عالم اسلام بے بس نہیں

مسلمانوں ہی کے نہیں غیر مسلموں کے دل میں بھی اکثر سوال پیدا ہوتا دنیا کی (1/5) آبادی پر مشتمل (55) اسلامی ممالک جو قدرتی دولت، اہم وسائل اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ اہم علاقوں پر پھیلے ہوئے ہیں اس قدر کمزور کیوں ہیں؟ حالانکہ ان کے کمزور ہونے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ عالم اسلام کمزو ر نہ ہوتے ہوئے بھی بے حد کمزور نظر آتا ہے۔ ایک زبردست سیاسی قوت بننے کے لئے درکار تمام وسائل پر دسترس رکھنے باوجود آج دنیا میں مسلمانوں کی کوئی سیاستی حیثیت نہیں ہے ۔ دنیا بھر میں مسلمان کا خون گزشتہ 32یا 33برس (ایران و عراق کی جنگ کے وقت سے) سے سب سے زیادہ بہہ رہا ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسری سب سے مقدس عبادت گاہ پر نہ صرف اسرائیل کا کنٹرول ہے بلکہ اسرائیل کی ریشہ دوانیوں سے بیت المقدس کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہے۔ حرم شریف کی بے حرمتی، مسلمانوں کو مسجد جانے سے روکنے کے علاوہ باعث فکر و تردد یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے گرد یہودی اندر ہی اندر (زیرزمین) جو کھدائی کررہے ہیں اس سے مسجد کی عمارت کی بنیاد کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ خدشہ ہے کہ اﷲ نہ کرے بنیادوں کی کمزوری سے حرم کی عمارت کا وجود ہی خطرے میں نہ پڑ جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطینیوں پر غیر انسانی اور وحشیانہ مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ ہو یا مظلوم فلسطینی ہوں ان کو عالم عرب اور عالم اسلام نے اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ مسجد اقصیٰ اور فلسطین ہی کیا مسلم دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو مسلمان اپنی مرضی سے یا انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کرنا تو دور کی بات ہے حل کرواسکیں۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد فلسطین کا بڑا حصہ اسرائیل کے حوالے کردیا گیا۔ اس وقت تو عالم اسلام خاصہ کمزور تھا لیکن 1967ء میں فوجی طاقت کے بل پر بچاکچھا فلسطین بھی اسرائیل نے لے لیا ۔ انڈونیشیاء کا جزیرہ تیمور عیسائی ملک بنادیا ۔ یوروپ میں بوسنیا ہرزی گوینا اور کوسوو کو مکمل اسلامی مملکتیں نہیں بننے دیا گیا۔ افریقہ میں سوڈان ، صومالیہ، اغادین، ایتھویپا ، اریٹریا اور نائجیریا) میں یوروپ میں جزیرہ قبرص، کروشیا ، سریبا اور چیچنیا ، ایشیاء ارکان (مانمار، فلپائن ، چین کے صوبہ سنکیانگ اور ہندوستان (مسلم کش فسادات اور دہشت گردی کے بہانے مسلمانوں پر مختلف النوع مظالم گزشتہ صدی کے اواخر میں ہوئے عراق کو کویت پر جارحیت کی سزا کے طور پر لاکھوں معصوم عراقی بچوں کو اقوام متحدہ کی ظالمانہ پابندیوں کے سبب زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بے شمار بین الاقوامی اداروں، اقوام متحدہ کے اداروں، اسلامی ملکوں کی عالمی تنظیم، عرب لیگ کی موجودگی میں ایران عراق جنگ اور موجودہ بنگلہ دیش کی آزادی یا بغاوت میں لاکھوں مسلمان مارے گئے اس صدی کے آغاز میں 9/11 کی دہشت گردی کے بہانے افغانستان، عراق، کو بری حدتک پاکستان کو خاص حدتک تباہ کیا گیا۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں نے کہا افغانستان، عراق دہشت گرد ہیں۔ القاعدہ بہت بڑی دہشت گرد تنظیم ہے، اسامہ بن لادن کو تمام بین الاقوامی، سیاسی، سماجی اور مذہبی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہید کردیا گیا۔ سوڈان کو تقسیم کردیا گیا۔ مراکش کے مغربی حصے، نائجیریا اور عراق کو تقسیم کرنے اور مصر، ٹیونس، لیبیاء کی اسلامی حکومتوں کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔ عرب ممالک میں مسلکی تعصب پیدا کیا جارہا ہے۔ فلسطینیوں پر مظالم جاری ہیں۔ مسجد اقصیٰ شدید خطرے میں ہے۔ نیو کلیئر ہتھیار بنانے کے الزام میں ایران پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں فوجی کارروائیوں کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ مانمار اور سری لنکا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ۔ ہندوستان میں مسلم دشمن فرقہ پرست سرکاری ادارے اور عہدیداروں نے میڈیا کی سازش کی مدد سے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن کی جارہی ہیں۔ عالم اسلام کے تمام مسائل میں مسجد اقصیٰ کا تحفظ اور شام کی خونریزی اور ایران کو لاحق خطرات سب سے اہم ہیں۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل اس اقوام متحدہ کی جس نے اس کو عالم وجود میں لایا ایک معمولی سی بات تک ماننے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن 55اسلامی ممالک (بجز دو تین )نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ امریکہ کی ہر بات بلکہ ہر حکم من و عن بجالانے میں تاخیر کے بھی روادار نہیں ہیں۔ یہ سب امریکہ کے ڈر خوف اور مرعوبیت کا نتیجہ ہے۔ حکومتیں بدلنے کی کامیاب سازش کرنے والی امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے کا خوف تو سب پر اس قدر طاری رہتا ہے کہ بقول جنرل(ر) اسلم بیگ کہ ’’بعض مسلم اور عرب حکمران سانس لیتے ہوئے سوچتے ہوں گے کہ کس طرح سانس لیں جو امریکہ کو ناگوار نہ ہو‘‘۔ عالم اسلام کو بے بس بنانے والے مسلمان حکمران ہیں۔

