انسان کے ہاتھوں قدرتی حیات کی زبردست تباہی


ہوائی کی اس مخصوص مرغابی کی نسل کے صرف 28 پرندے باقی رہ گئے ہیں

جس تیزی سے دنیاسے جانوروں اور پودوں کی نسلیں معدوم ہو رہی ہیں، اس سےبعض ماہرینِ حیاتیات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس وقت ہم چھٹی عالم گیر معدومیت کے دور سے گزر رہے ہیں۔

 

چھٹی معدومی اس لیے کہ اس سے قبل زمین کی ساڑھے چار ارب سالہ تاریخ کے دوران دنیامیں پائے جانے والے جانداروں کی نسلیں پانچ عظیم عالم گیر معدومیوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ یہ تباہیاں زبردست زلزلوں اور زمین سے سیارچوں کے ٹکرانے سے ہوئی تھیں۔

اس قسم کی ایک عظیم معدومی ساڑھے چھ کروڑ سال قبل اس وقت واقع ہوئی تھی، جب ایک بڑا سیارچہ زمین سے آ ٹکرایا تھا۔ ماہرینِ ارضیات کہتے ہیں کہ اس ٹکراؤ سے اربوں ٹن مٹی اور دھواں فضا میں پھیل گیا جس سے سالہا سال تک سورج کی کرنیں زمین تک نہیں پہنچ سکیں۔

 اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ دنیا بھر کا درجہٴ حرارت یک لخت گر گیا،یعنی ’گلوبل کولنگ‘، اور دوسرے، پودوں پر شدید منفی اثر پڑا کیوں کہ پودے سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ پودے نہ رہے تو انھیں خوراک بنانے والے جانور بھی فاقہ کشی کا شکار ہو گئے۔
 

اس ہول ناک حادثے میں یوں تو ہزاروں دوسری نوع کے جانور بھی فنا ہو گئے لیکن اس کا سب سے مشہور شکار ڈائنوسار تھے۔ بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ڈائنوساروں کی تمام نسلیں اسی حادثے کی تاب نہ لا کر صفحہٴ ہستی سے مٹ گئیں۔

 

لیکن موجودہ دور میں نسلوں کی اس بڑے پیمانے پر معدومی کسی قدرتی آفت کے ذریعے نہیں، حضرتِ انسان کے ہاتھوں پیش آ رہی ہے۔

موجودہ عظیم معدومی کی حالت یہ ہے کہ 1993ء میں ہارورڈ یونی ورسٹی کے سائنس دان ای او ولسن کے اندازے کے مطابق ہر سال 30 ہزار سے زیادہ نسلیں معدوم ہو رہی ہیں۔ اور اگر اسی تعداد کو گھنٹوں پر تقسیم کریں تو رونگٹے کھڑے کر دینے والے اعداد و شمار سامنے آتے ہیں، کہ ہر گھنٹے میں تین قسم کے جاندار فنا ہو رہے ہیں۔ تاہم کچھ سائنس دان کہتے ہیں کہ صورتِ حال ولسن کے اندازے سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہے۔

اس چھٹی معدومی کا آغاز دس ہزار سال مشرقِ وسطیٰ میں زراعت کی ایجاد سے ہوا۔ اس کی وجہ سے زمین  پر زندگی کی اربوں سالہ تاریخ میں قدرتی ماحول میں سب سے بڑی تبدیلی واقع ہونا شروع ہو گئی۔

زراعت کی وجہ سے انسان اس قابل ہو گیا کہ وہ دوسری نسلوں پر انحصار کیے بغیر انھیں اپنی مرضی کے مطابق اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکے۔ تمام جاندار اور زرعی دور سےقبل کے انسان بھی ماحول کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول کے تحت رہتے تھے لیکن زراعت کے فروغ کے ساتھ ہی گویا انسان نے ماحول کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا، یعنی زیرِ کاشت رقبے پر صرف ایک قسم کا پودا ہی قابلِ قبول ہے، باقی تمام پودوں کا وجود ناقابلِ قبول ٹھہرا۔ اسی طرح جانوروں کی بھی صرف چند ہی نسلیں فائدہ مند قرار دی گئیں، بقیہ جانوروں پر ضرررساں کا ٹھپا لگا دیاگیا۔

