قومی آزمائش

انتخابات کی تیاری کے ساتھ ہی اندرونِ اور بیرونِ ملک طرح طرح کی باتیں اور تبصرے شروع ہو گئے ہیں ۔ یہ گفتگو اور تجزیے صرف سیاست کی حد تک مرکوز نہیں رہ گئے بلکہ قومی مفادات کو بھی نظر انداز کررہے ہیں ۔ ذاتی رنجش اور خود ساختہ ذہنی سوچ اصل معاملات کو پس پشت ڈال کر انتخابات کے عمل اور ماحول پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ اس وقت سب سے پہلی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ادارہ غیر جانبدار ہو۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی سوچ میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی اور وہ بلا خوف و خطر اور کسی دباؤ کے بغیر اپنے ووٹ کے حق کے بارے میں سوچ سکیں گے۔ اُنہیں اپنے فیصلے میں نہ صرف آسانی ہوگی بلکہ اُن کے دل کو بھی اطمینان ہوگا ۔ الیکشن کمیشن کا کام شائد پُر امن اور صاف شفاف انتخابات کی طرف پہلا قدم ہے۔

بیلٹ پیپر کی چھپوائی اور سیکورٹی کے معاملات فوج کی زیر نگرانی ہوں گے۔ سیاسی لیڈروں اور عوام کو فوج کی کارکردگی پر ہمیشہ بھروسہ رہا ہے۔ جہاں فوج ذمہ داری لے لے وہاں کام کے بہ طریق احسن ہونے کی اُمید ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس کے لئے نئی یا انہونی بات نہیں ہے کہ اُسے انتخابات کو ہر ممکن طریقے سے پُرامن اور شفاف بنانا ہے ۔ دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے بھی سیکورٹی کے معاملات مزید توجہ چاہیں گے۔ اس میں بھی عوام کا تعاون ضروری ہوگا۔ لوگوں کو حفاظتی معاملات کے بارے میں بھی مکمل تدابیر کی آگاہی دینی ضروری ہے تاکہ سیکورٹی کے انتظامات پُر امن ہوں۔ تیسرا اہم کردار سیاست دانوں کا ہے کہ وہ کس طرح ہمت و حوصلے سے اچھی بُری بات کو سنتے ہیں ، تنقید برداشت کرتے ہیں اور جذباتی ہونے کے بجائے حالات کے مطابق اچھے اور مثبت فیصلے کرتے ہیں ۔ یہ ہی موقع ہے کہ جب ہمارے سیاستدان عوام کے سامنے اپنی شخصیت کے متعلق اچھا تاثر قائم کر سکتے ہیں ۔ الزام تراشی اور گالی گلوچ یا نا زیبا زبان تراشی وقتی طور پر تو لوگوں کو نعرے اور تالیاں بجانے پر اُکساسکتی ہے۔ لیکن یہی عوا م ایسے لیڈر کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کرتے ۔ جو مواد الیکشن کے سلسلے میں چھپوایا جا رہا ہے اُس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ وہاں پر بھی الفاظ کا چناؤ بہت ضروری ہے۔ جذباتی قسم کے نعرے وقتی طور پر تو لوگوں کو جوش و خروش میں مبتلا کر دیتے ہیں لیکن اس طرح لڑائی جھگڑے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ بُرائی میں بھی ایک لذت ہے جس کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے۔ اور انسان کو ذہنی کشمکش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ حقائق کے ساتھ تنقید کریں اور اپنے عملی اقدامات کی زیادہ بات کریں تو لوگوں کو ایک اطمینان ہوگا اور اُنہیں اُمید کی کرن نظر آئے گی۔ یہی اُمید اُنہیں تبدیلی کی اہمیت کا احساس دلائے گی۔ چوتھا اہم کردار ذرائع ابلاغ کاہے ۔ ٹی وی چینلز کی بھرمار اور ان پر ہر طرح کے پروگرام نہ صرف معلومات دیتے ہیں بلکہ رائے کو بنانے اُسے مضبوط یا کمزور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ میڈیا کا غیر جانبدار ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ لوگوں کے دلوں میں پہلے ہی سے شکوک و شبہات ہیں کہ بہت سے چینل اپنے لوگوں سے پیسے لے کر اُن کے حق میں پروگرام کرتے ہیں ۔ اسی طرح غیر ممالک سے کروڑوں کے عوض خبریں اور تجزیے کسی اور کے مقاصد پورے کرنے کے لئے ترتیب دیے جاتے ہیں ۔ میڈیا کا غیر جانبدار رہنا بہت مشکل ہے۔ ان چینلز پر کام کرنے والے بھی انسان ہیں اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات پر اپنے پروگرام تشکیل دیتے ہیں ۔ لیکن اگر عوام کا اعتماد جیتنا ہے تو پھر جلدی سے " بریکنگ نیوز" دینے کے بجائے ذرا تحقیق کرلیں ۔ الفاظ کا چناؤ اور پیش کرنے کا انداز بھی مثبت رکھیں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔سوشل میڈیا جس طرح سے فعال ہو رہا ہے اُس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہاں پر کس قسم کے پیغامات چل رہے ہیں اور لوگوں پر اس کا کیا اثر ہوگا۔ آگے میڈیا کے لئے مشکل وقت آرہا ہے۔ اُن کی ذمہ داری بہت بڑھ جائے گی۔ رائے عامہ پر اُن کی سوچ اثر انداز ہو سکتی ہے لہذا آپس کے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں میڈیا کو بھی قومی اتحاد اور یکجہتی کی مثال پیش کرنی ہوگی ۔ ایسے موقع بار بار نہیں آتے جو اتنی بڑی قومی ذمہ داری اور اہمیت کے ہوں ۔
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 40125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.