پچاس سے زیادہ مسلم ممالک کی جغرافیائی پوزیشن قدرتی وسائل کی افراط، افرادی قوت اور دیگر صلاحیت اور قوت متحد ہوتو ساری دنیا کو جھکاسکتی ہے لیکن ان کو صرف دبنا، دباؤ قبول کرنا اور تابعداری آتی ہے جبکہ ایک اکیلا اسرائیل ساری دنیا کا حکم ٹھکرادیتا ہے کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتا ہے۔

شام و فلسطین کی نازک صورت حال مسجد اقصیٰ کو لاحق خطرات کی جگہ ترکی کے طبیب اور دغان جیسے قائد بھی اوباما کی خاطر اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی بات کریں تو دوسروں کو کیا کہا جاسکتا ہے؟

بیشتر اسلامی ممالک کا جغرافیائی محل و قوع بے اہم ہے۔ اہم تجارتی راستوں پر ان کا کنٹرول ہے۔ اسی طرح بیشتر اسلامی ممالک قدرتی وسائل سے مالامال ہیں اور دولت کی بھی کمی نہیں ہے۔ اگر یہ اپنی منڈیاں یوروپ اور مغربی ممالک کے لئے بند کردیں تو ان تمام ممالک کی پیداوار اور مصنوعات کی فروخت ٹھپ ہوکر رہ جائے گی لیکن ان کا کوئی فائدہ یہ ممالک اٹھانے سے قاصر ہیں ۔ مسلم ممالک میں اتحاد و اتفاق کی کمی ان کی سب سے بڑی کمزور ی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ عرب ممالک اور ایران کے تعلقات کی خرابی اور باہمی اختلاف کی وجہ مسلک کا اختلاف ہے۔ شاہ فیصل اور رضا شاہ کے وقت سعودی عرب اور ایران میں خاصی دوستی تھی موجودہ اختلاف امریکہ کی دین ہے۔ شام کے مسئلہ سے اگر ایران الگ ہوتو بشارالاسد کا سارا زور ٹوٹ جائے گا۔ اس طرح اگر عرب ممالک ایران کی مخالفت کرنے میں امریکہ کا ساتھ نہ دے تو امریکہ ایران کے معاملے میں کمزور پڑجائے گا۔

اگر میں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ مسلم ممالک کی تنظیم اسلامی کانفرنس نے اپنے قیام کے بعد سے کچھ بھی خدمت عالم اسلام کی نہیں کی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کو اورعرب لیگ کو سلامتی کونسل میں مستقل نہ سہی عارضی نشست حاصل کرلینی چاہئے تھی۔

عالم اسلام کے مختلف ممالک جیسے لیبیاء، عراق، افغانستان اور اب ایران اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کا شکار رہے ہیں۔ اگر زائد از پچاس (یا کبھی اس سے کم) ان پابندیوں کی مخالفت کرتے تو پابندیوں کا سارا کھیل ناکام ہوجاتا یا کم از کم یہ شرط ہی عائد کی جاتی کہ ایسی ہی پابنیداں اسرائیل پر عائد کی جائیں لیکن یہ عالمی تنظیم نے خود کو صرف قرار دادوں اور اپیلوں تک محدود کرلیا ہے۔

