آٹے میں نمک

میرا خیال ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت صرف جھوٹ بولتی نہیں بلکہ جھوٹ سوچتی، جھوٹ کھاتی ،جھوٹ پیتی اور جھوٹ ہنستی بھی ہے حالانکہ آخری بات قوم کے لیے چھوڑدینی چاہیے تھی۔بہت سو کا خیال ہے کہ یہ صلاحیت پہلے صرف پولیس والوں میں پائی جاتی تھی ۔لیکن یہ معاملہ اسی طرح کا ہے ”جیسے مرغی اور انڈے کا“۔بہرحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ پولیس والے وسائل کم ہونے کے باعث سیاست دانوں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔

ملک میں انتخابات کا شور ہے لیکن جوش نہیں، پہلی بار ایسا کچھ ہورہا ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور سیاسی جماعتوں سے زیادہ عام لوگوں میں جوش اور خروش دونوں نظر آرہا ہے۔یہ اس لیے نہیں کہ انہیں ووٹ ڈالنا ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اس باران کا خیال ہے کہ وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق ووٹ ڈالیں گے ۔ان کی خوش فہمی ہے کہ اس بار جب وہ پولنگ اسٹیشن پہنچے گے تو ان کا ووٹ پہلے سے کاسٹ نہیں ہوا ہوگا بلکہ انہیں خود صرف اپنا ووٹ ڈالنا ہوگا۔ماضی میںمختلف شہروں خصوصاََ کراچی میں بعض مخصوص افرادکو اپنے ووٹ کے ساتھ دوسروں کے ووٹ کاسٹ کرنے کی بھی سہولت رہی۔ اپنے ووٹ کے استعمال کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ شائد یہ مزے لینے کی تمنا نے عام لوگوں جذباتی کیا ہوا ہے ۔کراچی میں جو لوگ ایک سے زائد ووٹ ڈال کر اطمینان سے گھر لوٹتے تھے وہ بھی مطمئین ہیں کہ اس بار وہ کسی کا حق نہیں مارسکیں گے ۔اور ان پر زائد ووٹ ڈالنے کا دباﺅ بھی نہیں ہوگا۔

ویسے شفاف انتخابات کے لیے اس بار الیکشن کمیشن کے افسران میں بھی دیکھنے کے قابل جوش ہے۔خیر بات بات ہورہی تھی سیاست دانوں کی۔میرا کہناہے کہ سیاست سے صرف دو طرح کے لوگوں کا تعلق ہوتا ہے ایک وہ جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو ”انسانیت کی خدمت “کے الفاظ کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا گر جانتے ہیں۔

دورِ حاضر کے سیاست دانوں میں دوسرے اقسام کی تعداد زیادہ ہے۔”حرکت میں برکت“ ہوتی ہے اس لیے عام افراد کو دونوں طرح کے سیاست دانوں سے انفرادی فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔اجتماعی فوائد صرف غالب سیاست دانوں تک محدود رہ جاتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ان کے پہلے دو تین سال کے لیے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ پھر انہیں تیاری کے لیے دو اور تین سال کا موقع فراہم کیا جاتا تھا لیکن اب پورے پانچ سال کے لیے مجالس ہوتی ہیں۔ پورے پانچ سال جمہوریت کے مزے لوٹنے کا موقع ان ہی لوگوں کے تعاون سے ملا جو پہلے ان سیاست دانوں کو پونے دو سال ، ڈیڑھ سال یا ڈھائی سال تک حکومت کرنے کا چانس دیا کرتے تھے اور پھر اتنا ہی آرام کرنے کا بھی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس کو جتنا موقع ملا اتنے ہی فوائد حاصل کیئے ۔مگر قوم اپنے فوائد کا انتظار کرتی رہی جیسے ماضی میں ۔بہرحال قوم کو مبارک ہو کہ حال ہی میں اس کو پانچ سالہ جمہوریت پوری کرنے کا تمغہ ملا۔جس ملک میں قوم کو دکھ، دلاسے اور یقین دہانیاں ملتی رہیں ہوں اس ملک کے لیے ” پانچ سالہ جمہوریت کی تکمیل “ کا تمغہ ہی بہت ہے۔سنا ہے جمہوریت جس ملک میں ہوتی ہے وہاں ملک اور قوم ترقی کرتی ہے۔۔۔۔اس مطلب ہے کہ ہمیں مزید اسی طرح کی جمہوریت دیکھنا ہوگی۔۔۔۔اللہ رحم کرے۔

