عوام میں شعور کی بیداری

ووٹ کی ایک پرچی نے۔۔۔

کاغذ کے ایک ٹکڑے، پچاس گرام وزنی بیلٹ پیپر نے، ووٹ کی پرچی بن کر، بڑے بڑے برج اور برجیاں الٹا کر رکھ دیں۔ ووٹ کی پرچی جوپانچ سالہ بچے کی پھونک کے سامنے بھی نہ ٹھہر سکے، نے بڑے بڑے سیاسی ستون خس وخاشاک کی طرح اڑا کر رکھ دیئے۔ الیکشن 2013ء کے نتائج نے صرف بڑے بڑے شہروں ہی نہیں، دور دراز قصبوں، گاؤں اور گوٹھوں، ملک کے ہر کونے ہر قریہ میں، بڑے بڑے خاندانوں کی سیاسی اجارہ داریوں کے بت پاش پاش کر کے رکھ دیئے ہیں۔ نسلوں اور پشتوں سے موروثیت کی سنہری رتھ پر سوار ہو کر حلقے سے سیدھے اسمبلیوں کی شاندار عمارتوں میں جلوہ افروز ہونے والے جغادری ناخداؤں کو منہ کے بل زمین پر گرا دیا ہے۔ اس الیکشن کے نتائج پر بحث ہوتی رہے گی۔ ان نتائج سے تلاطم خیز پانیوں، منہ زور موجوں میں ہچکولے کھاتی قوم کی ناؤ کسی کنارے لگ پائے گی یا نہیں، یہ وقت بتائے گا۔ معاشی ترقی، سیاسی استحکام، مثالی امن وامان، میرٹ کی سر بلندی، تحصیل لیول سے لیکر اعلی ترین سطح تک آزاد، خود مختار، عدلیہ، ارزاں حصول انصاف، یکساں نصاب، ایک کتاب کے تحت، غریب اور امیر کے بچے کو حصول تعلیم کے مواقع، ہسپتالوں میں سسکتے مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولتیں کی فراہمی اور دستیابی، یہ سب وہ خواب ہیں، جو اس ملک کے عوام نے اپنے نمائندے چنتے وقت اپنی آنکھوں میں بسا رکھے ہیں، یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہونگے، محرومیوں کا شکار، عوام الناس کے زخموں پر کب مرہم رکھا جائے گا، کسی کو معلوم نہیں، ظاہر ہے خوابوں کی تعبیر میں وقت لگتا ہے۔ لیکن انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب یہ سپنے سچ ثابت ہونگے۔ لیکن آج میرا موضوع آنیوالی حکومت کی کار کردگی ہرگز نہیں، کارکردگی دیکھنے، پرکھنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ ہر آنے والی نئی حکومت کی طرح، اس حکومت کو بھی مناسب وقت دینا ہو گا۔ تب تک تجزیہ نگاروں، نقادوں یا صرف مخالفت برائے مخالفت کرنے والوں کو اپنے قلم جیب کے اندر اور اپنی توپوں کا رخ کسی اور طرف رکھنا ہو گا۔ الیکشن 2013ء کے نتائج نے کم ازکم مجھے تو ششدر کر کے رکھ دیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں دوسری مرتبہ عوام نے اجتماعی شعور کا ایسا مظاہرہ کیا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، عوامی فیصلے کے پیچھے ووٹر کی عمومی نفسیات آشکار ہوتی جائیں گی۔ 1970ء کے انتخابات میں بھی پولنگ کے دن تک کسی کو اندازہ بھی نہ تھا کہ ہاتھ میں کاغذ کی ایک پرچی لیے، ووٹر، صدیوں سے پسا ہوا، موچی، نائی، ترکھان، مزدور، مزارع، خدا کی زمین پر ناجائز قابضین، ان زمینی فرعونوں کے ساتھ کیسا ہاتھ کرنے والا ہے۔ 1970ء میں انتخابات کی شام گنتی مکمل ہوئی تو بڑے، بڑے خان، چوہدری، سردار اور تمن ددارسب برج الٹ گئے، جیتا کون؟ گگومنڈی کا بس کنڈیکٹر بشیر، پتوکی کا اللہ دتہ ، عارفوالہ کا حافظ نور محمد سکھیرا اور ایسے ہی ان گنت محنت کش طبقوں سے تعلق رکھنے بے شناخت سیاسی کارکن اسمبلیوں کے رکن بن گئے، گیارہ مئی 2013ء کو ایک مرتبہ پھر، طویل عرصہ بعد ،عوام الناس کی اکثریت نے تین صوبوں میں ذات، برادری، قبیلے، دھڑے، مسلک کی بجائے ، بظاہر پرفارمنس ، منشور اور نظریئے کی بنیاد پر اپنی پسند کے امیدواروں پر ووٹوں کی بارش کر دی ۔ شاہ جیو نہ کے موچی کااسلام آباد میں مزدوری کرنے والا ہنرمند بیٹا ،گھرکا پنکھا مرمت کرتے ہوئے بولا،صاحب جی آپ ٹی وی میں آتے ہو،جب بھی آپ الیکشن کے نتائج پر ’’تقریر‘‘ کرو، لوگوں کوبتادینا کہ جھنگ میں سیدہ عابدہ حسین کے بیٹے کو اپنے آبائی گاؤں سے صرف پندرہ ووٹ ملے ،فیصل صالح حیات ،اسد حیات کوہردفعہ پارٹیاں تبدیل کرنے کی سخت سزا دی ہے،پھربولا ،صدیوں سے جھنگ کے لوگ ’’پیروں‘‘ کو ووٹ اورنوٹ دونوں بن مانگے دیتے آئے ہیں ، اب اس کی مرضی ہوگی وہ نوٹ دیگا،لیکن ووٹ صرف اور صرف اپنی مرضی کے بندے کو دونگا۔ ووٹرنے اپنے ہاتھ میں تھامی پرچی سے یہ انتقام کسی ایک خاندان ،کسی ایک پارٹی یاایک طبقے سے نہیں لیا۔فی الحال توجیتنے والے فتح کا جشن منانے ،شکست کھاجانے والے ،اپنی ہارکا جوازتلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

