میرے قائد کو تو بخش دو

میرے قائد کوئی اور نہیں صرف قائداعظم محمد علی جناح ہیں ،جو اصول پسند تھے ،انصاف پسند تھے ،اسلامی روایات کے پابند تھے ، ،62,63 کی آئنی دفعات کے تناظر میں ہونے والی نام نہاد سیکور ٹنی کے تحت نامزد امیدواروں سے بنیادی اسلامی معلومات اور عام نوعیت کے سوالات کے جواب نہ آنے کی وجہ سے جہاں ان کی حب لوطنی کی جھلک نظر آتی ہے وہاں ان کا مذہب سے لگاؤ بھی خوب واضع ہو گیا ہے۔ جس سے محبت ہوتی ہے اس کے بارے میں علم اوزیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کی جاتی ہے ،مگر جب غرض خدمت کی بجائے صرف اقتدار کی ہوس ہو تو ایسے ہی نتائج سامنے آیا کرتے ہیں۔

اس سارے مرحلے میں ایک سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ تھا اورجو ،ہر محب وطن پاکستانی کو خون کے آنسو رُولا گیا ، یعنی عظیم قائد کے بارے میں نام نہاد پڑھے لکھے نامور شخصیات کے ایسے بیانات یا تحریرات، جن میں کہا گیا کہ اگر قائداعظم بھی اس وقت ہوتے تو وہ بھی ان دفعات پر پورا نہ اترتے ۔۔ میری ناقص رائے کے مطابق قا ئد اعظم اس قسم کے متنازع قوانین کبھی بننے ہی نہ دیتے ،جو محض اپنی ذاتی مفاد پرستی اور مذہب کی آڑ لے کر بنائے گئے ہیں ۔پھر قانون سے اس قدر مذاق کے ایک عدالت نا اہل قرار دیتی ہے تو دوسرے ہی لمحے ایک اور عدالت اسی بندے کو اہلیت کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتی ہے احتساب اور انصاف کی یہ کیسی چھلنی تھی کہ جس کے اتنے بڑے بڑے سوراخ تھے ، جس میں ایماندار اور بے ایمان ایک ساتھ گر رہے تھے ۔ اور پوری قوم یہ تماشہ کمال صبر و تحمل سے دیکھ رہی تھی ،آخر اہلی اور نااہلی کا کوئی تو معیارہو۔۔ یہ سب تو سمجھ اور عقل سے بالا تر ہے۔

اس ساری بحث سے نکلتے ہوئے میرا یہ مقصد ہے کہ میں اپنے عظیم قائد کی انصاف پسندی ،اصول پسندی اور اسلام سے تعلق کی ایک جھلک ان کو دکھاؤں جو ہمیشہ اپنوں کی مثالیں دینے کی بجائے غیر کی دنیا میں جھانکتے ہیں اورانہی کو idealiz کرتے ہیں ، میں ان کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہماری اپنی تاریخ ،بہت سے جگمگاتے ستاروں سے خوب روشن ہے.۔

میرا قائد اسلامی رویات کا پابند ہے ،میرا قائد مکمل مسلمان ہے ۔کس قدر افسوس کا مقام ہے اور آپ سے یہ بڑی نا انصافی ہوتی چلی آرہی ہے کہ لکھنے والوں نے ان کی زندگی کی مومنانہ صفات ،مذہبی جزبات ،دینی تاثرات،اسلامی رحجانات کے آئینہ میں پیش نہیں کیا،جیسے ان کا دین و مذہب سے کوئی تعلق کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔۔حالانکہ آپ کی ہر تقریراور بیان اسلام کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا،گو کہ آپ منافقین کی طرح اسلام اسلام کی رٹ نہیں لگاتے تھے بلکہ اٹھتے بیٹھتے اسلام کو ہی اپنے مخصوص رنگ میں پیش کرتے تھے ۔اگر آپ کی ہر تقریراور ہر ارشاد کا دیانت داری سے جائزہ لیا جائے تو وہ اسلام کی کسوٹی پر پورا اترے گا،قائداعظم کی زندگی دِینی ،مذہبی،اور اسلامی پہلوؤں کو بھر پور طریقے سے ااُجاگر کرتی ہے۔اب میں چند واقعات پیش کرتی ہو ں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ برّصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزادوطن دینے والے قائد کو خدا ،رسولﷺ اور اپنے دین و مذہب پر کتنا کامل یقین تھااور آپ کتنے پختہ اصولوں کے مالک تھے
۔مجید نظامی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ان کی شخصیت کا خمیر سنہرے اصولوں کی روشن مٹی سے اٹھا تھا اور ان کی پوری زندگی ایک زندہ کرامت ہے‘‘۔

اب ذر ا رک کر تھوڑاسا انصاف کی نظر سے موجودہ حالات پر نظر دوڑائیں کہ اس دور کا کون سا ایسا سیاست دان ہے کہ جو اصول کی اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے ۔؟

ایک واقعہ پیش ہے۔پڑھیں اور قائد کی عظمت کو سلام پیش کریں،3مارچ1941کو لاہور کی ایک مسجد میں آپ نماز عصر کے لئے تشریف لے گئے،مسجد کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ،قائد اعظم نظم و ضبط کو پسند کرتے تھے،آپ مسجد کے بغلی دروازے سے اندر داخل ہوئے۔آپ کی آمد پر اگلی صف میں راستہ بنا دیا گیا ۔لیکن میرے قائد نے اگلی صف میں جانے سے صاف انکا ر کر دیاکہ میں آخر میں آیا ہوں،اس لئے یہیں بیٹھوں گا،دیکھا آپ نے سیاسی میدان میں سب سے آگے نکل جانے والا عظیم رہنما،خانہء خدا میں سب سے پیچھے بیٹھنا پسند کرتاہے۔

