ن لیگ تکبر میں یا ۔۔۔

الیکشن ایک قومی فریضہ ہے ۔الیکشن قریب آتے ہی سیاستدان عوام کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور سر کا تاج سمجھنے لگتے ہیں۔ عوام کی ہر پریشانی کو اپنی پریشانی اور ہر دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔الیکشن کی تاریخ آتے ہی سیاستدان ووٹروں کی راہ میں اپنا دل ایسے بچھانے لگے جیسے کسی شادی بیاہ میں قالین بچھائے جاتے ہیں۔ آج شہر شہر گاؤں گاؤں ہر طرف امیدواروں کی چہل پہل ہے ۔ڈور ٹو ڈور(door to door) دن رات محنت کی جارہی ہے ۔الیکشن کی تاریخ سے پہلے سیاسی جماعتوں کے قائد ین آپس میں ملاقات کرکے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے نظر آرہے تھے۔ ہر سیاسی پارٹی کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی پارٹی سے اتحاد کرلے اور اگر اتحاد نہ ہوسکے تو پھرکم ازکم ایڈجسٹمنٹ توضرور ہوجائے۔
چند ماہ پہلے پاکستانی سیاسی جماعتوں کے متعلق عالمی سطح پرمیڈیا، این جی اوز کے ذریعے سروے بھی ہوتے رہے۔ ان سرووں میں کبھی تحریک انصاف تو کبھی ن لیگ نمبر 1بنتی رہیں۔ جب پہلی بار تحریک انصاف کو نمبر ایک پوزیشن ملی تو یہ پھولے نہیں سما رہے تھے اورآنے والے وقت میں اپنی حکومت یقینی سمجھ رہے تھے بلکہ ان کے قائد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پی ٹی آئی آئندہ الیکشن میں کسی سے اتحاد نہیں کرے گی اور تنہا الیکشن لڑے گی۔ پھر دوبارہ سروے ہوا تو اس میں انہوں نے ن لیگ کو نمبر 1قرار دے دیا۔ اس کے بعد ن لیگ میں بھی تکبر کی بو نظر آنے لگی۔

اب جب کہ الیکشن بھی قریب سے قریب ترہے اس وقت عوام کون لیگ کی پالیسیوں میں تکبر نظرآنے لگا ہے۔ میاں نواز شریف ایک ملنسار اور محب وطن انسا ن ہیں۔ نہ جانے پھر آج کل وہ کونسی ڈگر پر چل پڑے ہیں جو ان کے ووٹر کو پریشانی کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ پچھلے دنوں میاں نواز سے پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین(مولانا فضل الرحمن،جماعت اسلامی، ہم خیال گروپ، اچکزئی، پلیجواور دیگر) نے ملاقاتیں کی اور کافی حدتک یہ تاثر مل رہا تھا کہ ان کے درمیان ایک سیاسی اتحاد بننے جارہا ہے پھریکدم وہ اتحاد بننے سے پہلے ہی ٹوٹتا نظر آیا۔ یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے یا ان سیاستدانوں کو معلوم ہوگاان ملاقاتوں کے باوجود کوئی مثبت پہلو کیوں نہیں نکلا۔

بحرحال اس وقت پاکستان بھر میں ہر دوسری سیاسی پارٹی ن لیگ پر تکبر کی انگلی اٹھا رہی ہے ۔ ن لیگ کی غلط پالیسیوں نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا۔ چند دن پہلے مولانافضل الرحمن نے اپنے بیان میں ن لیگ کے طرزعمل پر افسوس کیا اور کہاں کہ ن لیگ وعدہ پر پورا نہیں اتری ۔ اس کے بعد ہم خیال گروپ کے لوگ بھی ن لیگ کے رویے سے نالاں تھے اور وہ اسی بنا پر کچھ اور سوچنے پر مجبور ہورہے ہے اور اب جماعت اسلامی سے بھی راہیں جد اہوچکی ہیں۔ الیکشن اس وقت تنہا لڑنے کی پوزیشن میں کوئی بھی جماعت نہیں۔ میاں صاحب ذرا پیچھے نظر دوڑائیں تو ایسے اتحاد کی وجہ سے ہی زرداری اینڈ کمپنی نے پانچ سال مکمل کیے ۔ اگر آپ ان سروے کی وجہ سے (اللہ نہ کرے کہ آپ میں تکبر ہو)اونچی پرواز کررہے ہیں تو یہ آپکے شان شایان نہیںاور اگر آپ کے مشیر آپ کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ن لیگ کی پاکستان میں بڑی اچھی پوزیشن ہے اور ہم تنہا ہی الیکشن جیت کر اپنی حکومت بنا سکتے ہیں تو یہ مشیر آپ کی حکومت نہیں بنوا رہے بلکہ آپ کو ذلیل و رسوا کرا رہے ہیں۔

اتفاق میں برکت ہے اور یہ ہم بچپن سے پڑھتے چلے آرہے ہیں اور اس میں کوئی جھوٹ بھی نہیں یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ جن میں اتفاق نہیں ہوتا وہ کہیں کے نہیں رہتے ۔ ن لیگ کو چاہیے کہ کم از کم اپنے ان دوستوں کو ساتھ رکھے جب وہ اپوزیشن میں اس وقت ان کے ساتھ تھے جب کوئی نہیںان کے ساتھ تھا۔جماعت اسلامی اور ن لیگ کے نظریات ایک جیسے ہیں ۔ ان کو ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا چاہیے کیونکہ سنا جارہا ہے کہ پی پی اور اس کے اتحادیوں نے تحریک انصاف( عمران خان) کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ نواز شریف کو پنجاب میں حکومت نہ بنانے دی جائے۔ ن لیگ کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ جس طرح صوبہ سند ھ میں فنگشنل لیگ اور پلیجو سے مل کر اور بلوچستان میں اختر مینگل اور اچکزئی سے ملکر الیکشن لڑ رہے ہیں اسی طرح پنجا ب میں جماعت اسلامی اور ہم خیال گروپ کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے تاکہ جن سیٹوں پر کوئی شک ہے وہ بھی ن لیگ یا ان کے اتحادی کی کنفر م ہوسکیں۔ صوبہ خبیر پختونخواہ میں بھی کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد ضروری ہے۔ ورنہ وہاں پر اے این پی سے زیادہ پی ٹی آئی مضبوط نظر آرہی ہے۔

آج کل کا جو سیاسی حالات حاضرہ ہے اس کے مطابق کچھ قوتیں پھر ن لیگ کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے سرگرم ہوگئیں ہیں۔وہ نہیں چاہتی کہ نواز شریف پھر وزیراعظم بنے۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے اپنی قول و قرار کو پورا کریں ورنہ عوام ابھی سے بد زن ہوتی نظر آرہی ہے کہ جو اقتدار میں آنے سے پہلے ہی وعدہ خلافی کررہا ہے وہ بعد میں پتا نہیں کیا کرے۔ اور اس کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کو آپ پر تنقید کرنے کا ایک نیا ایشو مل جائے گا۔ن لیگ اور میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ اپنے مخالفین کا منہ بند رکھنے کے لیے ملکی مفاد کے لیے مثبت فیصلے کریںتاکہ مخالفین ان کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں اور میاں صاحب کو حکومت بنانے کا موقع مل سکے۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 147 Articles with 111084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.