اُن سے اور صبر نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا و مافیہا سے بے خبر پری کے سامنے سب تیاریاں بھی ہوئیں اور عظمیٰ دلہن بھی بنی اور رخصت بھی ہو گئی، وہ بس کسی روبوٹ کی طرح کاموں میں جُٹی رہی۔ مسز فرحان اُسے دیکھتیں دل مسوس کر رہ جاتیں پر بولتیں کچھ نہ کہ مبادا وہ پھٹ پڑے اور عظمیٰ کی خوشیاں پامال ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت عرصہ گزر گیا عظمیٰ بچے کی ماں بننے والی تھی۔ اُس کے جیٹھ ولایت سے واپس آئے رنڈوے تھے اور کافی عمر کے تھے۔ اُنہوں نے وہاں ملنے آئی پری کو دیکھا اور فریفتہ ہو گئے۔ مسز آصف اگلے ہی دن رشتہ لے کر آن دھمکیں۔ مسٹر اور مسز فرحان کے آنکھوں آنکھوں میں کچھ اشارے ہوئے اور بات جیسے بن سی گئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘’اُٹھو، اُٹھو جلدی کرو’’۔
اُس نے آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھانے والی کو دیکھا اور گھبرا کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ پھر جیسے کوئی غلام آقا کے پیچھے چلتا ہے گونگا بھی چلتا ہوا پری کے ساتھ منہ اندھیرے باہر نکل گیا
azharm
About the Author: azharm Read More Articles by azharm: 21 Articles with 22527 views Simply another mazdoor in the Gulf looking 4 daily wages .. View More