سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر حملوں میں تیزی

جوں جوں 11 مئی کا دن قریب آرہا ہے، خونیں انتخابات کے حوالے سے خدشات حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ کراچی میں امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر حملوں میں تیزی آگئی ہے۔ امن و امان کی مخدوش صورت حال میں ایک طرف بعض جماعتوں کی جانب سے خوف و ہراس پھیلا جارہا ہے تو دوسری جانب بعض سیاسی پارٹیوں پر حملوں کی دھمکیاں بھی انتخابی گہما گہمی کو ماند کرنے کا سبب ہیں۔
صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران کراچی میں دومرتبہ ایم کیو ایم اور ایک دفعہ اے این پی کے انتخابی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا متعدد انسانی جانوں کا ضیاع ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یوں ایک ہفتے کے دوران 3 دن سندھ سوگ میں ڈوبا رہا جس کے باعث کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں ماند پڑگئیں۔ معمولات زندگی درہم برہم اور غریبوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے رہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق حالیہ انتخابی سرگرمیوں کے دوران اب تک 37 افراد جاں بحق اور 183 زخمی ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ ایمنسٹی کی یہ رپورٹ کراچی کے علاقے مومن آباد میں اے این پی کے اجتماع پر بم دھماکے سے قبل منظر عام پر آئی تھی جس میں 11افراد جاں بحق اور 40زخمی ہوئے۔ اگر اس میں ہونے والے جانی نقصان کو شامل کیا جائے تو اب تک 48 افراد انتخابی سرگرمیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اس صورت حال کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔

انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کے بعد خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ لوگ غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں ووٹر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر پولنگ اسٹیشن تک جانے کا خطرہ مول لے گا؟ تو اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔حالات جس رخ پر جارہے ہیں، بدامنی، لاقانونیت اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے لوگوں کو خوف زدہ کردیا ہے۔ اس ملک کے عام فرد کو دو وقت کی روٹی کے لیے تگ و دو کرنے سے فرصت نہیں، اوپرسے آئے دن ٹارگٹ کلنگ، دھماکوں اور دہشت گردی نے عام آدمی کاجینا محال کردیا ہے۔

ہماری سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کو کیا معلوم کہ ایک یوم سوگ سے معیشت کو کتنے ارب کا جھٹکا لگتا ہے؟ کتنے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔ اگر صرف کراچی کا جائزہ لیا جائے تو ایک دن کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے سے صنعت و تجارت اور ملکی خزانے کو ٹیکسوں کی مد میں 10 ارب کا نقصان ہوتا ہے۔ 25 لاکھ سے زاید یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد دیہاڑی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس انسانی المیے اور پے درپے ہونے والی دہشت گردی کے باوجود حیرت تو اس پر ہے کہ سندھ کی نگراں حکومت اب تک چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔اسے صوبے میں شفاف انتخابات کرانے کا مینڈیٹ ملا ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی سیکورٹی یقینی بنائے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرے۔ دوسری جانب ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر ان پر حملے کیے جارہے ہیں تو اس کی سزا روز روز کی ہڑتالوں سے غریب شہریوں کو دینا کہاں کا انصاف ہے؟ دہشت گردوں کے نشانے پر کوئی ایک جماعت نہیں، سب ہی اس صورت حال سے دوچار ہیں، برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ کراچی کو جرائم کا دارالحکومت کہا جاسکتا ہے۔ یہاں گزشتہ تین ماہ کے دوران 728 افراد موت کی نیند سلائے جاچکے ہیں۔ اگران سب کا سوگ منایا جائے تو کراچی کو ہمیشہ کے لیے بند کرنا پڑے گا۔

طالبان نے میڈیا کے فورم پر متعدد بار اے این پی کے جلسوں اور اجتماعات پر حملوں کی دھمکی دی اور کئی بار اے این پی کے اجتماعات کو نشانہ بھی بنایا۔ جس کے بعد خیبر پختونخوا میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی۔ اس میں طویل غور و خوض اور مشاورت کے بعد یہ طے کیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم چار دیواری تک محدود رکھیں گی تاکہ دہشت گردی کے واقعات اور انسانی جانوں کے ضیاع سے بچاسکے۔ اس کے باوجود اے این پی کھلے عام سیکورٹی کا مناسب انتظام کیے بغیرعام اجتماعات کا انعقاد کررہی ہے تو یہ اپنی جماعت کے عام کارکنوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ عام انتخابات کے اعلان سے قبل طالبان کی جانب سے امن مذاکرات کی دعوت دی گئی جسے ہماری حکمران قیادت اور بڑی سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔اگر اس وقت طالبان کی پیش کش کا مثبت جواب دیا جاتا، ان سے مذاکرات کے ذریعے معاہدہ کیا جاتا۔ انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی تو آج ہم اس سنگین صورت حال سے دو چار نہ ہوتے۔یا جب تک طالبان سے معاہدہ نہیں ہوجاتا تب تک ہمیں الیکشن کی طرف نہیں جانا چاہیے تھا۔ ورنہ آج متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کو یہ گلہ نہ کرنا پڑتا کہ ہمیں انتخابی مہم سے روکا جارہا ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق دہشت گردی کے ان حملوں کے ذریعے انتخابات کو ملتوی کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور جس طرح کا ماحول بنایا جارہا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ بعض نادیدہ قوتیں الیکشن ملتوی کرانے کے لیے سرگرم ہیں،وہ نہیں چاہتیں کہ دائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں آکر ان کی مرضی کے خلاف فیصلے کریں۔یہ سچ ہے کہ انتخابات قریب آتے ہی سازشوں کا بازار گرم ہوگیا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں انتخابی عمل کے پر امن رہنے کے بارے میں جو تشویش تھی اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں پر حملوں کے خلاف تشویش کے اظہار تک محدود ہے۔ ان حالات میں قیادت کا فقدان واضح نظر آرہا ہے۔ہماری سیاسی قیادت کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرکے اس کے سدِباب کے لیے اقدامات کرنے چاہیے تھے، اُنہیں ان حملوں کے خلاف اتحاد کا ثبوت دینا چاہیے تھا۔یہ بات طے ہے کہ اگر اب بھی آہنی ہاتھ سے دہشت گردی کی ان سرگرمیوں کو نہ روکا گیا تو پھر آگ اور خون کا یہ کھیل کراچی، کوئٹہ یا خیبر پختونخوا تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس لیے نگران حکومت، الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں، انہیں اب صورت حال کی سنگینی کا احساس کرنا ہوگا اور انتخابات کو پُر امن ماحول میں صاف اور شفاف طریقے سے منعقد کرانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا ہوگا ورنہ اگر انتخابات ملتوی کرانے کی سازشیں کرنے والے اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگئے تو پھر آیندہ منظر نامہ بڑا بھیانک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک اور قوم کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔
Usman Hasan Zai
About the Author: Usman Hasan Zai Read More Articles by Usman Hasan Zai: 111 Articles with 77789 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.