داعی کی فکری و عملی تربیت

تبلیغ دعوت اور دعاۃ کی تیاری کا وجوب:
دعوت الہی انسان کے لیے اللہ کی رحمت ہے۔ اسی لئے رسولﷺ کو تبلیغ دعوت کا حکم دیا گیا: ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ۔( سورة النحل من آية 125)
دعوت و تبلیغ کا یہ حکم وجوب کا درجہ رکھتا ہے اور اس حکم میں امت مسلمہ بھی داخل ہے ، یعنی اس امت کو بھی اس کار دعوت کو انجام دینا ہے ۔ اس حکم میں استمرار دعوت بھی شامل ہے ۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا : "ليبلغ الشاهد منكم الغائب" (صحيح البخاري. كتاب العلم باب ليبلغ الشاهد الغائب.)

چنانچہ جس طرح ایمان ، اخلاص، اور داعیانہ صفات کے ساتھ نبی ﷺ پر واجب تھا اسی طرح اس امت پر بھی انہی صفات کے ساتھ واجب ہے۔
دعاۃ کی تیاری کا وجوب:

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ(سورة التوبة آية 122 )
نیزیہ فرمان الٰہی : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورة آل عمران آية 104)
اس آیت میں بھی اس بات کا صریح حکم ہے کہ ایک جماعت لازماً اس کار دعوت پر مامور رہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے بھی صحابہ کی جماعتیں تیار کیں اور انہیں میدان دعوت میں بھیجتے رہے ۔

دوسری دلیل : دعاۃ کے واسطہ کے بغیر کار دعوت انجام نہیں پا سکتا لہذا ضروری ہے کہ دعاۃ تیار کیے جائیں۔

آج ضرورت ہے کہ باصلاحیت دعاۃ تیار کیے جائیں جن کو حالات حاضرہ کی پوری معلومات ہو اور وہ باطل نطریات سے پوری طرح واقف ہوں اور ان کے پاس پورا دعوتی خطہ اور متعین ہدف بھی ہو۔ جیسا کہ عیسائی مشنریاں اور گمراہ جماعتیں اس کام کو مکمل تیاری کے ساتھ کررہی ہیں۔ یہ بات کبھی درست نہیں ہو سکتی کہ حق کی آواز باطل پرستوں کے آگے جھک جائے اور لوگوں کے اندر ملحدانہ اور باطل نطریات اپنی جڑ جما لیں ۔لہذا کار دعوت کو کما حقہ انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ منظم اور منصوبہ بند اور تدریجی طور دعاۃ تیار کئے جائیں اورحق کا آوازہ پوری قوت کے ساتھ بلند کیا جائے۔
دعاۃ کی تیاری کا ہدف:

دعاۃ کی تیاری کا ہدف یہ ہو کہ ان کے اندر پختہ اور گہرا ایمان ہو۔اسلام کا وسیع اور بھرپور علم ہو۔ دعوت کا فریضہ انجام دینے کاان کے اندر بھر پور جذبہ موجزن ہوسکے۔.دعوت کے اسالیب کا علم حاصل کر سکے نیزمدعو کے ادیان ، نفسیات اور مزاج سے پوری طرح واقفیت ہوسکے ۔ وہ اعلی اخلاق و کردار کا حامل بن سکے ، اور اس کے اندر انتہائی انسانی ہمدردی اور جذبۂ خیر سگالی موجود ہو۔ ان صفات کو آگے ہم قدرے تفصیل سے جاننے کی کوشش کریں گے ۔

أ ـ پختہ اور گہرا ایمان : ایمان ہی داعی اصل مرکز توجہ ہے اور اسی پر اس کی ساری سرگرمی محیط ہوتی ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ پہلے داعی کے اندر خود یہ صفت درجہ اتم موجود ہو ورنہ وہ خود مدعو کا شکار بن کر رہ جائے گا۔
. اللہ پر اس طرح ایمان لاناجیسا کہ اس کا حق ہے ۔ اس کی تمام صفات پر ایمان ، اس بات پر ایمان کہ اللہ کا دین ہی برحق ہے اور اس میں کسی بحث و جدل کی گنجائش نہیں ہے ۔ نہ ہی اس میں کسی طرح کا شک کیا جا سکتا ہے۔ چاہے مشکلات جس قدر ہوں لیکن اس دین سے پھرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

