سیاسی شیر کی آمد

الیکشن کا مرحلہ اختتام پذیر ہوا۔اور سیاسی شیر نے میدان مار لیا۔سیاسی شیر اس لئے لکھاہے کہ اگر خدانخواستہ اصلی شیر سامنے آتا ہے تو لوگ میدان چھوڑ کر بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔مگر یہ سیاسی شیر ہے جس نے میدان مار لیاہے۔اور آئندہ حکومت بھی اسی شیر کی بننے والی ہے۔جس پھرتی سے عوام نے شیر کی طرح شیر کو کامیابی دلوائی ہے اب عوام یہی چاہے گی کہ اُسی پھرتی کے ساتھ عوامی مسائل بھی حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر! شکر ہے خدا ئے بزرگ و برتر کا کہ جس نے ملک کو آزاد کروایااور پھر یہ بھی دکھایاکہ دنیا کا ہر ملک آزادی کے بعد نئی نئی بلندیوں کو چھو رہاہے اور یہ بھی دکھایاکہ ہم پاکستان میں رہنے والے کتنی تیزی کے ساتھ نیچے جا رہے ہیں۔ملک کو آزاد کرانے والی روحیں بھی بے چین ہونگی ہماری پستی کو دیکھ کر۔آزاد پاکستان میں جمہوری نظام کے تحت الیکشن 2013ہو چکے ہیں اور ووٹ لینے اور دینے کا مرحلہ اختتام پذیر ہو چکاہے۔جن لوگوں اور جن جماعتوں نے الیکشن لڑے اب ان کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے پاکستان کو اوپر کی طرف لے جانے کی۔ترقی یافتہ دور میں شامل کرانے کی، غریب اور متوسط طبقہ کے عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے کام کرنے کی، لوڈ شیڈنگ کے جن کو مار ڈالنے کی، بے روزگاری کے فتنے کو ختم کرنے کی، مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کرنے کی، سب سے بڑھ کر کرپشن کو ختم کرنے کی جو زہر کی طرح ہر ادارے کو ڈستا جا رہا ہے اور اپنے روپئے کی قدر کو مستحکم کرنے کی۔اور بھی مسائل ہیں مگر فی الحال یہ چند مسائل ایسے ہیں جسے حل کرنا نئی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہے۔اب دیکھئے کہ نئی حکومت جو بننے جا رہی ہے وہ کہاں تک ان تمام مسائل کو حل کر تی ہے۔

اب نئی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خدمت کرکے عوام کا اعتماد اپنے لئے بحال رکھیں۔عوام سے اپنے پہلے ہی خطاب میں غریبوں کے لئے خوش آئند اقدامات کا اعلان کریں تاکہ پچھلے پانچ سالوں سے جو یہ عوام مہنگائی کی چکی میں اور دیگر مسائل میں پِسے ہوئے ہیں ان کی کچھ داد رسی ہو جائے۔ویسے تو ہمارے یہاں یہ روایت رہی ہے کہ بیان بازی کرکے لوگوں کا اعتماد حاصل کیا جاتارہاہے جبکہ انہیں عوام کی خدمت کرکے ان کا اعتماد حاصل کرنا چاہیئے۔عوام نے انہیں منتخب کیا ہے، صدقِ دل سے عوام کی خدمت کرکے عوام کا اعتماد بحال کریں تاکہ لوگ اسلام آباد سرکار کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔ایسا موقع ہر کسی کو نہیں ملتا ۔اگر واقعی نئی حکومت عوام کے تئیں سنجیدہ ہے اور جو وعدے انتخابات میں کئے گئے ہیں تو عوام کے مسائل ضرور ہونگے۔فی الحال نئی حکومت کو منتخب کرکے عوام نے کچھ لمحوں کے لئے اپنی بارِ گراں کو ہلکاکیا ہے اور یہ بارِ گراں منتخب حکومت کو سونپ دیا ہے ۔اور اب تو عوام اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی ہے کیونکہ انہوں نے اپنا کام ووٹ کے ذریعے انجام دے دیا ہے۔وہ کہتے ہیں نا کے ”گیند اب حکومت کے کورٹ میں ہے“ تو ویٹ اینڈ واچ کہ کیا ہوتاہے کیونکہ ابھی امیدِ سحر باقی ہے۔
ہمارے یہاں اکثر یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ منفی سیاست کا رجحان زیادہ رہتا ہے جس نے پاکستان کی سیاسی حیثیت کو داغدار بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑا ہے۔یہ ملک سیاسی تاریخ کی حیثیت سے بہت اعلیٰ مقام رکھتا ہے اور کسی ملک کو عالمی سطح پر اعلیٰ مقام پر پہنچانا یا نیچے گرانا سیاسی لیڈروں کی سیاست پر منحصر ہوتاہے۔جیسی سیاست ہوگی عالمی سطح پر ویسا ہی مقام حاصل ہوگا۔اس لئے نئی حکومت کو بھی چاہیئے کہ نہ تو وہ خود کسی قسم کی منفی سیاست کریں اور دوسروں کو کرنے کی اجازت دیں کیونکہ عوام بھی اب ایسی سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے جو ملک و قوم کو ترقی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں اور عالمی سطح پر ملک کو اپنے بد ترین عمل سے بدنام کرنا چاہتے ہیں ۔آج پاکستان میں عوام جن پریشانیوں سے دو چارہیں اور جس طرح وہ مصیبت کی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ تو سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، ہر جگہ اضطراب و مایوسی کا عالم ہے، قسم قسم کے حملے ہو رہے ہیں ، کہیں دانستہ طور پر ظلم و ستم کی چکی میں پیس کر عوام کا امتحان لیا جاتا ہے تو کہیں جان بوجھ کر یہ تمام حرکات و سکنات کو کارگر بنایا جاتا ہے۔ملک میں سینکڑوں قسم کے فسادات ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ عوام کو مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، کرپشن، بیروزگاری،بے امن و امانی جیسے آزمائش میں مبتلا کر دیاگیا ہے۔لیکن ابھی تک حکومتوں نے عدل و انصاف سے کام نہیں لیا، بلکہ عوام کے زخم پر مرہم کے بجائے مرچ اور نمک کا چھڑکاﺅ ہی کیا ہے۔ان تمام مسائل سے عوام کو دوچار کرکے ان کے ذہن و دماغ پر خوف و ہراس اور غربت کا جال بچھا دیاگیا ہے ۔قوم بھوک و پیاس سے چیختی چلاتی نظر آرہی ہے مگر ان کی آہوں پر کوئی کان نہیں دھرا گیا۔پاکستان اقتصادی اور معاشی طور پر بھی شدید کمزور ہو رہا ہے ۔دراصل اس میں قصور عوام کا ہی ہوتاہے کہ انہوں نے ایسے افراد کو اپنا رہبر و قائد بنا لیا اور ایسے پیشوے کا انتخاب کیا جو عصر حاضر کی سیاست کے ماہر تو ضرور ہیں مگر سیاست کرنے سے نا بلد ہیں اور اسلامی سیاست سے ان کو کوئی واسطہ نظر نہیں آتا۔ان کے نزدیک قیادت کا معیار یورپ و امریکہ کی حکومتیں ہیں۔بلا مبالغہ یہ کہنا صحیح نہیں لگتا کہ ان میں قائدانہ بصیرت ہے یا نہیں مگر صحیح معنوں میں قیادت سے ان کا واسطہ نہیں رہا ہے۔خیر جناب! اب تو عوام نے آئندہ پانچ سالوں کے لیئے اپنے نئے حکمران کو چُن لیا ہے اس لئے پچھلی تمام باتوں کو بھلا کر نئی حکومت کی ترجیحات کا انتظار کرنا ضروری ہے۔جیتنے والی تمام پارٹیوں کو اب چاہیئے کہ اپنے سارے اختلافات کو بھلا کر ایک ساتھ مل کر حکومت کی باگ دوڑ سنبھالیں اور عوام کی خدمت کو اپنا شیوہ بنائیں تاکہ ملک کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی داد رسی ہو سکے۔کیونکہ آج اس قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اجتماعیت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے۔ قوم تسبیح کے دانوں کی طرح بکھری پڑی ہے، آج کے لوگوں کو کسی چیز کی پروا نہیں، وہ گرد و پیش کے ماحول سے بے خبر اپنی کشتی ¿ حیات کو ڈھکیلنے میں محو ہیں۔اسے سوچنے کی فرصت نہیں،سمجھنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں۔ایسے نازک دور میں ضرورت ہے ایسے افراد کی جو سیرت و کردار کے آئینہ دار ہوں، اخلاق و عات کی بلندیوں پر فائز اور ایمان و یقین سے سرشار ہوں، ایثار و قربانی کے جذبے اور سپہ گری و سپہ سالاری سے متصف ہوں اور ایسے قائد کی جو ہمارے تشخص کو دوبارہ بحال کر سکیں۔ہمارے مسائل حل کرا سکیں اور اس ملک کے عوام کی خدا داد قابلیتوں و صلاحیتوں کو ترقی و عروج کی راہ پر لگا سکیں۔
بنائیں کیا سمجھ کر شاخِ گل پہ آشیاں اپنا
چمن میں آہ کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا

عوام کو اب اس نئی حکومت سے امید کی ایک نئی کرن دکھائی دے رہی ہے جبھی تو انہیں منتخب کیاہے۔پاکستان کا ایک بہت بڑا طبقہ اس بات کا منتظر ہے کہ ذہن و افکار و خیالات رکھنے والوں کا منتخب کر لیاگیا ہے تو وہ لازمی امر ہے کہ ملک کو اکیسویں صدی کے مطابق اپنے ملک کو اور اپنے عوام کی پرورش ضرور کریں گے۔دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرکے اس پر لگے دہشت گردی کی چھاپ کو ختم کرائیں گے۔دعا ہے کہ نئی حکومت یہ اور اس جیسے بہت سے مسائل سے اس ملک کے عوام کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہو جائیں۔اُمید ہے کہ نئی حکومت عوام کے اس پُر امیدی کو کسی بھی سطح پر داغدار نہیں کریں گے۔اس امید کے ساتھ بننے والی نئی حکومت اور جیتنے والی تمام پارٹیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اللہ کرے سب کچھ ٹھیک ہو جائے اور اس ملک کے عوام بھی ترقی یافتہ اقوام کی طرح زندگی گزاریں۔ آمین

Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 337954 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.