تعظیم رسول اور صحابہ کرام علیہم الرضوان(جانِ دو عالم)

جس بڑے سے محبت ہوتی ہے اس کی عظمت دل و دماغ پرچھا جاتی ہے، پھر یہ چاہنے والا اپنے محبوب کی تعظیم اور اس کی عظمت کا کلمہ پڑھنے لگتا ہے، اسلام نے تو ہر بڑے کی تعظیم کا درس دیا ہے۔
مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَ نَا فَلَیْسَ مِنَّا
(سنن الترمذی، کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان، الحدیث۱۹۲۶، ج۳،ص۳۶۹)

جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑے کی تعظیم نہ کرے تو وہ ہم میں سے نہیں۔

اور نبی آخر الزماں محمد رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تو سارے بڑوں میں سب سے بڑے ہیں اور اتنے بڑے ہیں کہ آج تک اتنا بڑا پیدا نہ ہوا، اور نہ ہی پیدا ہوگا، اس لئے آپ کی تعظیم بھی سب سے بڑھ کر ہونی چاہئے۔قرآن ناطق ہے۔
اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاo لِّتُؤْ مِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاًo
(پ۲۶،الفتح :۸،۹)

oترجمہ کنزالایمان:بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر وناظراورخوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح وشام اﷲ کی پاکی بولو۔

1 آپ غور کریں اس آیت میں پہلے ایمان باﷲ اور ایمان بالرسول کا مطالبہ کیا گیا ہے، اور اس کے معاًبعد رسول معظم و مکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا گیا ہے اور پھر اﷲ عزوجل نے اپنی تسبیح کا حکم ارشادفرمایا ہے۔رب تعالیٰ نے اپنی تسبیح پر اپنے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم و توقیر کو مقدم کرکے تعظیم حبیب کی اہمیت و عظمت میں کس قدر اضافہ کردیا ہے۔ گویا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شاہد مبشر اور نذیر بناکر اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ لوگ اﷲ اور اس کے رسول عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ایمان لائیں، اور رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم کریں اور پھر رب عزوجل کی تسبیح کریں۔
ایک مقام پر قرآن حکیم نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم کرنے والوں کی کامرانی کا اس طرح اعلان کررہا ہے:
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ ٓاُنْزِلَ مَعَہٗ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
(پ۹،الاعراف: ۱۵۷)

ترجمہ کنزالایمان: تووہ جواس پر ایمان لائیں اوراس کی تعظیم کریں اوراسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جواس کے ساتھ اُتراوہی بامراد ہوئے ۔ـ

اس آیت کریمہ میں بھی رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم و نصرت کرنے والوں کو کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔

یہ ارشادات ربانی صحابہ کرام علیھم الرضوان کے پیش نظر تھے، اس لئے انہوں نے اپنے سرکارصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایسی تعظیم کی کہ دنیا کے کسی شہنشاہ کی بھی اس طرح تعظیم نہ کی جاسکی۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان کی تعظیم و توقیر کا حال دیکھ کر صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کے نمائندہ عروہ بن مسعود نے جو ابھی ایمان نہ لائے تھے،یہ تأثر پیش کیا تھا،گویا یہ اپنے کا نہیں غیر کا تاثر ہے۔ آپ نے کہا:
’’ اے لوگو! خدا کی قسم میں بادشاہوں کے درباروں میں بھی پہنچا ہوں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کی ڈیوڑھیوں پر بھی حاضری دے چکا ہوں۔ خدا کی قسم کسی بادشاہ کی اتنی تعظیم ہوتے نہیں دیکھی، جتنی تعظیم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی انکے اصحاب علیھم الرضوان کرتے ہیں۔ جب کبھی بھی ان کے دہن اقدس سے لعاب مبارک نکلا وہ کسی نہ کسی شیدائی کے ہاتھ میں پڑا جسے اس نے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیا، اور جب وہ اپنے اصحاب کو کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل میں دوڑ پڑتے ہیں، اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کے پانی کے لئے ایک دوسرے پر پیش قدمی کرتے ہیں ، اور جب وہ گفتگو فرماتے ہیں تو وہ لوگ خاموش اور پرسکون رہتے ہیں اور تعظیم و توقیر میں ان کی طرف نظر بھر کر دیکھتے تک نہیں‘‘۔
(السیرۃ النبویۃلابن ھشام،ج۳،ص۲۶۸)

یہ تھا صحابہ کرام علیھم الرضوان کا انداز تعظیم و توقیر کا اجمالی خاکہ جسے رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ایک بیگانے نے پیش کیا تھا، خود صحابہ کرام علیھم الرضوان نے واقعات کی دنیا میں تعظیم و توقیر رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکی کیسی کیسی مثالیں پیش کی ہیں انہیں تو آپ تفصیلی کالمزمیں ملاحظہ کریں گے یہاں پر بس بعض مثالوں پر اکتفا کیا جائیگا۔

﴿۱﴾غزوہ خیبر کی واپسی میں مقام صہبا پر نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نما ز عصر پڑھ کر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمایا، حضرت علی نے نماز عصر نہ پڑھی تھی اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے، مگر اس خیال سے کہ زانو سرکا تا ہوں تو مبادا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خواب مبارک میں خلل آجائے ، زانو نہ ہٹایا، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا جب چشم مبارک کھلی تو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے اپنی نماز کا حال عرض کیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی آفتاب پلٹ آیا حضرت علی کرم اﷲ وجہہنے نماز عصر ادا کی پھر سورج ڈوب گیا۔
(الشفاء،ج۱،ص۵۹۴،شواہدالنبوۃ، رکن سادس،ص۲۲۰)

تعظیمِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خاطر افضل العبادات نماز اور وہ بھی صلوۃ وسطی (نماز عصر) مولیٰ علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم نے قربان کردی چشم فلک نے ایسا منظر کبھی نہ دیکھا ہوگا رب تعالیٰ کے ایک بندہ کی درخواست پر اس کے ایک فدائی کے لئے سورج کو پلٹایا گیا ہو، اور ایک فدائی نے محض تعظیم و توقیر رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پیش نظر اتنی عظیم قربانی دی ہو۔اسی کو امام اہلسنت قدس سرہ اس طرح بیان فرماتے ہیں:
مولیٰ علی نے واری تری نیند پر نماز
Oاور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے

﴿۲﴾ہجرت کے موقع پر یار غار حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے جو جاں نثاری کی مثال قائم کی ہے وہ بھی اپنی جگہ بے مثال ہے کہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم اور صدیق اکبررضی اﷲ عنہ دونوں غار کے قریب پہنچے تو پہلے صدیق اکبررضی اﷲ تعالیٰ عنہ اترے صفائی کی ، غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا، ایک سوراخ کو بند کرنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو آپ نے اپنے پاؤں کا انگوٹھا ڈال کر اسکو بند کیا، پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بلایا اور حضور تشریف لے گئے اور حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہکے زانو پر سر رکھ کر آرام فرمانے لگے، اتنے میں سانپ نے صدیق اکبررضی اﷲ عنہ کے پاؤں کو کاٹ لیا، مگر صدیق اکبر، شدتِ الم کے باوجود محض اس خیال سے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آرام میں خلل نہ واقع ہو، بدستور ساکن وصامت رہے، آخر جب پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، جب آنسو کے قطرے چہرہ اقدس پر گرے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم بیدار ہوئے ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہنے واقعہ عرض کیا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ڈسے ہوئے حصے پر اپنا لعاب دہن لگادیا فوراً آرام مل گیا۔ایک روایت میں ہے کہ سانپ کا یہ زہر ہر سال عود کرتا بارہ سال تک حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اس میں مبتلا رہے پھر آخر اس زہر کے اثر سے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی۔ (مدارج النبوت،ج۲،ص۵۸)