عالم اسلام میں مسلمانون پر مسلم حکمرانوں نے مظالم کئے ہیں۔ غیر شرعی قوانین بنائے تھے لیکن ریکارڈ یہی کہتا ہے کہ اس تنظیم نے اپنے ارکان کو کسی بات کا پابند نہیں کیا۔ بنگلہ دیش میں حکومت کی زیرنگرانی وزیر سرپرستی اسلام کے دشمنوں نے سیکولرازم کے نام پر اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف جو مہم چلارکھی ہے اس کو روکنے کے لئے بلکہ صرف بنگلہ دیش میں ہی نہیں بلکہ کہیں بھی اس قسم کی مذموم کارروائیوں کو روکنے کے لئے کوئی نظام ہونا چاہئے۔ مصر، ٹیونس، ماریطانیہ اور شام میں شریعت اسلامی کے خلاف ماضی کی حکومتوں نے قوانین بنائے تھے۔ اس قسم کی حرکات کا بھی ازالہ ضروری ہے ۔ اسلام کے خلاف یا اسلام، قرآن، رسالت وغیرہ کی توہین کو برداشت کرنے والی حکومتوں (مثلاً بنگلہ دیش) کو رہ راست پر لانے کے لئے اقدامات ضروری ہیں۔

غیر اسلامی ممالک پر تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر اگر دباؤ ڈالیں تو امریکہ ہو یا کوئی مغربی ملک زیادہ عرصہ تک سیاسی مفادات کی خاطر اپنے تجارتی و معاشی مفادات کو ہرگز ہرگز قربان نہیں کرسکتے ہیں۔

مندرجہ بالا اہم مسائل کے علاوہ آج حال یہ ہے کہ یوروپ میں کہیں حجاب پر پابندی ہے تو کہیں داڑھی و برقع پر پابندی تو کہیں مسلمانوں کو دھوکے سے حرام گوشت کھلایا جارہا ہے۔ کسی ملک میں نئی مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے تو کہیں میناروں کی بلندی پر پابندی ’’اسلاموفوبیا‘‘ ہر طرف طاری ہے۔

عالم اسلام کو تین بڑی نعمتوں سے اﷲ نے سرفراز کیا ہے۔ عالم اسلام قدرتی وسائل (خاص طور پر معدنی تیل) سے مالا مال ہے۔ دولت مند اسلامی ممالک امریکہ و یوروپ کی پیداوار اور مصنوعات کے لئے ایسی منڈیاں ہیں جہاں کروڑوں ڈالر کے مال کی فروخت آسانی سے ہوجاتی ہے۔ ایشیائی و افریقی ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کے ہنرمند اور غیر ہنرمند افرادی قوت کے لئے خلیجی ممالک میں روزگار کے مواقع ہیں۔

عرب ممالک کے تیل کے ہتھیار کو امریکہ و ناٹو ممالک نے تیل کے ذخائر، فروخت کے مراکز اور رااستوں پر اپنا کنٹرول قائم کررکھا ہے لیکن اسلامی ممالک کی منڈیاں بند کی جاسکتی ہیں اور افرادی قوت کو واپس کرکے ان کی آمد روک کر بھی اہم مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت کے غیر اسلامی اقدامات کو روکا جاسکتا ہے ۔ سری لنکا کی صرف چائے اور افرادی قوت کا مقاطعہ کرکے سری لنکا کو سبق سکھانا آسان ہے۔ برما (مانمار) کو راہ راست پر لانے کے لئے سفارتی دباؤ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ا س سلسلے میں بنگلہ دیش کا رول اہم ہوسکتا ہے۔

اسرائیل کے معاملے میں مسلم ممالک خاص طور پر عرب ممالک امریکہ جب تک آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کریں گے امریکی و مغربی ممالک سے درآمدات پر پابندی لگاکر ہتھیار سے لیکر مکھن پنیر اور بسکٹ کی درآمدات کے لئے متبادل تلاش نہیں کئے جائیں گے ۔ رہی افرادی قوت تو اس کی ایشیاء و افریقہ میں کمی نہیں ہے۔

سلامتی کونسل کے ذریعہ نافذ کئے جانے والے امریکی احکامات کو کھلم کھلا مسترد کرنا ضروری ہے ۔زائد از پچاس ممالک کا مشترکہ طور پر انکار معمولی بات نہیں ہے امریکہ ایک ایک کرکے پچاس سے زیادہ ممالک کو ختم کرسکتا ہے۔ لیکن بہ یک وقت پچاس سے زیادہ ممالک کی طرف جارحانہ انداز سے دیکھنا بھی امریکہ کے لئے ممکن نہیں ہے جس دن عالم اسلام امریکہ کی مرعوبیت خوف اور داداگیری سے خود کو آزاد کرالے گا اسی دن سے عالم اسلام کے استحکام و عروج کا آغاز انشاء اﷲ تعالیٰ ہوگا۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 167362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.