صر صر کو صبا ،بندے کو خدا ،نہ لکھنا

چند دن قبلم سردار طاہر تبسم کا ٹیلی فون آیااور انہوں نے آزاد کشمیر کے ایک نئے شروع ہونے والے روزنامہ ” کشمیر پوسٹ“ میں ایڈیٹر کی اپنی نئی ذمہ داری کے بارے میں بتایا۔سردار طاہر تبسم سیاست کے وسیع تجربے کے علاوہ صحافت کا تجربہ بھی رکھتے ہیں اور بنیادی طور پر پڑہنے لکھنے والے شخص ہیں۔مسلم کانفرنس میں مرکزی سطح پر متحرک ہونے اور پھر مسلم کانفرنس چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کی”ہنگامی“ وجہ سردار طاہر تبسم ہی تھے ۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ہی برادرم طاہر تبسم کو از خود مشورہ دیا تھا کہ وہ صحافت کے شعبے میں ہی رہیں۔مجھے خوشی ہے کہ طاہر تبسم صاحب اب کل وقتی صحافت سے وابستہ ہو گئے ہیں ۔خوشی اس بات کی بھی کہ ہماری صحافت کو ان افراد کی اشد ضرورت ہے جو اپنے ماضی سے آگاہ ہوں،حال کے معاملات سمجھتے ہوں اور مستقبل کی صورتحال سے بھی عوام کو آگاہ کر سکیں۔ روزنامہ ” کشمیر پوسٹ“ کے چیف ایڈیٹر امتیاز بٹ ہیں جو روزنامہ ”خبریں“ میں بھی رہے اور اب روزنامہ ” جموں و کشمیر“ سے اس نئے ادارے میں آئے ہیں۔امتیاز بٹ صدر آزاد کشمیر کے ہمراہ پریس سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔امیتاز بٹ رائج الوقت صحافت کے تجربے کے حامل ہیں ۔اس روزنامہ کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ یہ اخبار آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے افراد کے اشتراک سے شروع ہونے والا پہلا اخبار ہے۔ انفرادیت یہ بھی کہ سیز فائر لائین(کنٹرول لائین) کے ”آر پار“ کے اشتراک سے شروع ہونے والے اس اخبار کے دونوں مالکان کے نام کے آخر میں بٹ آتا ہے لیکن اس کو برادری ازم ہر گز نہ سمجھا جائے ،یہ صرف بٹ برادران کے اشتراک پر مبنی ایک خوبصورت اتفاق ہے۔طفیل الطاف بٹ صاحب کے بڑے بھائی ظفر اکبر بٹ کی تنظیم مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس میں شامل ہے۔ طفیل الطاف بٹ حریت کانفرنس آزاد کشمیر و پاکستان کے نمائندے ہیں اور ایک ہاﺅسنگ سوسائٹی کے سربراہ بھی ہیں۔یوں بنیادی ضروریات کے حوالے سے یہ روزنامہ ایک” اچھا “پلیٹ فارم رکھتا ہے۔

آزاد کشمیر میں ایک وقت وہ تھا کہ جب یہاں صرف ہفت روزہ اخبارات شائع ہوتے تھے جبکہ اب آزاد کشمیر میں پچاس کے قریب روزنامہ اخبارات شائع ہو رہے ہیں۔آزاد کشمیر کے لئے شائع ہونے والے پاکستا نی اخبارات مقامی ،ریاستی موضوعات ،واقعات کا احاطہ نہیں کرتے ۔ پاکستانی اخبارات کے کشمیر ایڈیشن کی تعداد اور سرکولیشن محدود ہے۔مثال کے طور پر آزاد کشمیر میں گزشتہ دو سال کے دوران بالخصوص آزاد کشمیر کے ریاستی اخبارات و جرائد نے آزاد کشمیر میں ہونے والی کرپشن کے کئی واقعات کو موضوع بناتے ہوئے بے نقاب کیا ہے،اخلاقی برائیوں پر مبنی کئی واقعات کو بے نقاب کیا ہے،آزاد کشمیر کے آئینی،انتظامی،مالیاتی امورسے متعلق مسائل و مشکلات سے آگاہ کیا ہے۔پاکستانی اخبارات کے کشمیر ایڈیشن ایسے موضوعات سے متعلق خبروں،مضامین ،کالموں کو نظر انداز کرتے ہیں۔پاکستانی اخبارات مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر سے متعلق کشمیری عوام کے حقیقی جزبات ،غیر سرکاری رائے پر مبنی کشمیری آراءکو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں۔