﴿۳﴾ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ذوالقعدہ ۶؁ھ میں صحابہ کے ساتھ عمرہ کے ارادے سے مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوئے۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم حدیبیہ پہنچے تو قریش پر خوف و ہراس طاری ہوا اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو مکہ بھیجا اور ان کو یہ ہدایات دیں کہ تم قریش کویہ بتانا کہ ہم جنگ کے لئے نہیں عمرہ کی ادائیگی کیلئے آئے ہیں اور ان کو اسلام کی دعوت بھی دینا اور وہ مسلمان مردوعورت جو مکہ میں ہیں انکو فتح کی خوشخبری سنانا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ مکہ کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ان سے حضرت ابان بن سعد اموی ملے جو ابھی ایمان نہ لائے تھے انھوں نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو اپنی پناہ و ضمانت دی اور اپنے گھوڑے پر سوار کرکے ان کو مکہ مکرمہ لائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے لوگوں تک رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پیغام پہنچایا ۔ ادھر حدیبیہ میں صحابہ علیہم الرضوان کہنے لگے کہ عثمان خوش نصیب ہیں کہ ان کو طواف بیت اﷲ نصیب ہوچکا ہوگا۔ یہ سن کر رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ عثمان رضی اﷲ عنہ میرے بغیر طواف نہ کریں گے۔ اس دوران یہ افواہ اڑ گئی کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ مکہ میں قتل کر دیئے گئے اسلئے رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بیعت لی، جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ چونکہ اس وقت مکہ میں تھے اس لئے حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پررکھ کر ان کو بیعت کے شرف میں داخل کیا۔ اس طرح رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کاہاتھ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ قرارپایا۔

بیعت رضوان کے بعد جب حضرت عثمان غنیرضی اﷲ عنہ واپس تشریف لائے تو مسلمانوں نے ا ن سے کہا آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نے طواف بیت اﷲ کرلیا۔ آپ نے جواب دیا تم نے یہ میرے بارے میں درست اندازہ نہ لگایا، اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر میں مکہ میں ایک سال تک بھی پڑا رہتا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم حدیبیہ میں ہوتے تب بھی میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بغیر طواف نہ کرتا۔قریش نے مجھ سے طواف کرنے کیلئے کہا تھا مگر میں نے انکار کردیا۔
(مدارج النبوت،ذکر سال ششم آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم،فرضیت حج،ج۲، ص۲۰۹)

حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے اندر رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم و ادب کا یہ پاس قابل ملاحظہ ہے کہ کفار آپ سے پیشکش کررہے ہیں کہ طواف تنہاکر لو مگر آپ جواب دیتے ہیں مجھ سے ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ میں اپنے آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکے بغیر طواف کرلوں۔ ادھر مسلمانوں کا یہ تاثر کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خوش نصیب ہیں کہ ان کو طواف کعبہ نصیب ہوگیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سن کر فرمایا عثمان ہمارے بغیر ایسا نہیں کرسکتے۔ گویا حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بھی اپنے فدائی پرپورا اعتماد تھا۔ آقا ہو تو ایسا اور غلام ہو تو ایسا۔

رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اس قسم کی تعظیم اور اس طرح کا ادب صحابہ کرام علیھم الرضوان کااپنا کوئی ایجاد کردہ یا اختراعی نہ تھا بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم اور مجلس کے آداب خود بیان فرمائے ہیں۔ دنیا کا شہنشاہ آتا ہے تو اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب جاتا ہے تو اپنے نظام آداب کو بھی لے جاتا ہے ۔مگر شہنشاہ اسلام حضو راقدسصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکے دربار کا عالم ہی نرالا ہے، جب آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لاتے ہیں تو خالق کائنات عزوجل آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکے دربار کا ادب نازل فرماتا ہے اور کسی خاص وقت تک کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ادب کے قوانین مقرر فرماتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ واتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
(پ۲۶،الحجرات:۱)

ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو اﷲ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو، اور اﷲ سے ڈرو، بے شک اﷲ سنتا جانتا ہے۔

