لا اکراہ فی الدین چند اعتراضات کا جواب - حصہ دوم

کچھ باتیں عرض کردوں کہ میں نے اپنے آرٹیکل ( لا اکراہ فی الدین کا صحیح مفہوم ) میں ایک دینی اور شرعی مسئلے پر علماء کی تفاسیر پیش کر کے ایک بات پیش کی تھی لیکن میرے مہربانوں نے میرے آرٹیکل مندرجہ ذیل الزامات لگائے ہیں ۔ایک صاحب کو یہ کالم صوفی محمد کے حمایت میں نظر آگیا جب کہ میرے اس آرٹیکل میں کہیں بھی صوفی محمد یا کسی اور گروپ کا نہ تو نام لیا گیا تھا نہ ہی حمایت کی گئی تھی بلکہ سیدھا سیدھا قرآن کا حکم بتایا تھا لیکن معترضین نے اس کو صوفی محمد صاحب سے منسوب کردیا اب میں اس کا کیا جواب دوں۔کچھ صاحبان کا خیال ہے کہ میں نے فتویٰ دیدیا ہے،اور میں مفتی بنتا جارہا ہوں جب کہ میں نے اس کالم میں کہیں بھی کسی کو دائرہ اسلام سے نعوذ باللہ خارج نہیں قرار دیا۔کسی کو واجب القتل قرار نہیں دیا، کسی کو کافر قرار نہیں دیا لیکن اعتراض برائے اعتراض کرنے والوں کو پتہ نہیں کیسے اس میں یہ ساری باتیں نظر آگئیں،( آرٹیکل کا مطالعہ کرکے اس کو بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ میں غلط ہوں یا صحیح )۔ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ میں نے تفاسیر میں سے اپنے مطلب کی لائنیں اٹھالیں ہیں اور باقی باتوں کو چھوڑ دیا ہے اور یہ کہ میں مختلف جگہوں سے ٹکڑے جوڑ کو اپنے مطلب کا مفہوم نکالا ہے اور تو اور ان صاحب نے جن تفاسیر کا حوالہ دیا گیا تھا ان کو ہی غیر مصدقہ قرار دیدیا یہ ان صاحب کی مطلق جاہلیت کا ثبوت ہے لکھتے ہیں کہ ( آپ نے جس طرح حوالے دیے وہ بھی غیر واضع و غیر مصدقہ ہیں کیونکہ آپ نے لگ رہا ہے کہ اپنی مرضی کی لائنیں تو اٹھا لیں اور مخالف نظریہ رکھنے والی لائنیں اڑا گئے) ان صاحب نے بغیر کچھ پڑھے اور سمجھے ان تفاسیر کو غیر مصدقہ کہہ دیا کیوں کہ آگے ان کا یہ کہنا کہ ( اگر ایسا کیا گیا ہے تو اللہ سی فوراً معافی مانگ لیں ) یہ ظاہر کرتا ہے انہوں نے نہ تو تبصرہ کرتے وقت کسی قسم کا کوئی مطالعہ کیا تھا اور نہ ہی ان کو یہ پتا ہے کہ تفسیر ابن کثیر، تفھیم القرآن اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی صاحب کی کنز الایمان کا کیا درجہ ہے، اب اگر ایک فرد ان تفاسیر کو غیر مصدقہ کہے تو کیا اس کی جہالت میں کسی کو شبہ ہوسکتا ہے؟ اسی طرح ایک صاحب کو یہ شبہ ہے کہ میں یہ کالم ایک اور کالم نگار کے جواب میں لکھا ہے اور یہ کہ میں اس پیلٹ فارم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہوں ان کی بات جزوی طور پر درست ہے وہ اس طرح کہ میں نے یہ آرٹیکل کسی کالم نگار کے جواب میں نہیں بلکہ حضرت مولانا مفتی الطاف حسین صاحب دامت برکاتہ لندن والے کی اسلام کی من مانی تعبیر پر لکھا تھا۔البتہ یہ بات درست ہے کہ میں اس پلیٹ فارم کو استعمال کررہا ہوں اور میرا مقصد اس پلیٹ فارم کے ذریعے دین کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے تو وہ میں کرتا رہونگا چاہے کسی کو کتنا ہی برا لگے۔ اس کے ساتھ ہی میرے اس بھائی نے علماء پر “ کم علم ملا “ کی پھبتی کستے ہوئے کہا ( (کہ جیسے جب کسی سکہ بند کم علم ملا کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تو وہ یہ کہتا ہے ) کاش علماء کو کم علم ملا کہنے والے یہ عالم و فاضل بھائی میرے اوپر اعتراض کرنے میں اور اپنے مؤقف کے حق میں کوئی علمی دلیل لاتے تو ان کی بات میں وزن ہوتا۔ لیکن دراصل انہوں نے صرف اپنے اندرونی بغض کو ظاہر کرتے ہوئے بغیر کچھ پڑھے کچھ مطالعہ کیے ہوئے تبصرہ کر دیا ہے۔ایک صاحب نے اعتراض کرتے ہوئے ایک طویل تبصرہ کیا اور لفاظی کرتے ہوئے مجھ پر اعتراض کیا ہے لیکن بات وہی ہے کہ ان صاحب نے کوئی علمی دلیل کوئی حدیث،کسی قرآنی آیت کا حوالہ نہیں دیا۔تو میں ان کی بات کو کیسے اہمیت دیدوں؟؟

