قرآن مجید کا پڑھنا اور سمجھنا کیا صرف مخصوص لوگوں کا حق ہے؟

بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم۔ درود و سلام بنام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرآن مجید اللہ عزوجل کی طرف سے نازل کی گئی ایک ایسی کتاب جس میں نا صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے رہنما اصول و ضوابط جن پر عمل کر کے انسان اور مسلمان انسانیت کی بلندی تک پہنچ سکتے ہیں۔

کچھ لوگ اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ قرآن کے پڑھنے پر زیادہ زور ہو، کچھ اس کو پڑھنے کے ساتھ ساتھھ سمجھنے اور عمل کرنے اور کچھ دوسری باتوں پر بھی توجہ مرکوز رکھتے اور رکھواتے ہیں۔ یہ بات تو صاف ہے کہ قرآن کا چھونا، پڑھنا، سمجھنا، اس کے مطابق زندگی کو عمل میں لانا اور قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت کا خود بھی اہتمام کرنا اور اس کو پھیلانا اور اس کی تعلیم عام کرنا ہم سب کا فرض ہے۔

کچھ محترم حضرات کا خیال ہے کہ قرآن ایک ایسی زبردست کتاب ہے کہ جس کو سمجھنا صرف بہت زیادہ پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کا ہی کام ہے۔ کسی حد تک ان کی باتوں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے مگر نہیں رکیے قرآن کا پڑھنا سمجھنا اور سمجھانا کیا صرف چند افراد تک ہی محدود ہونا چاہیے۔

ذیل میں ایک صاحب علم کی کچھ باتیں قرآن فہمی سے متعلق نقل کرنے کی جسارت کی ہے اس اچھی امید کے ساتھ کہ شاید کچھھ میری عاقبت کا بھی سامان ہو جائے۔

فرماتے ہیں
“ اسلامی قانون کے ٹھیک ٹھیک مطابق قانون سازی اللہ اور صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ آدم سے لے کر اب تک اللہ تعالیٰ نے اپنے قوانین اپنے انبیا اور رسولوں کے زریعے سے نافذ فرمائے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اللہ کی حکمت بالغہ اس امر کی متقضی ہوئی کہ لوگوں کو آخری شریعت عطا کی جائے۔ یہ قانون شریعت انسانوں کی طرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی شکل میں نازل ہوا۔ یہ وحی لکھ لی گئی یا زبانی یاد کرلی گئی اور بعد میں اسے ایک کتاب کی شکل میں جمع کر دیا گیا جو قرآن مجید کے نام سے معروف ہے۔

اس کے بعد نسل انسانی کے تمام مردوں، عورتوں اور بچوں کو معاملات کا تصفیہ ان احکام کی روشنی میں کیا جانا تھا، جو اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمائے۔ یہی احکام بتاتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، کیا پسندیدہ ہے اور کیا غیر پسندیدہ ہے، کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے، کیا مستحب ہے اور کیا مکروہ ہے۔ غرض قرآن مجید مسلم معاشرے کی ایک لازمی بنیاد ہے۔

مزید آگے ارشاد کرتے ہیں۔

بعض امور ایسے ہیں جن کا زکر تمثیل و تلمیح کے انداز میں کیا گیا ہے۔ بعض معاملات ایسے ہیں جن میں قرآن نے مکمل سکوت اختیار کیا ہے تاکہ ان معاملات میں انسان اپنا طرز عمل زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق متعین کرے۔ قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ نہایت سادہ زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ تاکہ ہر ایک اسے سمجھ سکے۔ بعض آیات جن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے ان کا یہاں نقل کردینا مفید ثابت ہو گا۔
سورت ٢ آیت ٢٤٢
سورت٦ آیت ٩٩
سورت ٦ آیت ١٠٦
سورت ٦ آیت ١٢٧
سورت ١١ آیت ١
سورت ١٢ آیت ٢
سورت ١٥ آیت ١
سورت ١٧ آیت ٨٩
سورت ١٧ آیت ١٠٦
سورت ٣٩ آیت ٢٨
سورت ٥٤ آیت ١٧
سورت ٥٧ آیت ٢٥
سورت ٣ آیت ٥٨
سورت ٤١:٤٢ نقل کی ہیں (تلاوت و ترجمہ کی سعادت حاصل کیجیے اور سمجھ کر عمل کر کے اپنی دنیا اور عاقبت کا سامان کیجیے دعوت عام)

پس یہ امر بالکل واضع ہے کہ قرآن کا پڑھنا اور سمجھنا ایک دو آدمیوں کا مخصوص حق نہیں ہے۔ قرآن سادہ اور آسان زبان میں ہے جسے ہر شخص سمجھھ سکتا ہے، تاکہ تمام مسلمان اگر چاہیں تو اسے سمجھ سکیں اور اس کے مطابق عمل کر سکیں۔ یہ ایک ایسا حق ہے جو ہر مسلمان کو دیا گیا ہے اور کوئی شخص، خواہ وہ کتنا ہی فاضل یا عالی مقام کیوں نہ ہو، وہ مسلمان سے قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا حق نہیں چھین سکتا۔ قرآن مجید کو سمجھتے ہوئے ایک آدمی پرانے زمانے کے لائق مسفرین کی تفاسیر سے قیمتی امداد حاصل کر سکتا ہے لیکن اس معاملے کو بس یہیں تک رہنا چاہیے۔ ان تفسیروں کو اپنے موضوع پر حرف آخر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ قرآن مجید کا پڑھنا اور سمجھنا خود اس امر کو متضمن ہے کہ آدمی اس کی تعبیر کرے اور اس کی تعبیر کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی اس کو وقت کے حالات پر اور دنیا کی بدلتی ہوئی ضرورت پر منطبق کرے۔ اس مقدس کتاب کی جو تعبیریں قدیم مفسرین، مثلاً امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی وغیرہ نے کی ہیں۔ جن کا تمام مسلمان اور میں خود بھی انتہائی احترام کرتا ہوں، وہ آج کے زمانے میں جوں کی توں نہیں مانی جا سکتیں۔ ان کی تعبیرات کو درحقیقت دوسرے بہت سے فضلاء نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے جن میں ان کے اپنے شاگرد بھی شامل ہیں۔ قرآن مجید کے مختلف ارشادات کا جو غائر مطالعہ ان حضرات نے کیا تھا، وہ ہم پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان گردوپیش کے حالات اور واقعات سے متاثر ہوئے ہیں جو اس زمانے میں ماحول پر طاری تے۔ وہ ان مسائل کے بارے میں ایک خاص نتیجے تک پہنچے ہیں جو ان کے اپنے ملک یا زمانے میں درپیش تھے۔ آج سے بارہ یا تیرہ سو برس پہلے کے مفسرین کے اقوال کو حرف آخر مان لیا جائے تو اسلامی سوسائٹی ایک آہنی قفس میں بند ہو کر رہ جائے گی اور زمانے کے ساتھ ساتھ نشونما کا اسے موقع نہیں ملے گا۔ یہ پھر ایک ابدی اور عالمگیر دین نہیں رہے گا بلکہ جس زمان و مکان میں اس کا نزول ہوا تھا، یہ اسی تک محدود رہے گا۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، اگر قرآن کوئی لگے بندے ضوابط مقرر نہیں کرتا تو امام ابو حنیفہ وغیرہ کی تشریحات کو بھی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ بالواسطہ اسی نتیجے کا باعظ بنیں۔ بدقسمتی سے حالات جدیدیا کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر کا دروازہ چند صدیوں سے بالکل بند کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمان مذہبی جمود، تہذیبی انحطاف، سیاسی مذمردگی اور معاشی زوال کا شکار ہو چکے ہیں سائنٹیفک ریسرچ اور ترقی جو ایک زمانے میں مسلمانوں کا اجارہ تھی وہ دوسروں کے باتھوں میں جاچکی ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ کی نیند سو گئے ہیں اس صورت حال کا خاتمہ لازمی ہے۔ مسلمانوں کو بیدار ہو کر زمانے کے ساتھ چلنا ہو گا۔ اجتماعی، معاشی اور سیاسی حیثیت سے جو بے حسی اور بے عملی مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے اس سے نجات حاصل کرنی پڑے گی۔ قرآن مجید کے عام اصولوں کو سوسائٹی کے بدلتے ہوئے تقاضوں پر منطبق کرنے کے لیے ان کی ایسی معقول اور دانشمندانہ تعبیر کرنی ہو گی کہ لوگ اپنی تقدیر اور اپنے خیالات اور اخلاقی تصورات کی تشکیل اس کے مطابق کرسکیں اور اپنے ملک اور زمانے کے لیے موذوں طریقے پر کام کر سکیں۔ دوسرے انسانوں کی طرح مسلمان بھی عقل اور ذہانت رکھتے ہیں اور یہ طاقت استعمال کرنے ہی لیے دی گئی ہے بیکار ضائع ہونے کے لیے نہیں ہے۔

چند آیات کی ترجمہ کے بعد فرماتے ہیں

یہ تمام آیات اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ تمام مسلمانوں سے نہ کہ ان کے کسی خاص طبقے سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ قرآن کا علم حاصل کرے اسے اچھی طرح سمجھیں اور اس کی تعبیر کریں۔ تشریح و تعبیر کے چند مسلم اصولوں کی پابندی لازم ہے۔ ان اصولوں میں سے چند ایک یہ ہو سکتے ہیں:

١۔ قرآن مجید کے بعض احکام اہم اور بنیادی ہیں۔ ان کی خلاف ورزی ہرگز نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان پر جوں کا توں عمل کرنا چاہیے

٢۔ کچھ اور آیات ایسی ہیں جن کی نوعیت ہدایات کی ہے اور جن کی پیروی کرنا کم و بیش ضروری ہے۔

٣۔ جہاں الفاظ بالکل سادہ اور واضع ہوں، جو متعین اور غیر مبہم مفہوم پر دلالت کرتے ہوں، وہاں الفاظ کے وہی معانی مراد لینے چاہئیں جو لغت اور گرامر کی رو سے صحیح اور متبادر ہوں۔ دوسرے لفظوں میں اس مقدس کتاب کے الفاظ کے ساتھ کسی طرح کی کھینچ تان روا نہیں ہے۔

٤۔ اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ قرآن مجید کا کوئی حصہ بے معنی، متناقض یا زائد ضرورت نہیں ہے۔

٥۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی معنی نہیں نکالنے چاہئیں۔

٦۔ شان نزول کے مطابق یعنی نزول قرآن کے وقت جو حالات درپیش تھے، ان کے پس منظر میں رکھ کر قرآن کے معانی کی تشریح کرنا خطرناک ہے۔

اسکے علاوہ بھی کچھ مسلم اصول بیان کیے گئے ہیں۔

بس تو بھائیوں اس میں ٹائپنگ کی غلطیاں یقیناً میری شمار کی جائیں اور اللہ سے میری بخشش و مدد کی دعا کی جائے۔

اللہ ہم سب کو ہدایت کاملہ و عاجلہ نصیب فرمائے۔

شیخ صاحب آپکے کالم لا اکراہ فی الدین - حصہ دوم کا جواب کچھ تیاری کا متقاضی ہے کچھھ مہلت عنایت فرمائیں انشا اللہ اس کا جواب آپکے مہیا کردہ ای میل ایڈریس پر ارسال کروں گا اور دعا فرمائیں کہ اللہ ہم سب کو ہدایت فرمائے اور ہماری مدد فرمائے آمین۔

والسلام
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 497080 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.