فرقہ واریت۔۔۔ ایک آسان حل

ہمارے ملک میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم فرقہ واریت ایک سنگین اور لا علاج مرض بناہواہے،ہزاروں معصوم لوگ اس کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں ،علماء ،عوام ،حکمراں ،دانش ور سب ہی اس عفریت کا نشانہ بنے ہیں اور سب ہی اس کے حل کے تلاش میں ہیں ،محرم الحرم ہو یا ربیع الاول پورے ملک میں ایمر جنسی یا مار شل لاکی سی کیفیت شروع ہوجاتی ہے ۔تعلیم ،اقتصاد ،تجارت ،معیشت ،معاشرت اور اس قسم کے دیگر تمام شعبے اس سے بری طرح متأثر ہو جاتے ہیں ،حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام تر حفاظتی انتظامات کے با وصف خون کی ہولی کا کھیل پھر بھی کھیلاجاتاہے ،سیکورٹی ادارے خودکش کی لاش کی شناخت اور اہل سیاست مذمتی بیانات جاری کردیتے ہیں،غم رسیدہ اور رنجیدہ عوام جنازوں پر جنازے اور لاشوں پر لاشے اٹھا اٹھا کر تھک گئے ،درد مند اورملک وملت کیلئے فکر کر نے والے کف افسوس ملتے اور بار گاہ الہی میں گر یہ وزاری کرتے رہتے ہیں ،لیکن بیماری کی صحیح تشخیص اور پھر اس کا کافی شافی علاج نہ ہونے کی وجہ سے مسئلہ فقط جوں کا توں نہیں بلکہ رو بترقی ہے۔

یہودیت میں بھی مختلف فرقے ہیں ،عیسائیت کے کیتھولک،آرتھو ڈوک،اور پروٹسٹانٹ مستقل مذاھب کی صورت اختیار کر گئے ہیں ،تاؤمت ،بدھ مت، ہندومت،سکھ مت ،جین مت، شنٹومت، اوزرتشت ومجوسیت تمام میں باہمی اختلافات اور نقطہ ہائے نظر کا تفاوت پایا جاتاہے، پر اس قدر خون ریزی کہ خودکش حملے تک کئے جائیں،عبادت گاہوں ،مذہبی شخصیات اور شعائر ومناسک بجالانے والوں کو نشانہ بنایا جائے شاید وباید۔

عالم گیریت کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے متنوع بہتات کے باعث دنیا میں اسلام تیزی سے پھیل رہاہے،سین اسٹون، انڈر ٹیکر،مائکل جیکسن،ڈیانا، محمد علی کلے ،روجیہ جارودی اور ایوان ریڈلی جیسی نامور شخصیات حقانیت اسلام سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، لیکن مسلمان بدنام ہورہاہے،دنیاکے کونے کونے میں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوناچاہتے ہیں ،مغرب میں ہمارے کیٔ دوست اور شاگرد ہم سے رابطہ کر تے ہیں کہ جی یہاں کچھ حضرات اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں ، لیکن وہ کونسا اسلام اختیار کریں اس میں انھیں تذبذب ہے،ہم کہدیتے ہیں ، سمپل اسلام قبول کریں ،ماقبل الفِرَق الاسلامیہ قرون اولی والا اسلام قبول کریں ،کلیات لے لیں ،جزئیات پر نہ جائیں ،پھنس جائینگے ،قرآن وسنت اپنے محکم مدلولات میں واضح ہیں ،جہاں متشابہات ہیں ان کی ٹھوہ میں نہ پڑیں ۔