سب سے زیادہ افسوس ناک صورتحال میرے ایک کالم نگار بھائی کی ہے کہ انہوں بھی میرے اس آرٹیکل کے جواب میں تین آرٹیکل لکھے، دو میں انہوں نے بھی صرف لفاظی کر کے میری بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی، میرے اوپر مفتی بننے کی پھبتی کے ساتھ ساتھ اسلام کی من مانی تعبیر کا الزام لگایا لیکن انہوں اپنے آرٹیکل ( دین میں جبر نہیں حصہ اول ) میں کوئی دلیل دیئے بغیر میری بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں تمام قارئین سے ایک سوال کرتا ہوں کہ جب ایک بات باقاعدہ حوالوں کے ساتھ بیان کی گئی ہے تو اس کا جواب بھی حوالہ جات کے ساتھ دیا جاتا تو بات میں وزن ہوتا اب یہ یہ تمام معترضین حضرات کیا چاہتے ہیں کہ میں محض ان کی ناراضگی کے ڈر سے ایک غلط بات بیان کروں۔اپنے دوسرے آرٹیکل ( دین میں جبر نہیں حصہ دوم ) میں اس بھائی نے اپنے مؤقف کے حق میں کچھ آیات قرآنی کا ترجمہ پیش کیا لیکن ظلم یہ کیا گیا کہ مجھے تو مفتی ہونے کا الزام لگا کر دین کی غلط تعبیر و تشریح کا الزام لگا دیا گیا لیکن خود اس بھائی نے کسی بھی عالم دین، کسی مفتی کی رائے کے بجائے اپنے فھم اور نظریہ کے مطابق خود ہی ان آیات کی تشریح کردی ہے اب اس کو کیا کہا جائے ؟( اس کا جواب ہم اپنے آرٹیکل لا اکراہ فی الدین :کچھ اعتراضات کا جواب حصہ اول میں دے چکے ہیں)

