ایسا بھی ہوتا ہے

یار محبت کیا ہوتی ہے؟ منور نے مجھے کچھ اس انداز سے پوچھا کہ جیسے مجھے اس سوال کا جواب آتا ہو اور میں فوراً بتا دوں گا۔ وہ میرے ساتھ ہاسٹل میں رہتا تھا اور حسن اتفاق سے میرا روم میٹ تھا، عجیب پہلوان ذہن کا آدمی تھا، پیٹ بھر کر کھانا اور جی بھر کر سونا، میری اور اسکی اکثر لڑائی رات کو ٹیبل لیمپ جلانے پر ہوتی تھی اسے سونے کے لئے گاؤں جیسا اندھیرا چاہیے تھا اور مجھے پڑھنے کے لئے روشنی، وہ پولیٹکل سائنس پڑھتا تھا اور میں لٹریچر، اسے پڑھائی سے زیادہ دلچسپی نہ تھی اسکا تعلق تو ایک بہت بڑے جاگیردار گھرانے سے تھا وہ تو بس ڈگری لینے آیا تھا اسے تو سیاست کرنی تھی اسکا باپ بھی ایم۔ پی۔ اے تھا۔ میری سمجھ سے باہر تھا کہ اس کے ذہن میں یہ سوال کیوں پیدا ہوا؟ میں نے کہا محبت کیا ہوتی ہے یہ اس وقت پتہ چلتا ہے جب محبت کرو، کہنے لگا تو پھر بتاؤ محبت کیسے کرتے ہیں، میں نے کہا محبت اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے، آنکھوں سے، دل سے، ہوا سے، ان کہے لفظوں سے، اس نے میری بات کاٹ کر کہا تو پھر یہ راستہ بن گیا ہے یار، اسکے چہرے پر عجیب اطمینان اور فخر تھا جیسے اس نے کوئی انمول چیز حاصل کر لی ہو۔ میں نے اسے میر تقی میر کا ایک شعر سنایا

ہم طور عشق سے تو واقف نہیں ہیں میر
سینے میں جیسے دل کو مسلا کرے کوئی

واہ واہ واہ کیا شعر ہے ذرا پھر سناؤ وہ وفور مسرت سے پاگل ہو رہا تھا جیسے یہ شعر اس کے واردات قلبی کی صحیح عکاسی کر رہا تھا۔ میں حیران تھا کہ اسے تو شعروں سے نفرت تھی یہ ایک دن میں کیا قیامت آگئی کہ اسے شعر مزہ دینے لگے وہ شعر پڑھے جا رہا تھا اور اپنی ہی دھن میں چارپائی پر لیٹا کچھ سوچ بھی رہا تھا۔ ایک ہی دن میں محبت نے اسے کتنا تبدیل کر دیا تھا، وہ سوچ بھی رہا تھا شعروں پر داد بھی دے رہا تھا اور راستے بھی بنا رہا تھا کیا یہ تبدیلی نہیں تھی؟ ‏محبت انسان کو تبدیل کر دیتی ہے، بادشاہوں کو فقیر بنا دیتی ہے اور فقیروں کو بادشاہ، بادشاہ وہ ہوتا ہے جس کے پاس کوئی اختیار ہو، طاقت ہو اور محبت دنیا میں بہت بڑی طاقت ہے، محبت نصب العین دیتی ہے اور نصب العین نہ جھکنے، نہ بکنے، نہ ٹلنے کا فن ۔

وہ منور جو میرے ساتھ کمرے میں رہنے پر نالاں تھا اور کالج انتظامیہ سے علیحدہ کمرہ حاصل کرنے کے لئے باپ کا اثر و رسوخ استعمال کر رہا تھا تاکہ ہاسٹل لائف سے کلی طور پر لطف اندوز ہوسکے آج وہ میرے ساتھ رہنے پر بضد تھا، میں تو عام انسان تھا ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والا اور وہ جاگیردار جہاں عام انسان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی، جہاں تو ان کا اپنا قانون چلتا ہے، جہاں ان کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ تعمیل چاہتا ہے، غیر مشروط تعمیل، عجیب ہے یہ محبت بھی جس نے آقا اور غلام کا یہ فرق مٹا دیا کسی نے ٹھیک کہا ہے محبت ایک تبدیلی کا نام ہے جو انسان کے اندر سے شروع ہوتی ہے اور ارد گرد کی ہر چیز کو لپیٹ میں لے لیتی ہے، منور کی محبت نے مجھے بھی لپیٹ میں لے لیا۔

میں ہر ہفتے کی شام گھر آیا کرتا تھا اور پھر اتوار کی شام کو واپسی ہوتی تھی لیکن اس دفعہ مجھے منور نے روک لیا میں نے وجہ پوچھی تو بولا "یار ایک کتاب پڑھنی ہے" میں نے کہا کونسی بولا " راجہ گدھ" ارے یہ تو ناول ہے جس میں بانو قدسیہ نے محبت اور حلال حرام پر بحث کی ہے، کہنے لگا بس مجھے سمجھا دے اس نے فوراً کتاب کھولی جس پر مارکر سے کئی صفحوں پر نشان لگے ہوئے تھے اور ایسے لگتا تھا جیسے وہ کتاب پڑھ چکا ہے اور جہاں جہاں سے سمجھ نہیں آئی پوچھنا چاہتا ہے۔ ‏میں نے کہا دیکھو منور علم ایک وسیع سمندر ہے مجھے تو خود ہر چیز کی سمجھ نہیں ہے۔۔۔۔کہنے لگا چلو جتنا تمہیں پتہ ہے اتنا تو بتاؤ، میں حیران تھا کہ اس میں جاننے کا اتنا شدید رجحان کہاں سے ٹپک پڑا، خیر اس رات ہم دیر تک حلال، حرام اور روحانیت پر بحث کرتے رہے۔ صبح کوئی دس بجے دروازے پر ناک ہوئی منور کا باپ بمعہ اپنے باڈی گارڈز کے میرے سامنے کھڑا تھا میں نے منور کو جگایا جو راجہ گدھ کی ادھ کھلی کتاب پر سر رکھے سو رہا تھا، اسکے باپ میں وہی روایتی جاگیردارانہ رعب، شان و شوکت اور غرور تھا اس نے مجھے کوئی اہمیت نہ دی اور بیٹے سے پوچھنے لگا کہ وہ علیحدہ کمرے میں کیوں نہیں شفٹ ہوتا؟ "نہیں بابا میں یہیں ٹھیک ہوں یہ میرا دوست ہے سدید" جاگیردار نے بے حسی سے میری طرف دیکھا اور بیٹے سے مخاطب ہوا " نہیں منور تمیں علیحدہ کمرے میں رہنا ہوگا تو میرا شیر ہے اور میں اپنے شیر پتر کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتا" پھر اس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ منور کا سامان اٹھا کر اس کے کمرے میں شفٹ کر دو اور یوں چند منٹوں بعد منور مجھ سے جدا ہو گیا۔

مجھے منور میں بہت سی تبدیلیاں نظر آ رہی تھیں اور میں اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر ناجانے میرے اندر کیا خوف تھا کہ وہ جب بھی سامنے آتا میں کچھ رک سا جاتا اور مجھے یوں لگتا کہ اگر میں نے اس سے زیادہ سوال کئے تو یہ شائد اچھا نہ ہوگا مجھے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے کہ جب وہ خود مجھے سب کچھ بتا دے۔ دو دن تک وہ میرے پاس نہ آیا تیسرے دن مجھ سے نہ رہا گیا اور میں خود اس سے ملنے چلا گیا وہ پھر کوئی کتاب پڑھ رھا تھا اور شیو بڑھی ہوئی تھی مجھے دیکھ کر بولا مجھے معاف کر دینا جو میرے بابا نے کیا اچھا نہیں کیا۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ آج پھر اس نے مجھے ایک سوال سے حیران کردیا اور مشکل یہ تھی کہ آج مجھے جواب بالکل نہیں آتا تھا " یار اللہ مومن کے قلب سے کیسے بولتا ہے" میں نے کہا تمہیں کس نے بتایا کہ اللہ قلب سے بولتا ہے کہنے لگا قرآن پاک نے، میں نے کہا اس کا جواب تو پھر کوئی عالم دین ہی دے سکتا ہے، کہنے لگا ہو آیا ہوں تین مولویوں کے پاس کچھ پلے نہیں پڑا، میں نے محسوس کیا کہ گزشتہ دو تین ہفتوں میں اسکی علمی استعداد میں کافی بہتری آچکی تھی اور اب وہ ایک پہلوان منور باقی نہیں رہا تھا، میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سوال کا جواب تو مجھے بھی چاہیے اگر کہیں سے پتہ چلے تو مجھے بھی بتانا۔ اس نے حامی بھری اور میں واپس کمرے میں آگیا جہاں میرا نیا روم میٹ آچکا تھا۔

کوئی دو تین دن بعد دوپہر ۳ بجے کے قریب منور میرے پاس آیا وہ بڑی جلدی میں تھا اور بولا اگر سوال کا جواب چاہیے تو چلو میرے ساتھ اور جلدی کرو ہم لیٹ ہو رہے ہیں اس نے مجھے کپڑے بھی نہ بدلنے دیے اور ہم دونوں عجیب خستہ حال حلیے میں دو گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد شہر سے باہر ایک پرانے قبرستان میں وارد ہوئے راستے سے اس نے کچھ پھل وغیرہ خریدا، شام کے قریب مجھے قبرستان سے خوف آ رہا تھا، ہم قبروں کے درمیان کچے راستے سے گزر رہے تھے، قبروں کے کتبوں، پرندوں کی آوازوں اور مردوں کی خاموشی نے عجیب خوف طاری کر دیا تھا، میں اس سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ تم کہاں جا رہے ہو " خاموشی سے میرے پیچھے چلتے رہو ورنہ واپس لوٹ جاؤ" میں اس کے جواب سے اور زیادہ پریشان ہوگیا۔ آخر ہم ایک کٹیا میں پہنچے جہاں ایک ننگ دھڑنگ باریش بزرگ ہیبت ناک آنکھوں سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے، جسم کیا تھا ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا بوڑھے نے حرام نما بوسیدہ کپڑے سے اپنا جسم ڈھانپہ ہوا تھا، منور نے پھل نذر کیا اس نے دور پڑی ایک اینٹ پر رکھنے کا اشارہ کیا، میرے جسم میں خوف سے عجیب کپکپی تھی اور میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا، مجھے تو وہ کوئی مردوں پر تجربے کرنے والا جادوگر لگ رہا تھا، وہ بوڑھا کٹیا سے باہر نکلا اور اس نے اپنے لئے رات کا کھانا بنانا شروع کر دیا، اس نے اینٹوں کے نیچے لکڑیاں جلائیں، اور ایک گندی بوسیدہ ہانڈی میں سبزی کاٹ کر ڈالنی شروع کردی، تھوڑا پانی ڈالا اور چٹکی بھر نمک، دوسرے چولہے پر اس نے آٹا گھول کر توے پر ڈالا اور تین کچی پکی روٹیاں بنائیں، پھر اس نے ہمیں کھانا کھانے کی دعوت دی جسے میں کھانے سے قاصر تھا، اس نے مجھ سے سوال کیا کیوں مزہ نہیں آتا؟ میں خاموش رہا وہ بولا تم میرا کھانا نہیں کھا سکتے میں تمہارا نہیں کھا سکتا، تمہیں اسکا مزہ نہیں آتا مجھے اس کا مزہ نہیں آتا اپنا پھل واپس لے جاؤ، ناجانے منور کے دل میں کیا آئی اس نے وہ بدمزہ پکوان کھانا شروع کر دیا۔ پھر بوڑھا منور کی طرف دیکھ کر بولا جو سوال تم پوچھنا جاہتے ہو اس سے پہلے اس بات کا اچھی طرح ادراک کر لو کہ جواب جاننے کے بعد تم دنیا کے قابل نہیں رہو گے یا پھر یہ دنیا تمہارے قابل نہیں رہے گی، میرے تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، میں ترک دنیا کے کسی بھی تصور کے خلاف تھا اور مجھے تو اس سارے ماحول سے وحشت ہونے لگی تھی میں وہاں سے اٹھا اور دہشت میں قبروں کو پھلانگتا ہوا واپس بھاگ پڑا، میں جلد از جلد ہاسٹل واپس پہنچنا چاہتا تھا مجھے تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ موت میرے سر پر کھڑی ہے اور مجھے اپنی جان بچانی ہے، مجھے منور کا بھی کوئی خیال نہ رہا، آخرکار میں دس بجےکے قریب تھکا ہارا ہاسٹل واپس پہنچ گیا۔ لیکن دل میں سکون نہیں تھا بار بار ذہن میں وہ منظر گھوم جاتا تھا، میں نے خوف میں وضو کیا اور نماز پڑھنا شروع کر دی۔

