متاثرین کے لئے بھیک کیوں؟

قیام پاکستان کے وقت ہونے والی ہجرت شائد اس وقت تک دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے اس لئے نقل مکانی کی کیونکہ وہ لوگ ہندوستان میں اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتے تھے۔ لوگوں نے اپنے گھر بار، کاروبار، عزیز و اقارب چھوڑے، عزتوں کو داﺅ پر لگایا، گرتے پڑتے کسی بھی طرح اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان پہنچ گئے۔ بہت سے خاندان تھے جن میں سے اگر میاں بیوی پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو اولاد راستے میں شہید کردی گئی یا چھین لی گئی، بہت سے ایسے تھے جن کے والدین شہید ہوگئے، پاکستان کامیابی سے پہنچ جانے والوں نے یہاں آکر نئی زندگی کا آغاز اس جذبے سے اور سوچ سے کیا کہ وہ اب محفوظ ہیں، اب کوئی بنیا، کوئی انگریز انہیں کچھ نہیں کہہ سکے گا، کوئی زیادتی نہیں کر سکے گا اور راوی سکون ہی سکون اور چین ہی چین لکھے گا، لیکن کیا کہیں کہ دشمنوں کی سازشیں تھیں یا اپنوں کی ”مہربانیاں“ کہ ان مہاجرین کے خواب کبھی پورے نہ ہوسکے، ان کے جذبات بےدردی سے کچلے گئے، ان کی سوچیں سوہان روح بنا دی گئیں۔ وہ اپنے گھر میں ہوتے ہوئے بھی محفوظ نہ ہوئے، اسی ظلم، بربریت اور وحشت کی تازہ ترین کڑی متاثرین سوات ہیں۔ سوات، بونیر اور ملحقہ علاقہ کے پر امن، معصوم، محب وطن اور محب اسلام لوگ جو ہجرت کررہے ہیں وہ موجودہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہے۔ اتنے لوگ تو کسی غیر ملکی قوت کے ساتھ جنگ میں بھی مہاجر نہیں بنے جتنے اپنے ہی ملک کی افواج کے آپریشن کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جب سوات میں ملٹری آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تو یہ نہ سوچا گیا کہ جب آرمی آپریشن شروع کرے گی اور ”شدت پسند“ جوابی کارروائی کریں گے تو علاقہ کے پر امن، مجبور و بے کس عوام کہاں جائیں گے؟ کیا وہ اپنے گھروں میں آرام و سکون سے زندگی گزار سکیں گے یا ”شدت پسندی“ کے خلاف ”ہماری اپنی“ جنگ کی وجہ سے وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوں گے؟ اگر اس معاملہ کو سنجیدہ لیا جاتا تو بے شک درون خانہ ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ انتظامات کئے جاسکتے تھے، اندازے کی غلطی ہوسکتی تھی کہ حکومت دس لاکھ لوگوں کے لئے انتظامات کرتی لیکن مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوجاتی، لیکن اگر پہلے سے پلاننگ کی جاتی تو اتنی افرا تفری نہ ہوتی، نہ اتنے زیادہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوتے اور نہ اپنے ہی ملک میں، اپنی ہی مادر وطن پر یوں بے سرو سامانی کی حالت میں، سر پر آسمان کے بغیر، بھوکے، ننگے، بیمار اور لاچار ہوتے۔

آپریشن سے پہلے نہ تو کچھ سوچا گیا، نہ غور و فکر کیا گیا اور نہ کسی قسم کے انتظامات کئے گئے اور اب ان معصوم لوگوں کو، جو پاکستان کے لئے مغربی سرحدوں پر ایک فصیل کا کام بھی دیتے ہیں، ان کو امریکہ سمیت دوسرے مغربی ممالک کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، ان سے اب زلزلہ متاثرین کے بعد سوات متاثرین کے لئے بھیک طلب کی جارہی ہے، ہاتھ پھیلائے جارہے ہیں، دامن تار تار ہے لیکن اسے بھرنے کی فکر دامن گیر ہے، پہلے زلزلہ متاثرین کو قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور امداد کے نام پر آنے والی بھیک کو ذاتی اللوں تللوں کے لئے جمع کیا گیا، اب اسی طرح متاثرین سوات کو چارہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے پہلے بھی تاریخ افغان مہاجرین کے لئے رقوم جمع کرنے اور ذاتی جیبیں بھرنے والوں کو جانتی ہے، اب وہی تاریخ دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پہلے تو مہاجرین افغانستان سے آئے تھے لیکن اب تو اپنے ہی ہیں (حالانکہ وہ بھی مسلمان بھائی ہی تھے) تو ان کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کیوں؟ ایک طرف صدر صاحب ہیں جو ”کامیاب“دورے پہ دورہ کر رہے ہیں اور کروڑوں کا زرمبادلہ دوسرے ملکوں میں ہوٹلوں میں رہائش پر خرچ کیا جارہا ہے، ایک ایک رات کا کرایہ پانچ پانچ لاکھ ادا کیا جارہا ہے، پہلے ایک ”اڑن طشتری“ وزیر اعظم ملا تھا، اب ویسا ہی صدر مل گیا ہے۔ دوسری طرف وہ متاثرین ہیں جن کو ایک وقت کا کھانا، دوائی بھی دستیاب نہیں، بچوں کے لئے دودھ میسر نہیں، بیماری اور بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچے ہیں، آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتی ہوئی مائیں ہیں، بے کس و لاچار باپ ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ اے پاکستان والوں! کیا ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے؟ بسنت پر ایک رات میں اربوں روپے اڑانے والوں! ہمارے لئے بھیک مانگ رہے ہو، سوات اور دوسرے جنت نظیر علاقوں میں آکر لاکھوں روپے سیر سپاٹے پر خرچ کردیتے تھے لیکن اپنے انہی بھائیوں اور بہنوں کے لئے تمہارے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں! سرے محل اور سرور پیلس کے مکینوں! ڈیزل کے پرمٹ والوں! سیمنٹ کی ملوں کے مالکوں! ایک شہر سے اربوں روپے چندے کے نام پر بٹورنے والوں! تم سب اگر چاہو تو ایک دن میں ہمارے لئے رہائش، کھانے پینے اور دوا دارو کا انتظام کرسکتے ہو، تم سب اگر چاہو تو ایک ایک شخص اربوں روپیہ دان کرسکتا ہے، ارے بھائیوں! اتنی دولت کا کیا کرو گے، ہم بھی تو دولت مند تھے، کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا، ہم خود محلوں کے مالک تھے اور ہمارے بچے شہزادوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے، لیکن اب تمہارے دست نگر، مرہون منت ہوچکے، ڈرو اس وقت سے جب یہی عذاب تمہارے گھروں تک بھی پہنچ جائے، ڈرو اس لمحے سے جب یہ دھماکے اور گولیاں تمہارے دروازے پر دستک دے رہے ہوں، عوام تو ہماری طرح ظلم کا شکار ہیں، اگر پاکستان کے صرف ایک سو خاندان چاہیں تو حکومت کو کسی سے بھیک نہ مانگنی پڑے، اگر صرف ارکان پارلیمنٹ ہی مدد کریں تو حکومت کو ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں، کیا صدر زرداری، میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، الطاف حسین، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمان، وزراء، مشیران اور ارکان پارلیمنٹ بالکل فقیر ہیں جو حکومت کو غیر ممالک کے سامنے سوالی بن کر ہاتھ پھیلانا پڑ رہا ہے؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207797 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.