اور اب آج کی بھیڑ چال کا منظر دیکھیں کہ نمازپڑھنی ہو، حج یا عمرہ کرنا ہو ،سیاست دان آگے آگے ہوتے ہیں ،کہ کہیں تصویر بننے سے رہ نہ جائے۔

مولانا حسرت موہانی بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں جناح صاحب کی کوٹھی پر صبح صبح نہایت ضروری کام سے پہنچا،ملازم کو اطلاع دی ،ملازم نے کہا اس وقت ہم کو اندر جانے کی اجازت نہیں آپ تشریف رکھیں، تھوڑی دیر میں جناح صاحب خود تشریف لے آئیں گے ۔چونکہ ضروری کام تھا،اس لئے مجھے ملازم پر غصہ آیااور میں خود کمرے میں چلا گیا۔برابر والے کمرے سے مجھے کسی کے رونے اور کچھ کہنے کی آواز آئی، یہ جناح صاحب کی آواز تھی،۔۔دیکھتا ہوں کہ قائداعظم سجدے میں پڑے ہیں،اور بہت ہی بیقراری کے ساتھ دعا مانگ رہے ہیں۔۔میرے تصور میں ہر وقت وہی تصویر اور وہی آواز رہتی ہے۔

اسی طرح ایک دفعہ قائد اعظم آگرہ تشریف لائے۔اس موقع پر مسلم لیگ نے جلسہ کرنا چاہا،لیکن قائداعظم نے اس میں شرکت کرنے سے صاف انکار کردیااور کہا کہ میں اپنے موئکل کی طرف سے پیش ہونے آیا ہوں ،جس کی فیس ادا کر چکا ہوں،آپ جلسہ کرنا چاہتے ہیں تو بعد میں بلا لیں میں اپنے خرچے پر آجاؤں گا۔
23مارچ1940کو قرار دادِ پاکستان منظور کراکے مسلمانوں کی منزل کا تعین کر دیا گیا ،اب گاندھی اور نہرو نے ایڑی چوٹی کازور لگانا شروع کیاکہ کسی طرح جناح اپنے ہندوستان کی تقسیم کے مطالبے سے دست دربردار ہو جائیں اس مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کا لالچ دیا گیا،گاندھی نے پیشکش کی کہ اگر وہ چاہیں تو ہندوستان کی وزارت عظمی تک ان کو دے دی جائے گی ۔مگر جناح نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا ۔میرے قائد نہ جھکنے والے تھے اور نہ بکنے والے ۔ واقعات تو بہت سے ہیں ، کون کون سا واقعہ بیان کروں ، قائد اعظم قومی دولت کے ضیاع کو بھی سخت ناپسند فرماتے تھے ،اورہمیشہ بچت کرنے کی تلقین کرتے تھے ،ایک اجلاس کے اختتام پر جب ممبران کو چائے دینے کا پوچھا تو آپ نے اس پر بھی ناراضگی کا اظہا کیا اور فرمایاکہ کیا یہ گھر سے کھا پی کے نہیں آئے ،قومی خزانے سے ان کے لئے کچھ نہیں آئے گا ۔آج جب ان حکمرانوں کو دیکھتے ہیں تو افسوس ہی ہوتا ہے ۔کس طرح وزیراعظم ہاوس،صدارتی محلوں،گورنر ہاوس الغرض ہر سرکاری مقامات پر کھانے کا پر تکلف اہتمام ہوتا ہے۔دوسری طرف غریب عوام کھانے کو ترس رہی ہوتی ہے ،مگر ان ظالم حکمرانوں کو ترس نہیں آتا۔

،جن لوگون نے بھی عظیم قائد کے بارے میں ایسا بیان دیا ان کی حالت دیکھیں ،یہ لوگ تو پیسوں کے بغیر بات کرنا پسند نہیں کرتے ،پیسہ ہی ان کا دین و ایمان ہے ،تھوڑا سا علم کیا سیکھ لیتے ہیں ان میں رعونت آجاتی ہے ان کی باتوں ، انداز اور بیان سے تکبر کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی ہے ،ایک اچھا کام کرتے ہیں تو دس برے کام ان کے کھاتے میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ان کی جرات کیسے ہوتی ہے کہ یہ بابائے قوم کے لئے ایسے الفاظ استعمال کریں ،شرم ،ادب اور لحاظ کا تقاضا تھا کہ ایسی بات ان کے منہ سے ہی نہ نکلتی،اپنی غلطیوں،کوتاہیوں ،غلط قوانین کے نفاد،اور ان کے بھیانک نتائج کے سامنے آنے پرایسے بیانات کا کیا مطلب ہے کہ فلاں بھی غلطیاں کرتا تھا ، فلاں بھی اس پر پورا نہیں اترتا،ارے بھائی قوانین آپ نے بنائے ہیں آپ خود بھگتے ،معاف کردیں ان عظیم لوگوں کو کہ جنہوں نے ایک بہترین زندگی گزاری ، جو ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے،آپ نے کیا ایسا کارنا مہ سر انجام دے دیا ہے کہ ہم آپ کی بات سنیں،ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو پیسے کی ہوس لے کر جیتے ہیں اور اسی ہوس میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ،تب پھر ان کو کبھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جاتا۔اور ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہوتا۔جبکہ میرے عظیم قائد کا نام اور کام ہمیشہ زندہ رہے گا ،انشاء اﷲ۔۔قائداعظم زندہ باد ،پاکستان پائندہ باد۔

مریم ثمر
Saima Maryam
About the Author: Saima Maryam Read More Articles by Saima Maryam: 49 Articles with 48521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.