.داعی کا یمان تفصیلی ہو اور دلائل و براہین پر مبنی ہو ۔ اس کا طریقہ یہ ہے داعی کا قرآن سے گہرا رشتہ ہو ۔ یعنی مسلسل تلاوت ، اس پر غورو فکرکرتا ہو اور سنت مطہرہ کا بھی مطالعہ کرتا ہو ، اس کا حفظ اس کے احکام پر سختی سے عمل اور اس کی منہیات سے کلی اجتناب برتتا ہو۔ اس ایمان کا فائدہ یہ ہوگا کہ داعی کاتعلق اللہ کے ساتھ قوی سے قوی تر ہوتا جائے گا ۔ جیساکہ ارشاد ہے:

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبّاً لِلَّهِ( سورة البقرة من آية165)

نیزفرمایا: يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ (سورة المائدة من آية 54)
۔ اس محبت الہی کے اندر کامل استغراق اور مکمل حوالگی پائی جاتی ہے ۔
۔ یہ ایمان داعی کے اندر مدعو سے مکمل مالی بے نیازی اور محبت و اخلاص پیدا کرتا ہے ۔ اور صرف اللہ ہی کی رضا کی طلب اس داعی کے اندر پیدا کرتا ہے ۔ یہ ایمان اس داعی کے اندر مشکلات کا تحمل اور صبر بھی پیدا کرتا ہے ۔ برائیوں کی کثرت سے داعی کبھی مرعوب نہیں ہوتا۔ بلکہ مشکلات کے وقت اس کی زبان پر ہوتا ہے : قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبّاً وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلا عَلَيْهَا وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ۔
ب ـ گہرا اور وسیع علم : داعی کے پاس اسلام کا وسیع اور گہرا علم ہونا چاہیے ۔. تاکہ دین اسلام کی حقانیت ثابت کر سکے ۔.اس کے اصول ومبادی کی وضاحت کر سکے۔.اس پر وارد ہونے والے شبہات کا ازالہ کر سکے۔.اسلام کو عصر حاضر کے اسلوب میں پیش کر سکے۔.مدعو کو اسلا کی حقانیت پر یقین پیدا کرنے والا بنا سکے۔اس لئے ضروری ہے کہ داعی کے پاس عمیق اور وسیع علم ہو۔

1ـ دعوت کا علم : داعی کاکام دعوت کی توسیع ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے پاس دعوت کے اصولوں کا علم ہو ۔ کیونکہ اگر وہ خود ہی علم سے کورا ہو تو دوسروں کو کچھ نہیں دے سکتا ہے ۔

2ـ مدعو کے بارے میں علم: مدعو کا دین اس کا مزاج اس کی تہذیب اور اس کی نفسیات کا علم اگر داعی کے پاس نہ ہو تو وہ اپنی دعوت میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے ۔یہ داعی کے علم کا اہم ترین حصہ ہے ۔ اس لئے کہ آج بے شمار مذاہب و نظریات اور فرقے رنگ برنگ شکلوں میں آ رہے ہیں ۔ لہذا داعی کے پاس ان مذاہب ونظریات کا تفصیلی اور تقابلی علم ہونا چاہیئے ۔۔ مدعو کے درمیان موجود مختلف خطرناک حملوں کا مطالعہ ،ان کی حقیقت سے آگاہی ، ان کے اسباب کا علم اور ان کی تحلیل کرنی چاہیے۔

3ـ وسائل دعوت کا علم : مثلاً انفرادی ملاقات، اجتماعی خطاب ،تمثیلچے ، ریڈیو ٹیلی ویژن اخبارات و رسائل کا علم تاکہ داعی حسب موقع کار دعوت میں ان سے استفادہ کرتا رہے۔

4ـ مدعو کی زبان کا علم : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ۔ (سورة إبراهيم من آية 4)

5ـ داعی کا مکتبہ : داعی کبھی بھی مسلسل مطالعہ اور معلومات حاصل کرنے سے بے نیازنہیں ہو سکتا ۔ لہذا اس کے پاس اہم مصادر پر مشتمل ایک مختصرلائبریری کا ہونا ضروری ہے جس میں تفسیر، احادیث، سیرت ، فقہ ،عقیدہ ، اسلامی لٹریچراور مذاہب ونظریات کے تقابلی مطالعہ پر مشتمل کتابیں موجود ہوں ۔

6ـ دعوتی رسائل اور مجلات کی اشاعت : ماہرین دعوت کے مقالے اور دعوتی سرگرمیوں پر مشتمل موضوعات سے بھرپور مجلات اور رسالے شائع کئے جائیں جن سے داعی کو اسالیب دعوت اور دعوت کی کامیابی سے متعلق نئی معلومات فراہم ہوں ۔
جـ ـ بلند اور معیاری اخلاق: نبی ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فریا : وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيم ٍ. (القلم٤)

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : "إنكم لن تسعوا الناس بأموالكم فسعوهم بأخلاقكم".
د۔ جذبہ ٔ ہمدردی و خیرسگالی : داعی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر صدق أمانت داری ، حلم ، عفو ودر گزر اور كرم ومحبت ہو نیز داعی کے دل میں لوگوں کی خیر خواہی کا جذبہ بھی موجزن ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (128:توبہ)
دعاۃ کیسے تیار کئے جائیں ؟

دعاۃ کی تیاری کے لئے درج ذیل خطہ کو اپنایا جاسکتا ہے ۔

۱ ـتربیتی کیمپوں کا انعقاد : داعی کو نئی باتوں کی علمی و عملی تربیت کے لئے نیز حاصل شدہ علم کی حفاظت کے لئے، اس لئے کہ علم ہمیشہ اضافہ اورحفاظت کا مطالبہ کرتا ہے ۔لہذا اس کا اعادہ ضروری ہے ۔ داعی کے اندر بھی اس بات کاکا فی جذبہ موجود ہونا چاہئے کہ وہ نئی چیزوں کا علم حاصل کرے اور حاصل شدہ علم میں اضافہ کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے اندر تھا ۔ جس وحی نازل ہوئی کہ :لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔

حضرت جبریل ؑ کانبیﷺ کو آخری مرتبہ دوبار اعادہ کرانا ۔ رسول ﷺ کا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہنا کہ : اقرأ علي شيئاً من القرآن، فقال له ابن مسعود: أأقرأه عليك وعليك أنزل؟! فقال له: نعم. إني أحب أن أسمعه من غيري“ (الاتقان جـ 1 ص 109.)

ب ـ عملی تربیت کی مناسب حکمت عملی : افراد کے درمیان اختلاف کا تقاضہ ہے کہ اسلوب دعوت بھی مختلف ہو قرآن میں ہمیں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ۔

مکی زندگی کا اسلوب مدنی زندگی کے اسلوب سے بالکل مختلف ہے ۔

یہاں تک کہ آپ ﷺ کا لہجہ بھی قبائل کے لحاظ سے بدل جاتا تھا ۔

جـ : داعی کی وقتاً فوقتاً تجدید : دعوت کی اہمیت ،وسائل دعوت کی میں ترقی اور اضافہ کی معلومات ، جیسے کانفرنس اور خطاب عام وغیرہ کے سلسلہ میں تربیت وغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی تاکید بھی فرمائی ہے : فَذَكِّرْ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرَى (سورة الأعلى آية 9 )

د ـ داعی کا جائزہ ۔ ان کی کارکردگی اور علم کے معیار کا جائزہ اور ان کی اخلاقی حالت کا تجزیہ اور ان کی رہنمائی .

ه ـ دعاۃ کے لئے مطالعاتی سیٹ کی تیاری اور اس کامطالعہ: اس کا مفصل خطہ تیار کرنا اور دعاۃ سے پابندی کے ساتھ مطالعہ کروانا ۔

مطالعہ کی مقدار اور کیفیت متعین کرنے میں داعی کے معیار اور اس کی صلاحیتوں اور اس کے مخاطب کی ضروریات کا لحاظ رکھا جانا چاہئے۔

و ـ مسلسل اور منظم نگرانی : کار دعوت عظمت کی وجہ سے ضرورت ہے کہ داعی کی نگرانی کی جائے تاکہ حسب ضرورت اس کی مدد جائے اور داعی اپنے مشن میں کامیاب ہو سکے ۔ یہ نگرانی تسلسل کے ساتھ ہونی چاہئے۔ اس کام کے لئے ایک ادارہ یا ایک مجلس ہونی چاہئے جو اس کام کو منظم انداز میں کر سکے ۔ ان کیمپوں میں قرآن وسنت کے علوم عقائد، اسالیب دعوت اوراس کے اقسام جیسے موضوعات شامل ہوں نیز چھوٹے چھوٹے مقالے اور کتابچے بھی مطالعہ میں رکھے جائیں جن میں دعاۃ کی براہ راست شمولیت ہو ۔


