پرویزمشرف اور دودھ پینے والے مجنوں

لیلی اپنے محل میں تھی کہ اُسے اطلاع ملی کہ باہر اُس کا مجنوں آیا ہے اور لیلی لیلی پکار رہا ہے۔ محل سے باہر پڑا ہوا مجنوں لیلی لیلی پکارتا رہتا تھا اور لیلی اپنی ایک سہیلی کے زریعے مجنوں کا بہت خیال رکھتی اور روز مجنوں کے لیئے اچھے اچھے کھانے بھجواتی اور رات کودودھ سے بھرا ہواایک پیالہ۔ لیلی کی سہیلی لیلی کے کہنے سے سب کرتی تو تھی مگر اُسے اِس مجنوں پر شک تھا کہ وہ لیلی کااصل مجنوں نہیں ہے۔ وہ باربار لیلی کو سمجھاتی کہ وہ دھوکا کھارہی ہے یہ اصل مجنوں نہیں ہے۔آخرکار لیلی نے اپنی سہیلی کے کہنے پر ایک دن اپنے ایک ملازم کو اُس پیالے کے ساتھ جس میں روز اُس کو دودھ بھیجا کرتی تھی اِس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ لیلی کی طبیت بہت خراب ہے اور اُس کو خون کی ضرورت ہے لہذا اس پیالے میں تم اپنا خون بھرکردے دو۔ مجنوں نے ملازم سے کہا کہ میں دودھ پینے والا مجنوں ہوں خون دینے والا نہیں اور یہ کہ ہکر وہ جھوٹا مجنوں وہاں سے چلاگیا۔

لاہور کے موچی دروازے پر پیپلز پارٹی کے جلسے میں مولانہ کوثر نیازی تقریر کررہے تھے اور فرمارہے تھے کہ بھٹو سورج ہے ہم اُسکی روشنی ، بھٹو چاند ہے ہم اُسکی کرنیں، ایک جیالا کھڑا ہوا اور بولا بھٹو دیگ ہے اور آپ اُسکے کفگیر۔ مولانہ جیالے کی بات پر مسکرائے اور دوبارہ بھٹو کی تعریف میں لگ گئے۔ مولانہ کوثر نیازی نےذوالفقار علی بھٹو پر ایک کتاب بھی لکھی جسکا عنوان "دیدہ ور"رکھا۔ لیکن جب 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھالا تو صرف چند دن کے بعد دیدہ ور کے مصنف مولانہ کوثر نیازی اور غلام مصطفی جتوئی جن کو بھٹو نے سندھ کا وزیراعلیَ بنایا تھا جنرل ضیا الحق کے دربار میں حاضری دینے پہنچ گے۔ دونوں نے ایک علیحدہ پیپلز پارٹی کا دھڑا بھی بنالیا۔ بیگم نصرت بھٹو کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ اب میرا دوپٹا بیچ کر کھالو کیونکہ بھٹو کے دودھ پینے والے مجنوں اُن سے بھٹو کی رہائی کی کوششیں کرنے کے لیے لاکھوں روپے وصول کررہے تھے اور پھرجب 4 اپریل 1979 کو بھٹو کو پھانسی دی گی تو بھٹو کے دودھ پینے والے مجنوں غائب تھے۔

میاں نوازشریف دوسری مرتبہ 1997 میں اس اکثریت سے کامیاب ہوئے کہ انکو حکومت چلانے کے لیئے کسی سے بھی اتحاد کرنے کی ضرورت نہیں تھی مگر دودھ پینے والے مجنوں انکے ساتھ بھی تھے۔ نواز شریف اپنے دوسرئے دور اقتدارمیں چونکہ بھاری اکثریت سے جیتے تھے لہذا انکے مجنوں ان سے فرمائش کرتے اور وہ انکی فرمائش پوری کرتے۔ انہوں نے ایک صدر ، ایک آرمی چیف اورایک چیف جسٹس آف پاکستان کو گھر روانہ کرنے کے علاوہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے اور ایک رات میں اپنے ہموطنوں کے بارہ ارب ڈالر کے اکاونٹ منجمد کرنے کے کارنامے اپنے مجنوں کی فرمائش پر ہی کیئے ۔ آہستہ آہستہ انکے مجنوں نے انکو قائد اعظم ثانی بھی کہنا شروع کردیا تھا۔ اپنے کسی مجنوں کے کہنے پر ہی انہوں نے جنرل پرویز مشرف کوبھی نکالنا چاہا مگر مشرف نے انکو نکال باہر کیا۔ ملک سے باہر جانے کے بعد جب بھی انہوں نے یا شہباز شریف نےپاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی مشرف نے انکو واپس بھیج دیا۔ ایرپورٹ پر ان کا کوئی مجنوں کبھی بھی نہیں دکھائی دیا۔ ان کے بہت سارے دودھ پینے والے مجنوں اب جنرل پرویز مشرف کے دربار میں حاضری دے رہے تھے۔