اس کے بعد صنعتی دور کے آغاز پر تو گویا سونے پر سہاگے کا کام کیا اور انتہائی بڑے پیمانے پر ماحول کی تباہ کاری کا کام شروع کر دیا۔


پاکستانی برفانی چیتا

کوئلے، تیل اور دوسری اقسام کے معدنی ایندھن جلا جلا کر ابنِ آدم نے بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ  فضا میں بھیجناشروع کر دی ہے، جس سے پورے سیارے کے موسم تبدیل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ 

ٹھیک ٹھیک تخمینہ لگانا بہت مشکل ہے کہ اب تک کتنی نسلیں معدوم ہو چکی ہیں، لیکن بعض سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ صدی کے اختتام تک نصف سے زیادہ جانداروں کی نسلیں فنا ہو چکی ہوں گی۔

ورلڈ کنزرویشن یونین کے دس ہزار سائنس دانوں کا اندازہ ہے  رینگنے والے جانوروں کی 51 فی صد، کیڑے مکوڑوں کی 52 فی صد اور پھول دار پودوں کی 72 فی صد نسلیں چند عشروں کے اندر اندر فنا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی نسلیں ایسی بھی ہیں جو دریافت ہونے سے پہلے ہی فنا ہو جائیں گی۔

انسانوں کو جنگلے لگا کر اور دیواریں کھڑی کر کے اپنے حصے کی نشان دہی کرنے کا بڑا شوق ہے۔ لیکن یہ شوق جانوروں کو بڑا مہنگا پڑتا ہے۔اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو: پاکستان اور ہندوستان کی شمالی سرحد پر بھارتی فوج جنگلے لگا رہی ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے چیتے اور ریچھ اب خوراک کی تلاش میں جنگلے کے دوسری طرف نہیں جا سکتے۔ فاقہ کشی سے مجبور ہو کر  انھوں علاقے کے دیہاتیوں پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ جواباً دیہاتی ان جانوروں کا قتلِ عام کر رہے ہیں اور بہت جلد ہی ان دونوں جانوروں کی نسل کی بیخ کنی ہو جائے گی۔


ڈائنوسار معدوم ہونے والی نسلوں کی سب سے مشہور مثال ہیں

بہت سے لوگ کہیں گے کہ کیا فرق پڑتا ہے اگر کیڑوں کی چند نسلیں فنا ہو گئیں یا چند جنگلی پودے معدوم ہو گئے۔ لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ زمین کا ماحولیاتی نظام انتہائی نازک ہے جہاں ہر صنف دوسری اصناف کے بل بوتے پر کھڑی ہے۔ اکثر اوقات ایک نسل کے جاندار سینکڑوں دوسری اقسام کے جانداروں سے منسلک ہوتے ہیں اور اگر ایک نسل فنا ہو گئی تو اس کا اثر سینکڑوں دوسری انواع کے جانداروں پر پڑتا ہے۔ جس کا لازمی اور حتمی اثر انسانوں پر پڑے گا۔

 

ظاہر ہے کہ انسان خود بھی ماحول کا حصہ ہے اور اپنی زندگی بسر کرنے کے تمام وسائل اپنے ماحول ہی سے حاصل کرتا ہے۔ لیکن اس وقت خود ہی اس شاخ کو کاٹنے کے درپے ہے جس پہ آشیانہ ہے۔ اس عاقبت نااندیشی کا انجام کیا ہوگا، اس کے لیے کسی نجومی کی پیش گوئی کی ضرورت نہیں۔ کیا اس مسئلےکا کوئی حل موجود ہے؟ نہیں اور ہاں۔ نہیں اس لیے کہ جو نسلیں فنا ہو گئیں وہ کبھی واپس نہیں آ سکتیں۔

  لیکن جو نسلیں ابھی باقی ہیں، ان کی بقا کے لیے بین الاقوامی جدوجہد کی ضرورت ہے، جہاں تمام ممالک مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔اور اس سے بھی بڑھ کر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عام انسان اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کریں، پیشتر اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔
YOU MAY ALSO LIKE: