آمریت کی شکست اور وہی جمہوریت کی فتح! کیا واقعی

آج کے روزنامہ جنگ میں ایک خبر پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ملک کے جمہوری ادارے اور افراد جب تک کام کر رہے ہیں اس ملک کو ترقی کرنے سے کوئی بھلا روک سکتا ہے۔

خبر کے مطابق

یوسف گیلانی نے شوکت عزیز کے فیصلے کی توثیق کردی، امریکی سفارتخانے کو ڈیڑھ کھرب کی اراضی ڈیڑھ ارب میں دینے کی منظوری۔

تفصیلات کے مطابق، مملکت عزیز اسلامی جمہوری پاکستان کے متتفہ و منتخب وزیراعظم جناب عزت مآب سید یوست رضا گیلانی مدظلہہ علیہ نے سابق (آمریت کی پیداوار!) وزیراعظم شوکت عزیز کی جانب سے کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی اکیس ایکڑ اراضی امریکی سفارت خانے کو مارکیٹ سے کم نرخوں پر دینے کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے شوکت عزیز کے ١٩ مئی ٢٠٠٥ کے فیصلے پر عملدرآمد کے احکامات جاری کر دیے ہیں (بھلا ایک آمریت کی پیداوار نے کیسے ایسا فیصلہ کر لیا تھا جس میں متفقہ جمہوری وزیراعظم کو کوئی نقص و تضاد نظر نہیں آیا اور آمریت کے اس فیصلے کی بھی توثیق کر دی گئی کمال ہے)۔

اطلاعات کے مطابق امریکی حکومت نے اس بیش قیمت زمین کی قیمت نو ہزار فی مربع گز ادا کرنے کی پیش کش کی تھی جسے آمریت کی پیداوار وزیراعظم شوکت عزیز نے مسترد کرتے ہوئے پندرہ ہزار روپے فی مربع گز کے حساب سے امریکیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤئنٹس کمیٹی کو حکومت نے اس اراضی کی فروخت اور ڈیل سے متعلق تمام دستاویزات اور ریکارڈ پیش کر دیا ہے۔ اس ریکاڑ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مئی ٢٠٠٨ میں ایک بار پھر یہ معاملہ سامنے آیا اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو فیصلے کے لیے بھجوایا گیا۔ یوسف رضا گیلانی نے شوکت عزیز کے ١٩ مئی ٢٠٠٥ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے شوکت عزیز کے طے کردہ نرخوں پر امریکی سفارت خانے کو دینے کی منظوری دی۔ کیسے ایک آمریت کے دور کی پیداوار وزیراعظم ایک ایسا کام کر گیا جو پانچ سال بعد بھی قابل عمل اور قابل بھروسہ ٹھرایا گیا اور قواعد و ضوابط کے اصولوں پر پورا اترا اور جمہوری اور قابل محترم وزیراعظم نے ایک آمریت کی پیداوار وزیراعظم کے فیصلے کی توثیق کر دی۔

ویسے اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ امریکہ بہادر ہم پر ہمارے اپنوں سے زیادہ مہربان ہے اور جس طرح وہ ہمارے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے شاید موجودہ حکومت بھی امریکہ بہادر کی ان کاوشوں اور مہربانیوں (ڈرون اور میزائل حملوں) پر امریکہ کی شکر گزار ہے اور جس طرح کی امداد (خیرات) امریکہ بہادر اور مغربی ممالک ہمیں ہماری بہتر سے بہتر خدمات کے صلے، قدرتی اور دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد ہمیں امداد کے نام پر دی جا رہی ہے شائد اس کا یہ اثر ہے کہ ہمارے سابقہ حکمرانوں اور موجودہ حکمرانوں میں اس بات پر تو اتفاق پایا گیا کہ امریکی کاوشوں کے اعتراف کے صلے میں جہاں ہم دوسروں کو نواز رہے ہیں زمیں کا ایک قیمتی قطعہ امریکہ بہادر کو تحفتاً پیش کر دیا جائے تاکہ ہم بھی کل کو کہہ سکیں کہ امریکہ نے ہمیں یہ دیا اور وہ دیا (دہشت گردی، نفرت، تعصب، ڈرون حملے، میزائل حملے) تو ہم امریکہ کو کیا تحفتاً ایک حقیر زمین کا ٹکڑا بھی نہیں دے سکتے۔

اور شاید امریکہ کا موجودہ سفارت خانہ (کانسلیٹ جنرل) پاکستان میں امریکی مفادات کو اچھے طریقے سے ادا کرنے سے قاصر تھا اسلیے ایک شاندار جگہ پر ایک وسیع عریض زمین حاصل کر لی گئی اور اس کی تعمیر بھی بڑے زور شور سے جارہے ہے( مائی کلاچی روڈ پر جاری، سلطان آباد کے کنارے پر جہاں ایم ٹی خان روڈ سے کلفٹن کی طرف مڑتے ہیں اور جس قسم کی تعمیراتی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید ایٹم بم بھی اس سفارت خانے کا کچھ نا بگاڑ سکے یقین نا آئے تو سائٹ زیادہ نہیں تو کچھ قریب سے معائنہ کی کوشش کرلیں )۔ ظاہر ہے امریکہ عراق سے نکل گیا اور شاید افغانستان سے بھی نکل جائے تو پھر امریکہ کو ہمارے ملک میں رہنے کے لیے ایک ایسی جگہ تو چاہیے نا کہ جہاں بیٹھ کر وہ پورے خطہ پر اچھی طرح نظر رکھ سکے تاکہ مڈل ایسٹ، چائنا، ایران، افغانستان کو یہی سے بیٹھے بیٹھے کنٹڑول کیا جاسکے۔ واہ بھئی ہمارے سیاستدان اور حکمران تو بڑے سمجھدار ہو گئے۔

خبر مندرجہ زیل لنک پر بھی پڑی جاسکتی ہے۔

https://www.jang.com.pk/jang/may2009-daily/25-05-2009/main.htm
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 496917 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.