آئین پاکستان پر عمل ردآمد کا زمانہ

پاکستان میں الیکشن گہماگہمی ہے ہر سیاسی؍دینی جماعت نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے نمائندں کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیا ہے اس دفعہ ملک میں آئین کی ۶۲ ۔ ۶۳ دفعہ کا غلغلہ ہے نمائندوں سے ریٹرنگ آفیسر زاسلام سے متعلق مختلف سوالات کر رہے ہیں اور بڑی دلچسب صورت حال پیدا ہو گئی ہے اس سے قبل جماعتوں کے نمائندے تمام برائیوں میں ملوث ہوتے ہوئے بھی اپنے پیپرز جمع کروا لیتے تھے اور کوئی پوچھ گوچھ نہیں ہوتی تھی اس دفعہ ۶۲۔۶۳ کی چھلنی سے صاف ہو کر ہی الیکشن میں حصہ لے سکیں گے ایک اچھی اُمید پیدا ہو چکی ہے نظریہ پاکستان پر کاربند، آئین کے خلاف اقدام، اسلام تعلیمات سے ناواقف،قومی خزانہ لوٹنے والے، بنکوں کے مقروض،مالیاتی اداروں کے نائندگان، جرائم میں ملوث ، جعلی ڈگری اور سزا یافتہ افراد الیکشن میں حصہ لینے کے نااہل قرار دئیے جا رہے ہیں۔ملک بھر سے کافی تعداد میں امیدوار ان مختلف وجوہات کی بنا پر نااہل قرار دئیے جا چکے ہیں ایک صاحب نظریہ پاکستان کو خلاف ۲ کالم لکھنے کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا ہیں ڈکٹیٹر مشرف صاحب ججوں کو قید کرنے کے کی وجہ سے این اے ۲۵۰ کراچی سے نااہل قرار دئیے جا چکے ہیں اسلام ٓباد اور قصور سے بھی نااہل قرار دئے جا چکے ہیں چترال کاغذات نامزدگی منظور ہوئے اس پر بھی تمام سیاسی اور وکلا تنظیموں نے ٹریبونل میں جانے کا فیصلہ کیا ہے راولپنڈی سے راجہ پرویز اشرف صاحب بھی نااہل قرار دئیے جا چکے ہیں۔

