انتخابات یا ڈرامہ؟

ٓآئیے عام انتخابات کی بات کرتے ہیں۔گرمیوں کا موسم شروع ہو ہی گیا ان انتخابات کے بجائے ”آم انتخابات “ ہوجاتے تو مزا آجاتا ۔ ۔۔۔مگر عام انتخابات ۱۱ مئی کو پورے ملک میں مجموعی طور پر شفاف ہوئے ، یورپی یونین کے مبصر بھی یہ ہی رپورٹ دیتے ہیں ان کا کہناہے کہ انتخابات نوے فیصد شفاف ہوئے ہیںتاہم انہوں نے دس فیصد دھاندلی کی وضاحت کیے بغیر بتایا کہ کراچی میں اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر ایک جماعت کا قبضہ تھا۔ہمارا خیال ہے کہ کراچی میں انتخابات نہیں ہوئے یہاں شفاف اور فوج کی نگرانی میں آزادانہ انتخابات کے نام پر ” ڈرامہ “ہو ا۔شفاف ڈرامہ۔۔۔یہ ڈرامہ ہر طرح کی شفافیت سے بھی پاک تھا ۔مزاح کے پہلو تو کئی مناظر میں واضع تھے۔۔۔آپ کو یقین نہیں آرہا ہوگا؟ میں آپ کو ایک منظر بتاتا ہوں ، یہ منظر لانڈھی کے ایک پولنگ اسٹیشن کا ہے جہاں ایک خاتون اس اطلاع پر کہ اب علاقے میں فوج اور رینجرز پہنچ چکی ہے دوپہر تین بجے اپنا ووٹ اپنی مرضی سے کاسٹ کرنے کی نیت سے پولنگ اسٹیشن پہنچتی ہیں ،انہوں نے پولنگ اسٹیشن کے گیٹ سے لیکر پولنگ بوتھ تک ماحول کو فوج ، رینجرز اور پولیس سے پاک پایا۔پولنگ بوتھ میں پہنچتے ہی انہیں دو نوجوانوں نے مخاطب کیا ” آپ اب آرہی ہیں ، باجی آپ کو ووٹ تو کاسٹ ہوچکا“ خاتون کو یہ سنکر غصہ آیا انہوں نے کہا میرا ووٹ کس نے کاسٹ کیا اور آپ لوگ یہاں کیسے یہ تو عورتوں کا پولنگ اسٹیشن ہے ؟ ۔۔۔۔جواب دیا کہ ہم بھائی لوگ ہیں اپنی بہنوں کو کیا ہم تو بھائیوں کو بھی یہاں آنے کی زحمت نہیں دینا چاہ رہے تھے یقین کریںسب کے ووٹ ہم نے خود ہی ڈال دیئے بلکہ کچھ بچوں سے بھی یہ کام کروایا کیونکہ یہ ضد کررہے تھے کہ ووٹ کیسے ڈالتے ہیں۔اس لیے آپ کا ووٹ اسی طرح کاسٹ کردیا گیا ۔۔

این اے 250کا منظر ملاحظہ کیجئے۔۔۔۔۔۔پولنگ اسٹیشن پر لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں ، اچانک اطلاع ملی کہ کو ئی جج صاحب آرہے ہیں ، قطار میں لگے افراد خوش ہوگئے کہ اب پولنگ شروع ہوجائے گی یہ قوم ہے ہی ڈنڈے کی ۔۔۔لوگ خوش تھے کیونکہ انہیں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑے گھنٹوں گز رچکے تھے ۔۔۔۔مگر یہ کیا جن صاحب کے آنے کی اطلاع تھی وہ خود بھی قطار میں آکر کھڑے ہوگئے ۔۔۔۔لوگوں نے برجستہ کہا کہ ” یہ کیا سین ہے “ ہم تو سمجھ رہے تھے یہ صاحب کوئی ایکشن لیں گے مگر یہ تو ہمارے ساتھ ہی لائین میں لگ گئے۔۔۔پھر کیا تھا وہ شخصیت بھی کبھی اپنی کار میں تو کبھی قطار میں انتظار کرتی رہی۔۔۔۔۔انتظار کرتے کرتے جب وہ صاحب تھک گئے ، واپس اسی طرح خاموشی سے چلے گئے جسے عام ووٹرز جاتے رہے۔ اس دوران بعض لوگوں کو شک ہوا کہ یہ وہ نہیں ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں۔ مگر کچھ دیر بعد ایک ٹی وی پر ٹیکر چلا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس مشیر عالم صاحب قطار میں کھڑے رہنے کے بعد بغیر ووٹ ڈالے گھر چلے گئے۔