چار دن گزر گئے منور سے کوئی ملاقات نہ ہوئی پانچویں دن میں ڈرا ڈرا اس کے کمرے کی طرف گیا لیکن تالا دیکھ کر واپس آگیا میں نے سوچا کہیں باہر گیا ہوگا شام تک آجائے گا لیکن بار بار تالا دیکھ کر مجھے تشویش ہونے لگی، سات دن بعد کالج انتظامیہ کی طرف سے ایک اطلاع نامہ آیا کہ "منور نامی ایک طالب علم ہاسٹل سے لاپتہ ہوگیا ہے اگر کسی کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات ہو تو کالج انتطامیہ سے رابطہ کرے" میں نے خواہ مخواہ کسی مصیبت میں پھنسنے سے بچننے کے لئے خاموشی اختیار کی، کچھ دنوں بعد جاگیردار کے کارندے پولیس کے ساتھ میرے کمرے میں آئے اور منور کے بارے میں تفتیش کرنے لگے میں نے کچھ نہ بتایا اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہا، چند روز بعد میں نے ایک گمنام خط ٹائپ کر کے کالج انتظامیہ کو لکھا جس میں تمام حقائق سے باالوسطہ کالج انتظامیہ کو آگاہ کر دیا۔

دن گزرتے رہے کچھ دن تو منور کی یاد ستاتی رہی مگر پھر "دنیا نے تہری یاد سے بیگانہ کر دیا" والا معاملہ ہوگیا۔ میں نے منور کو اپنے طور پر بہیت تلاش کیا اور بوڑھے بابے کی جھونپڑی تو اب سرے سے قبرستان میں موجود ہی نہ تھی، زندگی آگے بڑھتی رہی، ایم اے کا امتحان پاس کیا اور کسب معاش کے گول چکر میں گم سم گم سم چلتا رہا، پھر اچانک ناجانے کیوں اللہ نے دل میں قرآن پڑھنے کا شوق ڈال دیا اور نماز جو غیر مسلسل تھی مسلسل ہونے لگی اور عجیب وغریب سوال دل میں پیدا ہونے لگے دنیا سے دل اچاٹ سا ہونے لگا، اقبال کی شاعری نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا اور ایک شعر تو جیسے میرے دل میں اٹک کر رہ گیا

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مہری جبین نیاز میں

مجھے یہ تو اقبال دانوں نے بتا دیا کہ حقیقت منتظر سے مراد اللہ ہے اور لباس مجاز سے مراد دنیا کا مجازی، جسمانی اور فانی لباس ہے لیکن مجھے یہ سمجھ نہ آسکی کہ وہ اللہ دنیا کے مجازی لباس میں کیسے نظر آ سکتا ہے، وہ تو نور ہے اور انسان خاک، یہ خاک اور نور کا آمنا سامنا کیسے ہوسکتا ہے، میں نے اس سوال کا جواب جاننے کی بڑی کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔

مجھے میرے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ سوال کا جواب جاننا چاہتے ہو تو چاند کی پہلی جمعرات کو حضرت بابا فرید گنج شکر کے مزار پر چلے جاؤ اور شب بیداری کرو اور صبح فجر پڑھ کر واپس آنا اللہ کرم کرے گا۔ میں نے سوچا چلو ایسا بھی کر دیکھتے ہیں، جب میں وہاں پہنجا تو پنڈال حاضرین سے بھرا ہوا تھا، اور عقیدت مند سر ہلا ہلا کر ذکر و عبادت میں مشغول تھے، ایک طرف قوالی ہو رہی تھی، کہیں لنگر تقسیم ہو رہا تھا، مجھے ان ساری باتوں سے کوئی سروکار نہیں تھا میں نے وضو کر کے نماز پڑھی اور دل میں سوچنے لگا یہاں آنا تو بے سود نکلا ، بہرکیف رات تو گزارنی تھی میں وہیں پڑا رھا رات کے آخری پہر مجھے نیند آگئی اور اور میں ناجانے کس حال میں کس وقت سو گیا۔ جب مجھے کسی نے اٹھایا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی اور میں آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگا منور میرے پاس بیٹھا تھا، بولا سوال کا جواب جاننا چاہتے ہو سوچ لو جواب آج بھی وہی ہے پھر اس نے قبرستان والے بزرگ کے لفظ دھرا دیے" اچھی طرح سوچ لو جواب جاننے کے بعد تم دنیا کے قابل نہیں رہو گے یا پھر یہ دنیا تمہارے قابل نہیں رہے گی" بس ایک فقرے کا منور نے اور اضافہ کیا " تم اس دن بھی بھاگ گئے تھے آج بھی بھاگ جاؤ گے"
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 22025 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More