پاکستانی اخبارات کے کشمیر ایڈیشن حکومتی ،سرکاری خبروں،کالموں کو ترجیح دیتے ہیں اور مقامی امور و مسائل کے حوالے سے اتنا محتاط روئیہ اپناتے ہیں کہ عوامی دلچسپی و آگاہی کے اکثر امور کوریج سے رہ جاتے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستانی اخبارات ریاستی عوام کے احساسات اور خواہشات سے یکسر لاتعلق اور بے خبر ہیں۔آزاد کشمیر کے ریاستی اخبارات و جرائد انفرادی حقوق،اپنے خطے کے حقوق،کرپشن کے خاتمے اور اچھے حکومتی،انتظامی نظم و نسق کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اب شہری اپنے خلاف ظلم و زیادتی کو برداشت نہیں کرتے اورایسے رویئے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ریاستی اخبارات و جرائد ہی ریاستی شہریوں کو ان کی مخصوص متنازعہ/تصفیہ طلب حیثیت سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے انفرادی و اجتماعی حقوق کے دائرہ کار بیان کرتے ہیں۔یہ ریاستی اخبارات و جرائد ہی ہیں جو آزاد کشمیر میں بااختیار و ذمہ دار حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے مقاصد کی روشنی میں اچھے حکومتی و انتظامی نظم و نسق کے لئے پر زور وکالت کرتے ہوئے اس حوالے سے عوامی آگاہی اور حکومتی و سرکاری سطح پر دباﺅ پیدا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔آزاد کشمیر کے لئے اس طرح کے کردار کی پاکستانی اخبارات سے توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔

آزاد کشمیر کے اخبارات و جرائد شروع سے ہی ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کے تحریکی جذبے سے جاری رہے۔آزاد کشمیر کے اخبارات و جرائد میں کمرشل بنیادوں پر چلنے کے بجائے ” مشنری“ جذبے سے کام کرنے کا جذبہ رہا۔آزاد کشمیر میں اخبار شروع کرنے کے لئے پیشہ وارانہ مہارت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا جس وجہ سے آزاد کشمیر میں علاقائی اور قبیلائی بنیادوں پر اخبارات کا رواج بھی چل نکلا ہے ۔ایسے اخبارات صحافتی اقدار،صحافتی اخلاقیات ،قومی مفادات،ریاستی حقوق جیسے موضوعات سے مکمل بے خبر،لا تعلق ہوتے ہیں اور نہایت محدود دائرے میں شخصی مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔آزاد کشمیر میں صحافت کو اس طرح کی آزادی میسر نہیں ہے جس سطح کی آزادی پاکستانی میڈیا کو حاصل ہے۔ صحافیوں،اخبارات و جرائد کو سرکاری ،سیاسی دباﺅ کا سامنا رہتا ہے اور انہیں اطلاعات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران آئین کی 18ویں،19ویں اور20ویں ترامیم کے بعد اکثر اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل کئے گئے لیکن آزاد کشمیر کے لئے انہی خطوط پر آئینی ترامیم نہیں کی گئیں۔یوں اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کا آئینی ترامیم کا حق بھی وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔آزاد کشمیر کے عوام کو پاکستانی عوام کی سطح کے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں اور اسی حوالے سے پاکستان کے برعکس آزاد کشمیر میں ” رائٹ ٹو انفارمیشن“ کا قانون بھی نافذ نہیں ہے جس کی وجہ سے آزاد کشمیر کے ریاستی اخبارات کے لئے اطلاعات سے آگاہی کے ذرائع مزید محدود ہو جاتے ہیں۔