ز ـ عملی تربیتی کیمپ :یہ کیمپ صرف موضوعی اور لکچر ٹائپ کے ہی نہ ہوں بلکہ عملی بھی ہوں مثلاً شرکا٫ باہم سوال وجواب کریں ، اسی طرح مذاکرہ ، مختصر تقاریر، تمثیلچے وغیرہ کے ذریعہ مشق کرائی جائے اور ماہرین ان کی نگرانی کریں اور کمیوں کوتاہیوں کی نشاندہی کریں ۔ اسی طرح فیلڈ ورک کے ذریعہ اصولی علم کو عملی طور شرکائ کو سکھائیں

ح ـ ایمانی تربیت : ان کیمپوں میں ایمانی تربیت پر بھی توجہ دی جائے ۔ اس کے لئے : مثالی مربیین کا انتخاب کیا جائے جو علمی ساتھ ساتھ عملی نمونہ بھی پیش کر سکیں ۔ سیرت رسول ﷺ اور سیر صحابہ کے امتیازی نمونوں کو عمل زندگی میں اتارنے کے لئے ابھارا جائے ۔ داعی کے قول وعمل میں مطابقت اس کی دعوت کی کامیابی کا ضامن ہے ۔ نیز ایسےہی داعی کو مؤثربیان کی توفیق بھی ملتی ہے ۔

ط ـ مدعو کی تہذیب و تمدن، ان کے مذاہب و نظریات اور افکار کا مطالعہ: بھی ان کیمپوں کا حصہ ہو ۔ ان کے ذریعہ داعی کو مدعو کا فہم حاصل ہوگا ، نیز ان سے گفتگو اور دعوت کا اسلوب بھی سیکھ سکے گا۔ دعوت کی مطلوبہ حکمت اور ان سے بحث ومباحثہ کا فن بھی سیکھ سکے گا ۔

ہ ۔ داعی کی قدر وقیمت :سوسائٹی میں دعاۃ کو بہتر مقام دیا جائے تاکہ ان کی بات سنی جائے اور اسلام کا بول بالا ہو سکے ۔ اس کے لئے درج ذیل صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں:

۔ انہیں انہی جیسے معیار کے لوگوں کے مطابق معقول تنخواہ دی جائے۔ آج علما٫ و دعاۃ کی کمی کا ایک سبب ان کے لئے معقول تنخواہ کا نہ ہونا بھی ہے۔

۔ مناسب قیام گاہ تاکہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ اطمینان بخش طریقہ سے رہ سکے اور آنے والے مہمانوں کا شایان شان استقبال کر سکے اور ان سے دعوتی بات چیت کرسکے ۔

۔ دعوتی کام کے لئے مناسب سواری کا انتظام تاکہ اس میں کسی دقت کا سامنا نہ ہو ۔

۔ جس میدان میں داعی کام کرے وہاں کے بعض کاموں میں ان کی حصہ داری مثلاً قضیوں کے فیصلے ، تعلیم بالغان کی ذمہ داری، فقرا٫ و مساکین میں اعانتوں کی تقسیم وغیرہ ۔

۔ دعاۃ کو حتی المقدور دوسرے کاموں سے فارغ رکھاجائے اور جب تک ممکن ہو اور حالات سازگار ہوں دوسرے کاموں میں مشغول نہ کیا جائے ۔

۔ دعاۃ کے پاس مادی وسائل ہوں جن سے وہ بوقت ضرورت کام لے سکے ۔

۔ ایک وقت میں ایک ہی علاقہ میں ایک سے زائد دعاۃ ہوں تاکہ وہ ایک دوسرے کی مدد سے دعوتی کام کو بآسانی انجام دے سکیں۔ اسی طرح کچھ اصحاب ثروت بھی ہوں جو خارج سے ان کے دعوتی کام کو تقویت پہنچا سکیں ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مخلص دعاۃ و کارکنان کو دعوتی سرگرمیوں کو کامیاب کر نے اور اسے الناس تک کما حقہ پہنچانے کی توفیق عنایت فرمائے اور میرے اس عمل کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے لئے پسند فرمالے آمین ! ثم آمین!
ذوالفقار علی
About the Author: ذوالفقار علی Read More Articles by ذوالفقار علی: 3 Articles with 10568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.