مجھے بر اعظم آسٹریلیا کے فیجی آئی لینڈمیں ایک انڈین نے کہا ، میں مسلمان ہونا چاہتاہوں ،لیکن مسلمانوں کی حالت زار اور فرقہ بندی کو دیکھتا ہوں تو پریشان اور متردد ہوجاتاہوں ،میں نے کہا یکدم شیخ الاسلام بننے کی کوشش نہ کریں ،کلمہ پڑھیں اور دیگر ایمانیات واعمال کو دھیرے دھیرے اور اسٹراٹی جیکل انداز میں اپنانے کی کوشش کریں ،انہوں نے ڈاکو مینٹیشین کے اس دور میں نام بدلنے اور ختنے کی بات کی ،میں نے کہا یہ ضروری نہیں ہے ،شروع میں آپ کیلئے صرف کلمہ پڑھنا کا فی ہے ،اسی کا ورد کریں ، سکون واطمینان نصیب ہوگا ،اور اگر بالفرض والتقدیر آپ کچھ اور نہ کر سکیں تو کلمہ آپ کی نجات فی الآخرت کیلئے کافی ہے،جنت میں داخلہ مل جائے گا،اور اگر کسی کوجنت میں بھی اعلی سوسائٹی اور لگژری اپارٹمنٹ کی خواہش ہے تو اس کیلئے اس دنیا میں جو تگ ودو ہو تی ہے اسی طرح کی وہاں کیلئے بھی کر نی ہوگی ،چنانچہ وہ مسلمان ہو گئے ،الحمد ﷲ علی ذلک۔

ایران کے روحانی پیشوا جناب خامنہ ئی صاحب کے ساتھ ہماری ایک نشست تھی ،آخر میں کسی نے کہا سر کار، ہمیں کچھ نصیحت فر مائیں ،انہوں نے کہا نصیحت نہیں گذارش کر سکتاہوں ،وہ یہ کہ امت میں خلا دیکھا کریں ، جہاں جہاں خلا نظر آئے اسے پر کیا کریں ۔یہ نہایت مختصر مگر انتہائی جامع بات ہے ،ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پر کی ہوئی جگہوں کو پر کرتے ہیں ۔

اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کو نسل میں تمام فرقوں کے رھنماشریک ہوتے ہیں ،ایک ہی ساتھ کھانا بھی کھاتے ہیں، باجماعت نماز بھی پڑھتے ہیں ،پھر مسئلہ کیا ہے کہ سڑکوں پر خون کی نہریں جاری ہیں ۔

بات ایک علمی نوعیت کی ہے،جس کا تعلق خالصۃً درسگاہوں سے ہے،قرآن وسنت کی روشنی میں اجتھاد کرکے استنباط کرنے کی بات ہے ،اب یہ دلیل ومنطق کا معاملہ تھا، جسے عوام میں لایاگیاتوڈنڈوں،تلواروں ،گولیوں اور بم دھما کوں تک آگیا۔

باری تعالی سے زیادہ طاقتور کون ہے، وہ اگر چاہتا ،اہل باطل کو پیدا ہی نہ کرتا، یا پھر بعد از پیدائش نیست ونابود کردیتا ،مگر انہوں نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش انبیاء علیھم السلام ،ایک سو چودہ صحیفوں اور چار باقاعدہ کتابوں کا انتظام کیا ،تاکہ طاقت کے بجائے دلیل اور زبردستی کے بجائے تفہیم کو بروئے کارلایاجائے،کیونکہ انہیں اپنے بندوں سے محبت ہے،وہ انہیں نافرماں نہیں فرماں بردار دیکھنا چاہتے ہیں،اور جہاں اﷲ سے خوف کھانے کا حکم ہے ،وہ خوف ِدہشت یاوحشت نہیں ،بلکہ خوف احترام اور بلندئی مقام کالحاظ ہے،کیا کیجئے گا ان پنھاں رازوں کو سمجھنے سے فرقہ واریت کے علم بردارقاصر ہیں ۔ تخریبِ محبت آساں ہے تعمیرمحبت مشکل ہے ۔۔تم آگ لگانا سیکھ گئے تم آگ بجھاناکیا جانو

اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئر مین مولانا محمد خان شیرانی نے گزشتہ سے پیوستہ سال اس پیچیدہ مسئلے پر کونسل کے آڈیٹوریم میں ملک بھر کے چیدہ چیدہ علمائے کرام کا ایک روزہ اجتماع منعقدکیا، ایک نشست کی صدارت میں اپنے ساتھ احقر کو بھی شریک کیا ،آخر میں جس بات پر اتفاق ہوا،وہ یہ کہ تمام مکاتب فکر اپنے اپنے بزرگوں کے فرمودات کے نشر واشاعت اس انداز میں کریں کہ اسمیں دوسروں کی تنقیص نہ ہو اور اپنے نظریات کو ــــلااکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دین کے تناظر میں دوسروں پر نہ تھو پیں ،کسی کو اس پر مجبور نہ کریں کہ جوہماری رائے ہے اسے قبول کرو ،ورنہ موت کیلئے تیار ہو جاؤ،علمی وتحقیقی اصطلاح میں اسے تحمیل کہتے ہیں ۔

فرعون اسی خبط وپاگل پنے میں الجھ کر رہ گیاتھا،وہ کہتاتھا ،ماأریکم الا مااری میں اسی رائے اور فکر ونظر کاتمہیں حکم کرتا ہوں جو میرے دل ودماغ میں ہے گویا اپنی رائے ،نظریہ ،عقیدہ اور فکر وفلسفہ زبردستی غیروں پر تھوپنا یا تحمیل کر نا ایک فرعونی منشور ہے ،جو ان کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنا۔

صحابۂ کرام کو اگر کوئی معیارِحق تصورکرتاہے تو اہل بیتِ اطہار کاکون انکاری ہے،حضرت ابو طالب کو اگر کوئی تصدیق بالقلب کی بناپر مسلمان سمجھتا ہے، تو ان کے مقام ومرتبے کا انکار مخالف کو بھی نہیں ہے،پیغمبرکو اگر کوئی نور کہتاہے ،تو بشریت کا انکار وہ بھی نہیں کر سکتے ،تقلید شخصی کا اگر کوئی منکر ہے،توصدیق حسن خان،ابن قیم،ابن تیمیہ اور امام بخاری کی تقلید عمومی کے وہ بھی خلاف نہیں ہیں ۔اگر ٹھنڈے دل سے سو چا جائے تو پتہ چلتاہے یہ سب نزاع لفظی ہے پھر جھگڑا کس بات کا ؟

اجتھاد میں اپنی رائے کو اقرب الی الحق اور مخالف رائے کو اقرب الی الخطا کا محتمل سمجھا جاتاہے ،گویا ترجیحات کی بات ہے، جسے ظاہر بین کفر واسلام کا مسئلہ بنادیتے ہیں۔

کیا گلو بلا ئزیشن کا یہ پرفتن زمانہ ، ترقی کا یہ برق رفتار دور ،اسلام ومسلمانوں پر اغیار کی ہر طرف سے یلغار اور فلسطین ،شام ، کو سو فو ،فلپائن، برما، کشمیر چیچنیا، افغا نستان و صو مالیہ میں بارود کی با رش امہ کو اس نزاع لفظی پر اس قدر ارتکاز کی اجازت دیتے ہیں ؟

آپ کہینگے حل کیا ہے؟ حل تو بہت آسان ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ حل تر یاق ہے ۔اپنے عقائد ونظریات پر دوسروں کو مجبور نہ کریں ، دوسروں کے نظریات اور اکابر کو ھدف تنقید نہ بنائیں اس سے بر داشت ،تحمل ، بردباری اور صبر کا ماحول پیدا ہو گا ۔

یہی اصول بین الاقوامی طور پر مکالمہ بین المذاھب کا ہے، اسی کو مکالمہ بین الفِرَق الاسلامیہ کا قانون بھی تسلیم کریں ،اسی سے باہمی بعد کے بجائے قربت ،نفرت کے بجائے الفت ہوگی ۔
خلاصۂ کلام دو لفظ ہیں: تحمیل و تنقیص سے گریز۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 822320 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More