مفت مشورہ

سولہویں صدی کا آخری نصف ملکہ الزبتھ اول کا دور تھا اور اُس دور کی خاص بات چمچوں کی بے پناہ مقبولیت اور اہمیت تھی۔ اس دور کے اُمرا اپنے پاس انتہائی خوبصورت اور نفیس چمچ رکھتے۔ اُن چمچ کے سرے پر کوئی اچھی سی شبیہ بنی ہوتی۔ اُس دور کے اُمرا اور خواص پارٹیوں میں شرکت کے وقت جیبوں میں چمچ سجا کر جاتے اور کھاتے وقت اپنا چمچ نمایاں کر کے اور لوگوں کو دکھا کر ستعمال کرتے۔ بعض لوگ ایک سے زیادہ چمچ اپنے پاس رکھتے اور بڑے فخر سے دوستوں کو بھی استعمال کے لیے پیش کرتے۔ چمچ اور وہ بھی خوبصورت چمچ اس دور کے خواص اور امرا کی شان کی علامت تھا۔ چمچ رکھنے والی شخص عالی مرتبت شمار ہوتا اور لوگ اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

البزبتھ اول کے دور میں چمچوں کا مقام انتہائی بلند تھا۔ مگر چونکہ ہر عروج کو بہرحال ایک وقت میں زوال ہے۔ اس لیے سولہویں صدی کے خاتمے کے ساتھ ہی چمچوں کا دور بھی ختم ہو گیا۔ گو چمچے ختم نہیں ہوئے مگر اُن کی اہمیت اور شان جس کے حوالے سے امرا اور خواص اپنے مرتبے میں اضافہ کرتے تھے وہ ختم ہو گئی وہ شان بھی گئی ۔ نفیس اور خوبصورت چمچ عجائب گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے۔ عام اور سادہ سے چمچ معاشرے کے ہر شخص کی پہنچ میں ہو گئے۔ وہ چمچ جو کبھی ایک باوقار چیز تھا اب نئے ماحول میں ایک مذاق بن گیا۔

کیمرج یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی میں چمچ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ پوزیشن حاصل کرنے والے طلباءجو جہاں رول آف آنر ، گولڈ میڈل اور دیگر انعام دیئے جاتے ہیں۔ اُسی طرح ریاضی کے پاس ہونے والے طلباءمیں سے ایک کو جس کو پہلی پوزیشن حاصل ہوتی ہے اوپر سے نہیں نیچے سے۔ یعنی وہ طالب علم جو پاس تو ہو جاتا ہے مگر سب سے کم نمبر حاصل کرتا ہے۔ اُسے ایک لکڑی کا بنا ہوا چمچ انعام کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اُسے (Bobby Prize) یعنی مزاحیہ انعام کہتے ہیں۔ لیکن انعام تو بہرحال انعام ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی اپنی ایک اہمیت اور عالمی شہرت ہے۔

پاکستان کو وجود میں آئے 66برس ہونے والے ہیں۔ اس تمام عرصے میں ہمارا سیاسی کلچر بھی عجیب رہا ہے۔ خصوصاً پچھلے پچاس برس۔ اس دور کو ہم سیاسی چمچوں کا دور کہہ سکتے ہیں۔ ہر بڑے لیڈر کے گرد ایک زبردست ہجوم اور اس ہجوم میں کسی بھی شخص میں اپنی سوچ اپنا انداز فکر نہیں خوبی فقط ایک کہ وہ زبردست ”چمچہ“ اور کچھ نہیں۔ اور لیڈر بھی اپنے چمچوں پر نازاں ہی نہیں بلکہ اُن کے دم سے اپنی لیڈری مستحکم کرتا اور معاشرے میں باعزت جانا جاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہر چمچہ جو اپنے لیڈر کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے اور لیڈر کی موجودگی میں انتہائی مسکین اور معصوم نظر آتا ہے۔ باہر نکلتے ہی پوری طرح رنگ بدل لیتا ہے۔ اب وہ لیڈر ہوتا ہے اور اس کے گرد اُس کے اپنے چمچوں کا اک گروہ۔ جس طرح درخت کے تنے سے کچھ بڑی شاخیں نکلتی ہیں۔ اُن شاخوں سے مزید شاخیں اور پھر مزید شاخیں۔ اسی طرح ہمارا سیاسی کلچر مفادات کے درخت کی طرح ہے جس سے جی حضوریوں کی لدی پھندی شاخیں ہر سو پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ کلچر اس قدر گھناؤنا ہے کہ شرم آتی ہے مگر شرم تو ایک احساس ہے ۔ اور یہ احساس پورے سیاسی کلچر میں مفقود ہے۔