میں سوچ رہا تھا کہ اگر چیف جسٹس مشیر عالم پولنگ اسٹیشن پر پہنچ گئے تھے تو انہوں نے اس صورتحال پر موقع پر ہی ایکشن کیوں نہیں لیا ۔ ہم نے تو سنا ہے کہ جج جہاں پہنچ جائے وہیں عدالت لگاسکتا ہے۔۔۔شائد انہیں خیال آگیا ہو کہ ” آج تو چھٹی ہے “۔

چلیں ایک اور منظر نامہ سنئے ۔۔ یہ ہے گلشن اقبال پولنگ اسٹیشن ۔۔۔صبح کے گیارہ بجے رہے ہیں لوگ قطار میں لگے چیخ و پکار کررہے کہ آخر پولنگ کب شروع ہوگی ۔اس شور شرابے میں پولنگ اسٹیشن سے ایک نوجوان ہاتھ میں ان مٹ سیاہی لیے لوگوں کی طرف آتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ آپ سیاہی انگوٹھے پر لگالیں جسے ہی بیلٹ پییپر آئے گا آپ ووٹ ڈال دینا۔اس تجویز پر قطار میں کھڑے افراد انمٹ سیاہی کا نشان لگانے پر تیار ہوگئے ،نوجوان جو کرنے آیا تھا کرکے چلاگیا اور پھر پلٹ کر نہیں آیا جب کافی وقت گزر گیا لوگوں پھر شور کیا کہ آخر کب پولنگ شروع ہوگی۔ یہ شور شرابہ سنکر ایک نیا چہرہ پولنگ اسٹیشن کے اندر سے نمودار ہوا ۔۔۔۔ لوگوں اسے نے انمٹ سیاہی کا ماجر ا سنایا تو موصوف نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ لوگ ووٹ ڈال چکے ہیں ۔دوبارہ ووٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں یہ نہیں ہوسکتا جن کے انگوٹھوں پر سیاہی لگی ہوئی ہے وہ دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ گھنٹوں سے ووٹ ڈالنے کی خواہش لیے کھڑے لوگوں مایوس ہی پولنگ اسٹیشنوں سے بڑبڑاتے ہوئے واپس گھروں کی طرف لوٹ گئے۔

کراچی میں اس بار ہونے والے انتخابات بہت اہم تھے کہ اس بار متحدہ کے سامنے تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں موجود تھیں ۔ انتخابات سے پہلے ہی کراچی کی 17جماعتوں نے کسی شک و شبہے کو ختم کرنے اور مکمل شفاف اور آزادانہ انتخابات کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا۔لیکن اس مطالبے کی مخالفت متحدہ قومی موومنٹ ، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے کی تھی حالانکہ یہ تینوں جماعتیں مبینہ طور پر طالبان کے حملوں اور آزادانہ انتخابی مہم نا چلا پانے کی گلے کرتی رہیں ۔ سوال یہ تھا کہ جب طالبان کی طرف سے خطرہ بھی تھا تو پھر کیا وجہ تھی کہ انتخابات کے دن پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر فوج کی تعیناتی کی مخالفت کی گئی ہے؟فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کرنے والی تقریباََ تمام جماعتوں نے بد ترین دھاندلی کا الزام متحدہ پر لگایا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے ترجمان نے بھی نام لیے بغیر اسی طرح کا الزام عائد کیا۔جماعت اسلامی نے اس دھاندلی پر پولنگ کے عمل کے دوران انتخابات کا بائیکاٹ کردیا ۔ ان جماعتوں کو پورے کراچی میں دھاندلی کی شکایت ہے لیکن متحدہ کو صرف قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 250پر اسی طرح کی شکایت ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ مذکورہ حلقے کے صرف ۳۴ پولنگ اسٹیشنوں کے بجائے پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرائے جائیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ متحدہ کی سیاست آخر کیا ہے ؟متحدہ اپنے آپ کو پورے شہر کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے پورے شہر میں شفاف اور آزادانہ انتخابی عمل سے ڈر کر فوج کی تعیناتی کی مخالفت بھی کرتی ہے ۔ متحدہ تقریباََ 30سال سے سیاست میں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت اور اس کو اسٹریٹ پاور دیکھ کر متحدہ خود خوفزدہ ہوگئی ہے -

خوف کے عالم میں غصہ کس طرح آتا ہے اس کا مظاہرہ بھی لوگوں نے براہ راست لندن سے دیکھا ۔ ۔ایسا لگ رہا تھا کہ مقرر صاحب انتہائی جذبات میں یہ بھول ہی گئے کہ وہ برطانیہ میں ہیں اور پاکستانیوں سے مخاطب ہیں ۔

کراچی اور ملک کی سیاست میں تحریک انصاف نے انقلاب بپاکرچکی ہے ۔انقلاب کی باتیں تو الطاف حسین طویل عرصے سے کررہے ہیں لیکن ان کا انقلاب ”حکومتی سپورٹ “کے باوجودبھی نظرنہیں آیا۔حالانکہ لوگ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ حکومتی ایوان میں رہتے ہوئے کیسا انقلاب لایا جاتا ہے۔عمران خان کے انقلاب کی اہم بات یہ بغیر کوئی لاش گرے ، بغیر کسی خونریزی کے لیے لایا گیا ہے ۔

متحدہ کراچی کے لوگوں سے دور ہوگئی یا نہیں اس بارے میں کہنا مشکل ہے تاہم یہ بات ا ٓسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ کراچی کے لوگوں کی اکثریت تحریک انصاف کی مداح ہوگئی ۔ اگر ۱۱ مئی کے انتخابات فوج کی نگرانی میںہوتے اور شفاف اور آزادانہ ہوتے تو کراچی سے خوف پھیلانے اور گولیاں برسانے والے بادل ہمیشہ کے لیے چھٹ جاتے۔ خیر لوگوں نے متحدہ کی دھاندلی پر کھل کراظہار کرکے طویل عرصے بعد زبانیں کھول دیں ہیں ۔یہ ہی بات انقلاب کی باتیں کرنے والوں کے لیے بڑا انقلاب ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ میں بعض شخصیات ایسی ہیں کہ جنہیں قوم دل سے نہ صرف چاہتی ہے بلکہ عزت بھی کرتی ہے ۔تاہم متحدہ کی غلط پالیسیوں خصوصاََ ہر معاملے میں”طاقت “ کے اظہار نے اسے اس جگہ پہنچادیا جہاں سے واپسی کا سفر مشکل ہوجاتا ہے ۔خیال ہے کہ متحدہ آئندہ پیدا شدہ صورتحال سے سبق حاصل کرے گی ۔۔۔۔متحدہ کی مشکل یہ ہے کہ اس کا نظریہ آج تک واضع نہیں ہے۔ اس کا نعرہ ”منزل نہیں قائد چاہئے “ خود تمسخر اڑانے کا باعث بنا ہوا ہے ۔قوم اب سوال کرتی ہے کہ آخر متحدہ کی سیاست کا اصل مقصد کیا ہے؟اگر حکومت نے سیاسی جماعتوں کے مطالبات پر پورے کراچی میں ۱۱ مئی کو ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دیکر دوبارہ انتخابات کا اعلان کیا گیا تو متحدہ اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گی بلکہ احتجاجاََ انتخابات کا بائیکاٹ کردے گی ۔۱۱ مئی کو سب نے یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ جو جماعت طالبان کے خوف سے انتخابی مہم نہیں چلا پارہی تھی اسے انتخابات کے موقع پر کسی قسم کا خوف نہیں تھا جس کے باعث ان کے ایک امیدوار نے ایک لاکھ 80 ہزار ووٹ حاصل کیے حالانکہ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر تاخیر سے پولنگ شروع ہونے کی شکایت عام رہی۔ان ووٹوں کی چانچ پڑتال کی جائے تو پتا چلے گا کہ اوسطاََ ہر سکینڈ میں پانچ ووٹ ڈالے گئے ہیں ، لیکن کیا یہ ممکن ہے ؟ اگر

نہیں تو یہ کیا الیکشن تھے؟ پھر بھی فخرو بھائی کا الیکشن کمیشن ان انتخابات کو درست تسلیم کررہا ہے ۔۔۔اگر ایسی بات ہے تو اس میں امیدوار یا ووٹرز کی کوئی غلطی نہیں ہوگی یہ تو صرف الیکشن کمیشن کی غفلت ہوگی۔ ان انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے والی جماعتوں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ تمام بیلٹ پپیرز کی نادرا کی مدد سے جانچ کرائی جائے اور انگوٹھے کے نشان کو شناختی کارڈ سے میچ کرایا جائے ۔اور خبر خوش آئند ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایسا ہی کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایک بار الیکشن کمیشن سوچ سمجھ کر فیصلے کرلے گا تو ہمیشہ کے لیے انتخابات میں بدعنوانی ختم ہوجائے گی اور جاگیرداروں ، زمینداروں ، سرمایہ داروں اور بھائی لوگوں کاخوف ختم ہوجائے گا۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 153038 views I'm Journalist. .. View More