پوری قوم روٹی ، کپڑا اور مکان کی تلاش میں 60سال تک مصروف رہی اور تجربہ بھی حاصل کیا پھر پہلی بار پانچ سال کے لیے جمہوریت آئی تو لوگوں کو ” امن و سکون “ کی تلاش کا کام بھی مل گیا۔ اس کام کی تلاش میں لوگ جمہوری حکومت کے بریک پر جانے کے بعد بھی سرگرداں ہیں۔ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس کام پر بچے بوڑھے ، جوان اور بیمار بھی لگے ہوئے ہیں ۔ کسی سے بھی پوچھیںکیا کررہے ہو؟ جواب ملتا ہے ” سکون تلاش کررہا ہوں “ دوسرا فوراََ جواب دیتا ہے اچھا تمھاری مصروفیت بھی میری جیسی ہے۔

جس ملک میں امن و امان نہ ہو، سی این جی ناغے کے نظام سے ملے اور بجلی بغیر کسی نظام کے ملے ۔۔۔۔ ملے تو صرف سڑکوں پر لٹیرے اور ڈاکو ملے وہاں کے لوگ کیسے سکون سے رہ سکتے ہیں؟

یہ سب کچھ ان سیاست دانوں کی وجہ سے ہوا ہے جن کا میں نے کالم کے آغاز پر ذکر کیا ہے۔۔۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے صحافی وٹی وی اینکر سلیم صافی نے پوچھا کہ بے نظیر کو کس نے قتل کیا؟ جواب ملا کہ امریکہ کے صدر بش نے بتایا تھا کہ بے نظیر کے قتل میں بیت اللہ محسود ملوث ہے۔ظاہر ہے جب امریکہ یا امریکی صدر یہ بات کہہ دے تو پھر کسی کی کیا مجال کے ان سے بحث کرے ، سو گیلانی صاحب بھی خاموش ہوگئے۔سیاست دان ہیںکسی صحافی کو خاموش کرانے کے لیے سیاست کے ” ٹول بکس “ سے اس کے معیار کا جھوٹ کا پانا نکال کر اسے استعمال کرنا انہیں آتا ہے۔آج کل صحافی ہر اس سیاست دان کے ”گلے پڑرہا ہے “ جس نے ملک کے 65 سالوں میں صرف گزشتہ پانچ سال مزے لیے ۔۔۔جمہوریت کے۔۔۔۔جمہوریت کم ڈکٹیٹر شپ کاساتھ دینے والے چوہدری برادران اور ” بھائی لوگوں “ کے تو کوئی منہ لگنا ہی نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب ہی اپنا منہ بچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔”بھائی لوگوں “ کا سیاست کرنے اور لوگوں کو سمجھانے کا ٹول بکس کافی بڑا ہے اس میں ہر طرح کے پانے ہیں ایک نمبر سے لیکر سو نمبر تک کا پانا ان کے پاس دستیاب ہے۔۔۔سب کے سب برطانیہ سے ہوکر آتے ہیں ۔ ضرورت پڑنے پر بوری کا استعمال بھی یہ کرلیا کرتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں بوری کی ” تخلیق “ ان ہی کی ہے۔ چوہدری برادران کی بات الگ ہے ۔۔۔جی ہاں چوہدری شجاعت صاحب جو بات کرتے ہیں اسے سمجھنے کے لیے ابھی تک ایسی کوئی ڈکشنری یا لغت سامنے نہیں آسکی۔شائد اسی کا فائدہ وہ اٹھارہے ہیں۔

بے نظیر کے قاتلوں کے حوالے سے مجھے یاد آیا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے ان کی تیسری برسی کے موقع پر کہا تھا کہ ” مجھے بی بی کے قاتلوں کا پتہ ہے لیکن بتاﺅں گا نہیں“۔ بس یہ ایک جملہ ایسا تھا کہ جس سے لگتا ہے کہ سیاست میں سچ بھی ہوتاہے ، لیکن آٹے میں نمک کے برابر۔۔۔۔انتخابات کے قریب ہماری تو سب سے یہ ہی گزارش ہے کہ ” سیاست دانوں کی باتیں ، دعوے اور وعدے ”آٹے میں نمک“ کے فارمولے کے تحت سنیں اور ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔۔۔۔۔۔سیاست دانوں کے ”آٹے میں نمک“ میں آٹا کتنا ہوگا وہ تو آپ کو کالم کی ابتدائی سطور سے اندازہ ہوگیا ہوگا۔اتنے تو سمجھ دار ہیں نا۔۔۔۔۔؟۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 153073 views I'm Journalist. .. View More