بعض صحابہ کرام علیھم الرضوان نے بقرہ عید سے پہلے ہی قربانی کرلی تھی، یا کچھ حضرات صحابہ کرام علیھم الرضوان نے رمضان المبارک کے روزے ایک دن پہلے ہی سے شروع کردیئے ان کو ہدایت کی گئی کہ ایسا نہ کریں، رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمسے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں، ایسا کرنا خطرناک ہے ۔آیت پر غور کرنے سے ایک بات یہ بھی نکلتی ہے کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے ادبی اﷲ عزوجل کی بے ادبی ہے، جن لوگوں نے پیش قدمی کی تھی انہوں نے رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پر کی تھی، لیکن حکم اترا تو یہ کہ تم اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پر پیش قدمی نہ کرو۔دوسرے یہ کہ کسی قول، کسی فعل میں پیش قدمی منع ہے کیونکہ آیت میں یہ حکم بلا قید ہے ۔اسی طرح جب رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کسی جگہ کے لئے تشریف لے جائیں تو بغیر کسی خاص مصلحت کے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے آگے چلنا بھی منع ہے۔اگر کوئی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مجلس میں سوال کرے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پہلے کسی اور کو اس کا جواب بھی نہ دینا چاہئے، اسی طرح جب کھانا حاضر ہوتو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پہلے کھانا شروع نہ کیا جائے۔ پھر یہ بھی دیکھئے کہ جن صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیھمنے پیش قدمی کی تھی اﷲ عزوجل کی عبادت میں کی تھی روزہ رکھنے یا قربانی کرنے میں کی تھی ، ایسا کرنا بظاہر کوئی جرم نہیں معلوم ہوتا، مگر آسمان سے تنبیہ اتر رہی ہے کہ اے ایمان والو! جلیل القدر عبادتوں میں بھی تم میرے نبی سے آگے نہ بڑھنا، اور اس معاملے میں اﷲ عزوجل سے ڈرتے رہنا یقینا اﷲ عزوجل تمہاری ہر نقل و حرکت اور نشست و برخاست کو سنتا جانتا ہے۔اسی سورہ میں آگے اﷲ عزوجل اس طرح اپنے نبی کی تعظیم کی تعلیم دے رہا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَا لُکُمْ وَاَنْتُمْ لَاتَشْعُرُوْنَ o (پ۲۶،الحجرات:۲)

Åترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو ! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔
اس آیت کریمہ میں بھی اﷲ عزوجل نے اہل ایمان کو اپنے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا ایک عظیم ادب سکھایا ہے کہ تم میرے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے بولنے میں بھی با ادب رہو، ان کے حضور ہلکی آواز میں باتیں کرو، اگر تم نے زور زور سے چیخ کر ان کے حضور بات کی تو تمہارے عمل رائیگاں کردیئے جائیں گے۔ غور کریں بڑے سے بڑے جرم کا ارتکاب عنداﷲ معاف ہوسکتا ہے مگر رب تعالیٰ اپنے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے ادبی اور گستاخی معاف نہ فرمائے گا ۔
ادب گاہے ست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کر دہ می آید جنید وبا یزید ایں جا

“ حضرت ثابت بن قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بلند آواز تھے اس آیت کے بعد انہیں حکم ہوا کہ اس بارگاہ میں اپنی آواز پست کریں وہ انتہائی ادب اور خوف کی وجہ سے خانہ نشین ہوگئے، بارگاہ نبوی میں جب حاضر نہ ہوئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ان کی غیر حاضری کا سبب حضرت سعد رضی اﷲ عنہ سے دریافت کیا، یہ حضرت ثابت رضی اﷲ عنہ کے پڑوسی تھے انہوں نے جاکر حضرت ثابت رضی اﷲ عنہ سے پوچھا تو کہامیں تو دو زخی ہوگیا میری ہی آواز رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے سب سے زیادہ بلند ہوتی تھی۔حضرت سعد نے رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول نقل کردیا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :نہیں، ان سے کہہ دو وہ جنتی ہیں۔

اﷲ عزوجل ان لوگوں کو سراہ رہا ہے جو رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَا تَھُمْ عِنْدَرَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰیط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌعَظِیْمٌ o
(پ۲۶،الحجرات:۳)

;ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اﷲ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اﷲ نے پرہیز گاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔

آیت کریمہ ’’ لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ‘‘ کے نازل ہونے کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام علیہم الرضوان اس قدر دھیمی آواز سے باتیں کرتے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دوبارہ دریافت کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ حضرت صدیقِ اکبر رضی اﷲ عنہ نے تو قسم کھالی تھی کہ میں رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اس طرح باتیں کروں گا، جیسے سر گوشی کی جاتی ہے۔ ان حضرات کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور ان کو سراہا گیا جو با ادب ہیں اور رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں آوازیں پست رکھتے ہیں۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جناب پاک میں کس قدر باادب رہتے تھے۔ حضرت مولیٰ علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں:جس وقت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو شروع فرماتے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اصحاب اس طرح سرجھکا لیتے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں۔

رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یا محمد یا محمدکہہ کر پکارنے والوں کی رب تعالیٰ مذمت کرتے ہوئے فرماتاہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَا دُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُھُمْ لَایَعْقِلُوْنَo وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o
( پ۲۶،الحجرات:۵)

‘ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔

قبیلہ بنی تمیم کا ایک وفدعین دوپہر کے وقت رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ملنے پہنچا ،آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم مکان شریف کے اند ر آرام فرمارہے تھے، انھوں نے حجروں کے باہر سے یامحمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) یا محمد(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) کہہ کہ پکارنا شروع کردیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم باہرتشریف لائے۔ مگر خدائے تعالیٰ نے اپنے محبوب کی ایسی بے ادبی گوارا نہ فرمائی اور ایسا سخت حکم نازل فرمایا کہ ایسا کرنے والے بے عقل ہیں اور پھر ادب کی تعلیم دی کہ جب لوگ دردولت پر پہنچیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کوآواز نہ دیں ، اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے باہر تشریف لانے کا انتظار کریں۔ رب تعالیٰ ایک مقام پر اپنے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ادب اس طرح ارشاد فرمارہا ہے:
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا(پ۱۸،النور:۶۳)

½ترجمہ کنزالایمان:رسول کے پکارنے کوآپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کوپکارتا ہے۔

اس آیت کریمہ کے دوپہلو ہیں ایک تویہ کہ جب رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تم کو بلائیں تو ان کے بلانے کو کوئی معمولی بلانا نہ سمجھ بیٹھنا بلکہ میرے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بلانے کی شان تو یہ ہے کہ اگر وہ کسی کو عین نماز میں بھی آوازدیں فوراََ نمازہی کی حالت میں حاضر ہونا فرض ہے جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت سعید بن معلی رضی اﷲ عنہ نے کہا میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے آواز دی میں چونکہ نماز پڑھ رہا تھا اس لئے جواب نہ دیا پھرنماز سے فارغ ہو کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا یارسول عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم میں نماز پڑھ رہا تھا(اس لئے حاضر نہ ہوسکا) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کیا اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم نہیں سنا ہے !
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْج ( پ۹،الانفال:۲۴)

ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو اﷲ اوررسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اُس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی۔

اس قسم کا واقعہ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بھی مروی ہے۔ یہ ہے رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بلانے کی عظمت کہ نماز جیسا عظیم فریضہ بھی ترک کرکے تعمیل حکم کو پہنچنا فرض قراردیاگیا۔

آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ تم رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس طرح نہ پکارنا جس طرح باہم ایک دوسرے کو نام لیکر پکارتے ہو۔ ان کو یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ، یَا نَبِیَّ اللّٰہ، یَا خَیْرَخَلْقِ اللّٰہ وغیرہ صفاتی ناموں سے پکار سکتے ہو۔ اﷲ عزو جل اہل ایمان کو ایسا حکم کیوں نہ دیتاکہ اس نے خود اپنے پورے کلام عظیم میں کہیں بھی یا محمدکہہ کر نہیں پکارا ہے جب کہ دوسرے انبیائے کرام علیٰ نبیناوعلیھم الصلوۃوالسلام کو ان کے ذاتی ناموں سے خطاب فرمایاہے۔

صحابہ کرام علیھم الرضوان کے پیش نظر رب العالمین عزوجل کے مذکورہ بالاارشادات وفرامین تھے۔ انہوں نے ان احکام کو خوب سمجھ لیاتھا اور ادھر رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شخصیت کو اپنے سر کی آنکھوں سے اور بہت قریب سے دیکھا تھا، اس لئے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عظمت و جلالت فطری طور پر ان کے قلوب و اذہا ن میں رچ بس گئی تھی اس لئے انھوں نے عقیدت و محبت اور احترام و ادب کے ایسے ایسے نمونے پیش کئے جن کی مثال ملنی مشکل ہے۔ آپ آئندہ کالمز میں اس قسم کے واقعات پڑھیں گے جن سے رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکی بارگاہ میں صحابہ کرام علیھم الرضوان کا غایت درجہ احترام و ادب واضح ہوگا اور پھر آپ کے قلوب بھی محبت رسولصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہیں گے اور یہی اس کتاب کا مقصد اصلی ہے۔
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
جاری ہے۔۔۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 351161 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.