آزادکشمیر کے ریاستی اخبارات مالی مشکلات کی وجہ سے اپنی بنیادی ذمہ داری،غیر جانبداری کو آسانی سے نظر انداز کر دیتے ہیں۔سرکاری اشتہارات کے ذریعے حکومت اپنے پسندیدہ اخبارات کو نوازتی ہے اور انہیں حکومتی /شخصی /گروپ کے مفاد میں آسانی سے استعمال کیا جاتا ہے ۔اسی طرح سیاسی افراد ان اخبارات کو سیاسی اشتہارات دیتے ہوئے اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔سیاسی اشتہارات حاصل کرتے ہوئے کئی اخبارات اشتہار دینے والے گروپ کے مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں۔اس طرح ان میں سے اکثر اخبارات صحافتی کردارادا کرنے کے بجائے مخصوص شخصیات کے ”آرگن“ بن کر رہ جاتے ہیں۔ان کی ” صحافتی “ خدمات ایک ” انسٹرومنٹ“ کی طرح ہیں جس کا معاوضہ ادا کر کے کوئی بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔

کسی بھی اخبار کا معیار اس میں کام کرنے والے افراد کی قابلیت ،مہارت اور محنت کا آئینہ ہوتا ہے۔ایک اخبار کو کسی کاروبار کی طرح منعفت بخش طور پر چلانا الگ بات ہے اور ریاست کشمیر کے خطے اور عوام کے مفاد کے لئے کسی بھی قسم کے نقصان کا سامنا کرنے کی ہمت رکھنا الگ بات ہے۔میرے خیال میں ہمارے اخبارات عوام کو گمراہ رکھنے میں ایک اچھے”آرگن“ کے طور پر بھی استعمال ہورہے ہیں۔ہماری ریاستی صحافت کو ضرورت ہے ایسے اخبارات و جرائد کی جو صحافتی اخلاقیات،صحافتی حدود و قیود،متعلقہ موضوعات،قومی امور ومفادات،سرکاری طریقہ کار و سیاسی ا مور وغیرہ کا علم و ادراک رکھتے ہوںاور اس حوالے سے عوامی رہنمائی اور انصاف کے تقاضوں کو مقدم قرار دے سکیں۔اخبار کو چلانے کے لئے اس کا منافع بخش ہونا ضروری تو ہوتا ہے لیکن ناگزیر نہیں، اس کے لئے کشمیر کی ریاستی صحافت کی بنیادی ذمہ داریوں کو ” کمپرومائیز“ نہیں کیا جانا چاہئے۔اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اخبار کو چلانے کامتمع نظر/اصل مقصد کیا ہے۔اخبار کو اچھے رنگ وروپ سے پر کشش بنایا جاسکتا ہے لیکن متنازعہ و منقسم ریاست کشمیر کے الم نصیب خطے اور عوام کے حق میں سچائی پر مبنی تحریر، چاہے وہ ”بلیک اینڈ وائٹ “ ہی ہو،لازم ہے۔اخبار کو’ ان گنت‘ مفادات کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اورریاست کشمیر کی مظلومیت کے حق میں بھی۔”ان گنت‘ مفادات مادیت کی صورت نظر آئیں گے لیکن کشمیر اور کشمیریوں کے حق میں کی گئی صحافتی جدوجہد کا بدل کشمیریوں کے اعتماد کی صورت نظر آئے گا۔سردار طاہر تبسم نے پوچھا کہ آپ کی نظر میں اس روزنامہ کو کیسا اخبار ہونا چاہئے؟میرا جواب تمام ریاستی صحافت کے تناظر میں ہے ۔میں نے درج بالا کالم میں جو گزارشات کی ہیں ،وہ اگر رائج الوقت تقاضوں میں گراں رہے تو اگر اسی بات کو یقینی بنالیا جائے کہ” نہ تو صر صر کو صبا اور نہ بندے کو خدا لکھا جائے“ تو سمجھوں گا کہ صحافت کا حق ادا کر دیا ہے،جو کہ بہت مشکل ہے کیونکہ لازم کے ساتھ ملزوم بھی ہوتا ہے۔یعنی ایسا ہو گا تو نتیجہ لازما ویسا ہی ہو گا۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613083 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More