جنرل پرویز مشرف نےنوازشریف کو 1999 میں ہٹاکراقتدار پرقبضہ کیا تو وہ بھی سیاسی لیلئ بن گے اور انکے عشق میں بہت سے مجنوں پیدا ہوگے۔ سب سے پہلے اُنکے مجنوں میں چودھری شجات اور چودھری ظہورالہئ شامل ہوئے اور باقی اور بھی بہت سارے تھے، مگر مشرف کے مجنوں میں خالی شخصیات ہی نہ تھی بلکہ سیاسی جماعتیں بھی تھیں۔ مسلم لیگ ق کے علاوہ ایم کیو ایم اور متحدہ مجلس عمل بھی تھیں۔ مشرف کے برسراقتدار آنے کےبعد ق لیگ نے جنم لیا اور پوری ق لیگ مجنوں بنکر مشرف کو اتنی مرتبہ وردی میں صدر بنانا چاہتی تھی جس کی خود مشرف کو بھی شاید تمنا نہ ہو، حاصل یہ تھا کہ چوہدری ظہور الہی پورے پانچ سال پنجاب کے وزیر اعلی رہے۔ دوسری طرف جولائی 2001 میں پاکستان کی چھ مذہبی سیاسی جماعتوں نے ایک نئے اتحاد ”متحدہ مجلس عمل“ کے قیام کا اعلان کیا۔ متحدہ مجلس عمل کے قیام اور انتخابات میں ملک کے شمالی صوبے میں اس کی واضح اکثریت میں پاکستان کی فوجی قیادت کا بڑا ہاتھ تھا۔ 2002کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی 68 اور بعد میں سینٹ میں 20 نشستیں حاصل کیں،سرحد اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کی حمایت یافتہ حکومتیں قائم ہوئیں۔ 28دسمبر 2003کوقاضی حسین احمد،مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل یعنی لیگل فریم ورک آرڈر منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا اوراسکے ساتھ ہی متحدہ مجلس عمل ”ملا ملٹری الائنس“ بن گی۔ ایم کیو ایم بھی مشرف کے مجنوں میں شامل تھی اور حاصل یہ تھا کہ مرکز اور صوبہ سندھ میں وزارتیں تھیں۔پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا فیصل صالح حیات کی قیادت میں مشرف کے دودھ پینے والے مجنوں میں شامل تھا۔ اگست 2008 میں مشرف صدارت سے علیدہ ہوئے اور کچھ عرصے بعد ملک سے باہر چلے گے۔

پانچ سال بعد جنرل پرویز مشرف بڑئے طمطراق سے پاکستان پہنچے تو وہ اب بھی اپنے آپ کو سیاسی لیلئ ہی سمجھ رہے تھے، حالانکہ اُنکو معلوم تھا کہ انکے وہ سارئے مجنوں جو دودھ پینے والے تھے انہوں نے اپنی لیلئ بدل لیں ہیں۔ شاید تاریخ سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اسلیے آج انکے کھاتے میں وہ سارئے جرائم ہیں جو وہ اپنے مجنوں کے ساتھ ملکر کرتے رہے۔ آج این آر او ہو یا لال مسجد کا واقعہ، اکبر بگتی کی ہلاکت ہو، یا ججوں کو نظر بند کرنے کا جرم، آیئن سے انحراف ہو یا ایمرجنسی کا نفاظ ہر جرم کے ملزم پرویز مشرف ہیں۔ ایم کیو ایم آج کراچی کی ایک سیٹ انکو دینے پر تیار نہیں، سابقہ متحدہ مجلس عمل والے ساری خرابی کی جڑ انکو ہی کہتے ہیں۔ چوہدری برادران تو اب پیپلز پارٹی کے مجنوں ہیں کون مشرف وہ جانتے ہی نہیں۔ باقی ماروی میمن، قصوری اور امیر مقام بھی اپنی اپنی لیلئ کے دربار میں ہیں۔ گیارہ مئ کو انتخابات ہونگے، آنے والے حکمراں اگر تاریخ کا یہ سبق سیکھ لیں کہ اپنے آپ کو دودھ پینے والے مجنوں سے بچاکر رکھیں تو ان کے ہی حق میں بہتر ہوگا۔ بھٹو اور نواز شریف انجام بھگت چکے ہیں، مشرف اب بھگت رہے ہیں اور دودھ پینے والے مجنوں عیش کررہے ہیں۔ آیندہ تاریخ کا مورخ ہمارئے مستقبل کے حکمرانوں کے لیے کیا لکھے گا یہ آنے والے حکمرانوں کے طرز حکمرانی پر ہوگا مگرمشرف صاحب آپ دھوکا کھاگے آپکے پاس سب دودھ پینے والے مجنوں تھے خون دینے والے نہیں ورنہ آج شاید آپکا یہ انجام نہ ہوتا۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 445932 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More