اسلامی شریعت کا نفاذ

اسلام کا شمار دنیا کے سب سے تیزی سے پھیلے والے مذہب میں ہوتا ہے جو بغیر کسی طاقت کے زور پر پھیلا تھا اور اب بھی پھیل رہا ہے۔ پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور اس میں رہنے والے بیشتر لوگ مسلمان ہیں جو کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کر رہے ہیں اور کرنے کے خواہشمند بھی ہیں۔اور اسی وجہ سے ہمارا ملک دیگر اقوام کی طاغوتی طاقتوں اور چند ناعاقبت اندیش لوگوں کا نشانہ گزشتہ چند سالوں سے بنا ہوا ہے۔ اور ان لوگوں کی پاکستان کو ہر پل ہر لحاظ سے کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن ابھی تک ہم اپنے دشمنوں سے آگاہ نہیں ہو سکے ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ یا پھر یوں کہیے کہ ہم جان بوجھ کر اپنے آپ کو ڈسوانے کے عادی ہو چکے ہیں؟

پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے سلسلے میں خاطر خواہ اقدامات جیسے کرنے چاہیے تھے نہ کئے جا سکے ہیں۔ یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ اس ملک کا حصول اسلام کے نام پر ہوا تھا اور یہ مسملمانوں کا ملک ہے۔ اسلام کو زبردستی نہیں بلکہ پیار و محبت کی جنگ سے لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنے کی ضرورت ہے اس کے بعد کسی کو اسلام کو نفاذ کی ضرورت کسی کو نہ پڑے گی جب لوگ خود اسلام کی باتوں پر عمل کریں گے۔اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ حکمران سمیت سب کہتے ہیں عمل نہیں کرتے سب کو عمل کرنے کی ہدایت کی ضرورت ہے۔اللہ بھی کی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنا چاہیں۔ لیکن گزشتہ ساٹھ سالوں میں کسی حکومت یا سیاستدان یا مذہبی رہنما نے بھی کوئی ایسی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ وہ یہاں بسنے والوں کے درمیان کم ازکم جو آپس کی فرقہ واریت ہے اس کو ختم کر سکیں اور اسی وجہ سے مولانا صوفی محمد اورانکے ساتھیوں نے ازخود اسلام کو ناٍفذ کرنے کے لئے مختلف اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے ہیں۔اور اسلام کے شرعی قوانین نافذ نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے؟ کیا اسلام میں زور زبردستی سے شرعی احکامات پر عمل درآمد کروانے پر ضرور دیا گیا ہے؟ کیا ہم نے اللہ کے حضور پیش نہیں ہونا ہے؟ ہم اپنے اعمالوں کے جوابداہ خود ہونگے؟ اپنی پیدائش کے مقصد حیات سے قطع نظر کر کے اپنے خدا اور رسول کے احکامات کی نافرمانی کر کے کیا ہم راہ حق پر چل سکتے ہیں؟ ہم لوگ آپس میں ایک ہی دین کے پیروکار، ایک ہی رسول اور خدا کو ماننے والے، قرآن مجید کو آخری الہامی کتاب ماننے والے ہو کر آپس میں ہی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں اور اس چپقلش سے دوسر ے مذاہب ﴿یہود و نصاریٰ﴾ کے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اور انہی کی کارستانیوں کی وجہ سے ہم لوگ ایک دوسرے کی نفرت کا شکار ہیں کیا اسی میں ہماری فلاح ہے؟ کیا انہی کاموں کی بدولت ہماری آخرت میں نجات ہوگی؟ ہم جانتے ہیں کہ گمراہی کے راستہ پر چل رہے ہیں پھر بھی دوسروں کو بھی ایسی راہ پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں جو سراسر نقصان کا باعث ہے۔

اسلام سب کے ساتھ رواداری کا حکم دیتا ہے لیکن اسلامی شریعت کے نام پر پگڑی کے مخصوص رنگ کا اعلان کس بات کی نشاندہی ہے؟ کہیں مختلف مسلک کے درمیان قرقہ ورایت تو کرنے کا ارادہ تو نہیں بنا رہا ہے؟خدارا اسلام کو محض چند مقاصد کے حصول کےلئے بدنام مت کیجئے پاکستان میں مسلمان لوگ ہی بستے ہیں ان پر شرعی احکام کے نافذ سے قبل ہر کسی کو اپنے مکمل طورپر اسلامی تعلیمات پر عمل درامد کرنے بھی دوسروں پر اسکے نافذ اور عمل درامد کروائے ورنہ عقل و دانش اور لوگ بھی رکھتے ہیں اور دین کو سمجھتے بھی ہیں۔آپس میں دست وگریبان سے زیادہ ضرورت کفار کا مقابلہ کرنا اہمیت کا حامل ہے اور یہ کہ براہ کرم اپنے نقطہ نظر کو مثبت رکھیں اور دوسروں کو بھی آگاہ کیجئے۔اللہ ہم پر رحم فرمائے(آمین)۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 484117 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More