فاتح اورشکست خوردہ ،سب فریق، مبارک ،سلامت کے شور، طعنوں اورتنقیدکی ناگوارآوزوں سے فارغ ہوکربیٹھیں گے توان کواندازہ ہوگاکہ ووٹرنے ان کے ساتھ کس طرح ہاتھ کیا ہے۔اس الیکشن میں بیس بڑے سیاسی خاندان اسمبلیوں سے غائب ہوگئے۔ گجرات کا چوہدری خاندان مونس الہی سے لیکر برادر بزرگ چوہدری شجاعت تک حلقہ انتخابات کے ایک ایک دروازے پرگیا۔لوگوں کی ٹھوڑیوں کوہاتھ لگایا ،تب کہیں جاکرقومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی کی دونشستیں ہاتھ آئیں، چوہدری شجاعت ماضی میں الیکشن کے دن گھربیٹھ کرنتائج سناکرتے تھے ۔امین فہیم ،بلامقابلہ انتخاب جیتاکرتے یاپھرالیکشن کی شام نتائج آنے سے بہت پہلے تھکن اتارنے کیلئے دبئی جانے کی تیاری کرتے پائے جاتے۔ لیکن اس مرتبہ سروری جماعت کے روحانی پیشواکو ووٹ مانگنے کیلئے اپنا روحانی پروٹوکول بھی بالائے طاق رکھنا پڑا،خیبرپختونخوا میں ووٹرنے اے این پی کی قوم پرستی کو صوبہ کا نام تبدیل کرنے کے کریڈٹ سمیت فاتحہ پڑھے بغیردفن کردیا۔پیپلزپارٹی بزعم خود،سب سے بڑی پارٹی تھی ،مرکز ،سندھ میں حکمران ،بلوچستان اورخیبرپختونخوا میں حصہ دار،گلگت بلتستان ،آزادکشمیرمیں حکومتیں ،ووٹرنے نااہلی کا ایسا انتقام لیاکہ اب صرف سندھ میں حکمرانی پراکتفاکرنا پڑے گا۔صرف سندھ کے نتائج کودیکھ لیں توپیپلزپارٹی جیت کربھی ہارگئی ۔ 2008 میں 93 سیٹیں جیتنے والی جماعت کے پاس اب صرف 65نشستیں ہیں۔ایم کیواایم کی طرف نظرڈالیں ۔اپنی مضبوط سیٹیں جیت کر’’کراچی صرف ہماراہے‘‘ثابت کرنے میں کامیاب تو ہوگئی ۔صرف ایک حلقہ این اے 250کے ووٹرنے منظم احتجاج کرکے ایم کیوایم کوعرش سے فرش پرلاکھڑا کیا ہے۔کراچی کا ووٹرجان گیا ہے کہ ہمت ہوتوفیصلہ سڑکوں پربھی ہوسکتاہے۔مسلم لیگ ن اب حکمران جماعت ہے۔لیکن راولپنڈٰ ی اورلاہورکی چند نشستوں پرشکست نے وہ ’’متھ‘‘توڑدی ہے کہ پنجاب صرف شریف برادران کا ہے۔مضبوط ترین حلقوں میں پڑے شگاف پرکرنے کیلئے اب بہت وقت لگے گا۔پی ٹی آئی جوکلین سویپ کا خواب دیکھ رہی تھی ۔اس کی قیادت بھی زمین پرواپس آگئی ہے۔گیارہ مئی کو ووٹرنے بیلٹ پیپرکی طاقت سے ،اقتداراختیارکے بلاشرکت غیرے مالکوں ،اپنی اپنی سیاسی سلطنتوں کے تخت شاہی پربراجمان جمہوری بادشاہوں ،سب کی ہوا اکھاڑ کر رکھ دی ہے۔طاؤسی تختوں کی چولیں ہلادی ہیں۔بندوق کی گولی یا تلوارکی نوک سے نہیں،صرف اورصرف ووٹ کی ایک پرچی ہے۔
Waqas khalil
About the Author: Waqas khalil Read More Articles by Waqas khalil: 42 Articles with 35316 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.