بھلا ہو ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا۔ لوگ کچھ بھی کہیں مگر یہ علامہ صاحب کا احسان ہے کہ انہوں نے دفعہ 62اور 63کو جگا دیا۔ جس سے ہمارے بوسیدہ سیاسی کلچر پر ایک کاری ضرب آئی ہے۔ گو اس کے استعمال کا انداز ایسا ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس پر اعتراض ہے مگر اس کے باوجود پہلی دفعہ اسمبلی میں کافی تعداد میں ایسے لوگوں کے پہنچنے کی اُمید ہے جو ذاتی طو رپر بھی کچھ سوچ رکھتے ہوں گے۔ جن کا کچھ ویژن ہو گا۔ جو اس قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کی تمنا رکھتے ہوں گے اور سب سے بہتر بات یہ کہ چمچوں میں شمار نہیں ہوتے ہوں گے۔

عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے بڑے لیڈر ابھی تک اس بدلتی صورتحال کا ادراک نہیںرکھتے ۔ وہ اب بھی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ وہ ٹکٹوں کی خریدو فروخت سے کروڑوں روپے کمار ہے ہیں اور اپنے چمچوں کی نمائش سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انہیں بدلتے وقت کا احساس ہی نہیں وہ اب بھی پرانی ڈگر پر گامزن ہیں او رپرانے حربے آزما رہے ہیں۔ مگر اب چمچوں کے عروج کا درو ختم ہو رہا ہے گو یہ عمل کچھ سست سہی مگر بہت جلد قوم کو اس قماش کے لیڈروں سے نجات ملنے والی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور PHAنے الیکشن کے دوران سڑکوں پر بینر لگانے پر ٹیکس عائد کر دیا ہے جو کہ خاصہ زیادہ ہے۔ جو لوگ ٹکٹ پر کروڑوں خرچ کر رہے ہیں۔ انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک آدھ کروڑ LDAیا PHAکے نام بھی سہی۔ مگر جماعت اسلامی والے چن کر وہ امیدوار لاتے ہیں جن کے لیے عام اخراجات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اُن کا احتجاج بجا نظر آتا ہے۔ برادرم فرید پراچہ نے بہت لمبے چوڑے اعدادو شمار دیئے کہ الیکشن کمیشن کو پتہ چلے کہ اُن کی دی ہوئی اخراجات کی حد تو LDAیا PHAکی نذر ہو جائے گی۔ امیدوار کے پاس باقی کے کیا رہے گا ۔فرید پراچہ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جس طرح پانی کے آگے لاکھ بند باندھے جائیں وہ اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ آپ بھی سوچیں ایڈورٹائزنگ کے بے پناہ جدید طریقے ہیں کوئی نیا طریقہ ڈھونڈیں۔ احتجاج کمزوری کی نشانی ہے اور آپ اور آپ کے ساتھی تو حوصلے کا نشان ہیں۔ 1984ءمیں کینیڈا کے ایک شہری نے شہر میں چلتی پھرتی اپنی بھینسوں کا بدن کرائے پر دے دیا تھا کہ امیدوار اُن پر اشتہار بازی کریں اور یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا تھا۔ لاہور میں تو یہ چیز شاید مفت درکار ہو جائے اس کے بارے میں بھی سوچیں ۔ ایک نیااور اچھوتا تجربہ ہو گا اور عوام میں بے پناہ مقبول بھی ۔میرا یہ مشورہ بھی مفت ہے اور قیمتی بھی۔
تنویر صادق
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 446055 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More