صاحبو!یہ ایک اچھی اور صحیح شروعات ہیں پوری دنیا اور پاکستان میں رائج موجودہ مغربی طرز جمہوریت جو کچھ حد تک صحیح ہے اس کو پروان چڑھانے والے مغربی ممالک نے اسے اپنے حالات کے مطابق مادر بدر آزاد طرز پر ترتیب دیا ہے ۔اگراس میں اسلامی جمہوریت کے اجزا شامل کر دئیے جائیں تو یہ پاکستان اوراسلامی دنیا میں صحیح طریقے سے قابل قبول ہو گی اور اسلامی دنیا کے بہت بڑے دیندار حصے جو موجودہ سیاست کو پسندنہیں کرتا اور الیکشن سے اسلام کے نفاذ کے طریقے سے باغی ہے اس پروسس میں شامل ہو جائے گا جو اسلامی دنیا میں ایک جوہری تبدیلی ہو گی۔پاکستان آئینی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے عوام کو اسلام کے پابند نمائنددوں کو چننا چائیے تاکہ اسلام کے مزاج کے مطابق اور مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست اوربعد میں خلفائے راشدین ؓ نے جس طرح اس فلاحی حکومت کو چلا کر دنیا کے سامنے مثال قائم کی تھی جو امت مسلمہ کی امنگوں کے مطابق ہے کی طرف صحیح سمت رواں دواں ہو۔ پاکستان بننے کے بعد مغرب زدہ حکمرانوں نے اس کی اصل منزل لا الہ اﷲ جس پر پاکستان وجود میں آیا تھا کو تبدیل کرنے اور اسے سیکولر اسٹیٹ بنانے میں سازشیں شروع کر دی تھیں جو اب تک جاری ہیں مگر ہمارے بزرگوں نے پاکستان بنتے ہی اسلامی آئین کی جدوجہد شروع کر دی تھی اس میں کافی محنت مشقت اور جیلوں میں قید کی مصیبتیں برداشت کر کے اسلامی آئین کی بتدریج آبیاری کی تھی پہلے پاکستان میں آئینی جدوجہد کے ذریعے قراداد مقاصد کو آئین میں شامل کروایا گیا اس کے بعد مسلسل جدوجہد کر کے ۱۹۷۳ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران موجودہ اسلامی آئین ایک حقیقت کے روپ میں سامنے آیا اس آئین کے تحت کوئی بھی غیر اسلامی قانون نہ تو بن سکتا ہے نہ ہی پاکستان میں اس پر عمل ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی بھی غیر اسلامی دفعہ شامل ہے تو اسے ختم کیا جاسکتا ہے مگر اس کے باوجود اس اسلامی آئین پر عمل نہیں گیاسب سے بڑی بات سود کی ہے سود اﷲ اور رسول ؐ کے خلاف جنگ قرار دیا گیاہے آج تک اس پر عمل نہیں کیا گیا شریعت کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا تھا نواز شریف صاحب کی حکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کروا دی تھی جس نے اس معاملے کو لٹکا دیا گیااور ابھی تک ملک میں آئین کے خلاف سودی نظام چل رہاہے۶۲۔۶۳ آئین کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا بلکہ اس کو مذاق بنا دیا گیا اب جب اس پر عدلیہ نے عمل درآمند کروانے کا عمل شروع کر دیا ہے تو مختلف قسم کی سوچ رکھنے والے دانشور، نظریہ پاکستان کے مخالف،کالم نگار، سیاست دان اور اسلام بیزار اس پر اعتراضات کر رہے ہیں کچھ نے کہا کہ ۲۰ ترمیم کے وقت سیاست دانوں نے ۶۲۔۶۳ ختم کیوں نہ دیا۔کچھ کالم نگار اس کو متنازہ بنانے کے لیے کالم لکھ رہے ہیں اور اسے تماشہ قرار دے رہے ہیں کچھ ٹی وی شوز میں اس کے خلاف بول رہے ہیں ایک مسلمان کودعائے قنوت یاد ہونی چائیے چھ کلمے یاد ہونے چائیے نماز کی رکعتیں یاد ہونے چائیے سب بنیادی باتیں جو اسلام نے مسلمان پر فرض کی ہیں ایک بہتر مسلمان کو معلوم ہونی چائیے اور اس پر عمل بھی کرنا چائیے ہاں البتہ اس پر بات ہو سکتی ہے کہ پہلی دفعہ ان چیزوں کے متعلق پوچھا جا رہا ہے اس لیے ہاتھ ہولی رکھنا چائیے تھااور ضروری سوالات کرنے چاہیں غیر ضروری سوالات نہیں کرنے چاہیں الیکشن کمیشن ایسے سوالات کرنے سے تحریری طور پر منہ بھی کر دیا گیا ہے اور صرف ۶۲۔۶۳ کے تحت سوال کرنے کا کہا ہے انشا ء اﷲ آئندہ کافی حد تک ٹھیک ہو نے کا امکان ہے نمائندوں سے امین ہونے، قرضوں کا نادئندہ ہونے ،قرضے معاف کروانے، سزا یافتہ ہونے جعلی ڈگری اور کرپشن کے متعلق سوالات ضرور ہونے چاہیں خیر اب تو یہ پروسس اب ختم ہی ہو گیا ہے۔ اﷲ کرے الیکشن وقت پر ہو جائیں۔اُدھر امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ گذشتہ مختلف الیکشن میں جماعت کے تقریباً ۱۰۰۰ نمائندے منتخب ہوئے تھے مگر اﷲ کا شکر ہے کسی پر بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا اب بھی تمام نمائندے ۶۲۔۶۳ پر پورے اترے اور ان کے کاغذات منظور ہو گئے اس میں جماعت اسلامی کے علاوہ اور بہت سے لوگ بھی شامل ہیں پون صدی سے اپنے ہاتھ روکے رکھنے والوں کو ۶۲ ۔۶۳ پر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی طرف سے عمل درآمد کی شروعات اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

قارئین ! اﷲ کا شکر ہے کہ ایک صحیح سمت میں شروعات ہو چکی ہے اگر اس الیکشن کے ذریعے بہتر نمائندے منتخب ہو گئے اور اگر ہم نیکی پر عمل پہرا ہو گئے تواﷲ آسمان سے بھی ہمیں رزق دے گا اور زمین بھی خزانے اُگل دے گی کرپشن ختم ہو جائے گی ہم دوسری قوموں کے سامنے امداد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے ہم قرضوں کے جال جو یہودی سوکاروں نے دنیا میں پھیلا رکھا ہے نجات پانے کے قابل ہونگے آج پاکستان کا ہر بچہ ۸۰ ہزار کا مقروض ہے اس پرغور کرنے کی ضرورت ہے ملک میں دہشت گردی ہے بجلی گیس کی ملک کی ضرورت سے کمی اورلوڈ شیڈنگ کا عذاب امن وآمان نہیں دوسرے ملکوں کے جاسوس ہمارے ملک میں دہشت گردی کر رہے ہیں ہمارے تعلیمی نظام سے نظریہ پاکستان اور اسلامی مضامین کا اخراج کیا جا رہا ہے مسلمانوں کو ہی دہشت گرد ی کا لیبل لگایا جا رہا ہے اسلام امن کا دین ہے اس پر انتہا پسندی کا لیبل لگایا جا رہاہے آئیے ہم عہد کریں کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں گے ملک پاکستان کو صحیح اسلامی جمہوریہ پاکستان بنائیں گے موجودہ الیکن اگر صحیح ہو گئے تو یہ پاکستان کے لیے نیک شگون ہو گا اﷲ ہمارے ملک کا نگہبان ہو آمین
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 957356 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More