اس بھائی نے میرے آرٹیکل کے جواب میں تیسرا آرٹیکل ( دین میں کوئی جبر نہیں چند باتیں) یہاں بھی انہوں نے صرف لفاظی کرتے ہوئے میری باتوں سے اختلاف کیا ہے؟ اس کےساتھ ساتھ مجھے مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ میں ان بھائی کے مؤقف کی کسی عالم دین سے تصدیق کرالوں ساتھ ہی ان کو خوف محسوس ہوا کہ کہیں ان کی باتیں غلط ثابت نہ ہوجائیں تو اس میں عالم دین کے ساتھ روشن خیال کی پخ بھی لگا دی گئی ہے تاکہ اگر ان کی باتوں کو غلط ثابت کیا جائے تو یہ فوراً کہہ سکیں کہ جناب یہ تو سکہ بند روایتی علماء ہیں ہم تو روشن خیال علماء کو مانتے ہیں بھائی کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ ہم نے اپنے مؤقف کے حق میں جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی منکرین زکٰوۃ سے جہاد کی مثال پیش کی چونکہ یہ بات ان کے خلاف جاتی تھی اس لیے انہوں فوراً کہہ دیا کہ یہ شریعت تو نہیں بن گئی، کاش یہ بھائی یہ بات کہنے اور اپنی کم عقلی ظاہر کرنے سے پہلے تھوڑا سے مطالعہ کرلیتے تو یہ بات نہ کہتے۔ کیا میرے اس بھائی کو نہیں پتہ کہ مقام صدیق اکبر کیا ہے؟ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ جس جس کا مجھ پر کوئی احسان تھا اس کا بدلہ میں نے دیدیا لیکن ابو بکر کے احسانات کا بدلہ میں نہیں اتار سکا۔ ( اللہ کمی بیشی معاف کرے) جناب، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جو یار غار ہیں جن کو بارگاہ رسالت سے حق کی تصدیق کرنے پر صدیق کا خطاب دیا گیا، جن کے بارے میں حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ ابو بکر میرے سارے اعمال لے لو لیکن وہ جو ایک غار ثور کی رات ہے وہ مجھے بخش دو ان کے بارے میں آپ نے کتنی دیدہ دلیری سے کہہ دیا کہ ان کی مثال شریعت نہیں بن گئی ۔محترم ہماری فقہ اور شریعت کے جو بھی معاملات ہیں اس میں اصول یہی ہے کہ سب سے پہلے قرآن پاک سے رجوع کیا جائے، اگر اس میں متعلقہ مسئلہ نہ ہوتا پھر سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا جائے اگر اس میں بھی یہ مسئلہ نہ ملے تو خلفائے راشدین کی سیرت میں اس کو دیکھا جائے ( بعض جگہ صحابہ کرام کی سیرت کا کہا گیا ہے ) اگر اس میں بھی مسئلہ نہ ملے تو پھر اجتہاد کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ اسلامی حکومت میں بے نمازی، روزہ خور، زکٰوۃ نہ دینے والے، حج نہ کرنے والے پر کیا سزا دی جائے گی۔ اس معاملے پر میں نے ایک عالم دین سے رجوع کیا تھا ( ان کی فرمائش کے مطابق روشن خیال عالم ) پروفیسر مولانا محمد آصف خان صاحب جامعہ نعیمیہ سے سند یافتہ عالم ہیں، اس کے ساتھ ساتھ جامعہ کراچی سے ایم اے اسلامیات کیا ہے اور ایک مقامی کالج میں لیکچرار ہیں ان سے جب ہم نے رابطہ کیا تو انہوں مختصراًَ یہ بتایا کہ اگر کہیں اسلامی حکومت قائم ہوتی ہے اور وہاں کے اعمال حکومت بھی دین پر عمل کرتے ہوں تو اس معاشرے میں اگر کوئی فرد اعلانیہ دین کے احکام کی خلاف ورزی کرے گا تو حکام اس پر تعزیری سزا دیں گے اور یہ سزا صوبدیدی ہوگی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اگر ایک فرد نماز نہ پڑھے اور خاموشی سے گھر بیٹھا رہے، یا روزہ نہ رکھے اور گھر بیٹھا رہے کسی کو پتہ نہ چلے تو اس پر کوئی سزا نہیں دی جائے گی لیکن اگر ایک فرد اسلامی معاشرے میں جان بوجھ کر نماز کے وقت باہر بیٹھا رہے، یا رمضان میں روزہ بھی نہ رکھے اور سر عام روزہ خوری بھی کرے تو اس کو تعزیری سزا دی جائے گی۔ یہاں میں ایک بھائی محمد اکبر باروی صاحب نے اس بھائی کے کلم پر جو تبصرہ کیا ہے اس سے ایک مثال پیش کرونگا تاکہ انکی تشفی ہوجائے (خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ان کے صاحبزادے نے نبیذ جو شراب بن چکی تھی اور آپ کو پتا نہ چل سکا پی لی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو کوڑوں کی سزا دی جس سے وہ وفات پاگئے اسی طرح کی کئی مثالیں اسلام کے ابتدائی دور میں ملتی ہیں)

اگر دیکھا جائے تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ میرے اس بھائی نے دین سے محبت کی بناء پر میرے ایک کالم کے جواب میں تین کالم لکھ دیئے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ اسوقت ان کی دینی غیرت کہاں تھی جب گزشتہ اتوار یعنی ١٨ اپریل کو محترم الطاف حسین صاحب نے بڑی دیدہ دلیری سے نماز کے بجائے اپنے بلائے گئے اجلاس کو ترجیح دی اور خود ہی اس کی توجہیہ بھی پیش کردی۔آج ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن ان بھائی نے اس پر کوئی بات نہیں لکھی ہے۔اس سے یہ بات بالکل صریح طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ یہ بھائی کراچی کی ایک متنازعہ تنظیم کے حلف یافتہ اور اس کے لیڈر کی شخصیت پرست ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں اور ان کے اس لادینی ایجنڈے یعنی علماء کو دین پرستوں کو بے توقیر کر کے لادین قوتوں کا ہاتھ مضبوط کیا جائے کا ساتھ دے رہے ہین لیکن تاثر یہ دیتے ہیں کہ وہ صرف حق اور سچ کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

آخر میں قارئین سے ایک بات کر کے میں اپنے بات ختم کروں گا کہ یہ اتنا طویل مضمون لکھنے کا ہمارا خدا نخواستہ یہ مقصد نہیں ہے میں اپنی لفاظی کی دھاک بٹھا دوں بلکہ جس طرح میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ بڑے بڑے اخبارات میں نامی گرامی کالم نگار ( مثلاً نذیر ناجی ،حسن نثار،رؤف کلاسرہ وغیرہ) کس طرح بد دیانتی کرتے ہوئے دین کی من مانی تفسیر و تعبیر پیش کرتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرتے ہیں تو وہ بھی اسی طرح بغیر کسی تاریخی یا علمی حوالے کے اپنی مرضی کی باتیں سامنے لاتے ہیں اور تاثر یہ دیتے ہیں وہی بالکل ٹھیک کہہ رہے تو قارئین اس ٹائپ کے تمام لوگوں سے ہوشیار رہیں اور انکی باتوں میں نہ آئیں۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1452213 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More