انتخابات ، خدشات اور شکایات

لاہور میں عمران خان کا 23 مارچ کو ہونے والا جلسہ بھی کامیاب ہوگیا۔اس جلسے سے لاہور اور تخت لاہور کی گرمی تو کم ہوئی لیکن ملک کی سیاسی صورتحال پر کوئی خاص اثر پڑتا ہوا نظر نہیں آیا۔طاہرالقادری کی ” پرسرار ایجنڈے “ پر مشتمل ریلی کے بعد جس میں چار دن تک ہزاروں لوگ سڑکوں پر تھے کے بعد کسی جلسے میںلوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر سیاسی جماعت کا وزن جانچنامزید مشکل ہوگیا ہے۔جلسہ تو کسی جماعت کا ناکام نہیں ہوتا ۔اصل بات یہ ہے کہ ان جماعتوں نے اب تک لوگوں کو کیا دیا ہے ؟۔ یہ سوال ان جماعتوں سے پوچھا جانا زیادہ ضروری ہے جو ماضی میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں ۔اس سوال کا جواب ان جماعتوں پر بھی لازم ہے جو ملک کی تاریخ میں پہلی بار اپنی مدت پوری کرنے والی جمہوری حکومت کو چلانے کے دعویدار ہیں۔

سمجھا جاسکتا ہے کہ کم از کم ان پارٹیوں نے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا اوراسلامی جمہوریہ پاکستان میں پہلی بار ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔لیکن پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوامی دور میں عوام کو بھی کچھ ملا یا پھر صرف حکمران عیاشی کرتے اور مزے لوٹتے رہے ؟اس کے جواب میں بہت تلخ حقائق ہیں ۔ایسے حقائق جو ہرخاص و عام کی زبان پر ہیں۔کراچی ، پشاور اور کوئٹہ میں امن و امان کے حوالے سے جو کچھ ہوتا رہا وہ ماضی کا حصہ بن چکا ہے لیکن لوگ ان واقعات کو کبھی بھی نہیں بھول پائیں گے ۔لوگوں کی اکثریت اب اس طرح کی جمہوریت سے پناہ مانگتی ہوئی نظر آتی ہے ۔

یہ بات واضع ہے کہ گزشتہ جمہوری حکومت کے معاملات سے فوج کی لاتعلقی کے باعث اور اس کو ” سب کچھ“ کرنے کے لیے فری ہینڈ دیئے جانے کی وجہ سے ملک کی تاریخ میں پہلی بار عوامی حکومت اپنی مدت پوری کرسکی ہے۔لیکن یہ بات فوج کے لیے بات قابل تعریف نہیں ۔اس عوامی حکومت کے قیام کے لیے فوج نے ہی سیاست دانوں کو قومی مفاہمتی آرڈیننس کا تحفہ دیا تھا جو پورے پانچ سال تک پوری قوم کے لیے ناسور بنا رہا۔ بھلا پھر کس طرح فوج تعریف کے قابل ہوسکتی ہے۔ بہرحال اب فوج کے لیے قابلِ تعریف بات یہ ہوگی کہ 11مئی کو ہونے والے انتخابات کو شفاف، منصفانہ اور آزادانہ بنانے کے لیے اپنا حقیقی کردارادا کرے ۔

آزادانہ انتخابات کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو ان کی طاقت یا کسی کے اشارے کی وجہ سے ہر قانون و اصول سے آزاد کردیا جائے۔یہ سب کچھ اب تک ہونے والے بارہ انتخابات میں ہوتا رہا۔لیکن اب 2013 ہے۔ دوہزار تیرہ میں ملک کی تاریخ کے تیرویں انتخابات میں قوم واضع تبدیلی دیکھنا چاہتی ہے۔ایسی تبدیلی جس سے عمران خان کے خوابوں کے نئے پاکستان کی ابتدا ہویا نہ ہو لیکن محمد علی جناح کے پاکستان کا نیا سنہری باب کھل سکے۔لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہی ممکن ہوگا جب ووٹرز کو بلاخوف و خطر اورآزادانہ ووٹ ڈالنے کی سہولت میسر ہو اور وہ اپنی خواہشات کے مطابق اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دے سکیں ۔اب تک ہونے والے انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کا پرسرار کردار بھی سامنے آتا رہا ۔اس بار کچھ ایسا ہوکہ اسٹبلشمنٹ نام کس شیر کا ہے وہ بھی پتا چل جائے اور فوجی جرنیلوں پر لگے داغ بھی دھل جائیں۔قوم کو آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی سے اسی طرح کی اچھی توقعات ہیں۔اس بار لوگوں کو محسوس ہونا چاہئے کہ وہ ایک پرامن ملک کے آزاد باشندے ہیں اور اپنی مرضی اور سوچ کے مطابق پرامن ماحول میں ووٹ ڈالنے جارہے ہیں۔یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب نگراں صوبائی حکومتیں اور وفاق کی حکومت آرمی کی مدد سے انتخابات کرانے کی اپنی اہم ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کرے گی ۔ اگرفوج پرامن منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کرانے میںاپنے کردار کے باعث کامیاب ہوگئی توقوم کے دلوں میں فوج کی محبت اور قدر میں اضافہ ہوگا اور ملک میں ایک اچھی روایت بھی قائم ہوگی ۔

مجھے یقین ہے کہ ملک کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد ، لاہور ، راولپنڈی اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور اور ملتان میںلوگوں کو آزادانہ حقِ رائے دہی کا موقع ملا تو واضع تبدیلی آئے گی۔ شہروں کی ترقی شروع ہوجائے گی۔جماعت اسلامی کے امیر منورحسن صاحب کا یہ کہنا کہ کراچی میں ووٹرز کو یہ یقین بھی نہیں ہے کہ وہ ووٹ ڈال کر زندہ واپس گھر پہنچ جائیں گے بھی یا نہیں۔

حکومت کو اپنے ہنگامی اقدامات سے اس تاثر کی نفی کرنی ہوگی۔ملک کے سب سے بڑے شہر میں امن وامان کی صورتحال اگر آئندہ چند روز میں بہتر نہیں ہوئی تو خدشہ ہے کہ یہاں انتخابی عمل خوف کے باعث بری طرح متاثر ہوگا۔لوگ ووٹ دالنے کے لیے گھروں سے نکلنے کے بجائے گھروں میں ہی رہنے کو ترجیح دیں گے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال کی ذمہ دارقرار دی جانے والی جماعتوں میں سے ایک جماعت کی جانب سے اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ وہ عین وقت پر انتخابات کا بائیکاٹ کردے گی ۔ اس صورت میں بھی پورے شہر میں خوف و ہراس پیدا کیے جانے کے خدشات موجود ہیں۔تاکہ یہ تاثر ملے کہ مذکورہ جماعت کی جانب سے بائیکاٹ کی وجہ سے ووٹرز کا ٹرن آﺅٹ کم رہا۔

دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی نئی حلقہ بندیوں کو مسترد کرکے اس پر احتجاج شروع کرچکی ہے اور اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ حالانکہ یہ حلقہ بندیاں سپریم کورٹ کے حکم پر کی گئیں ہیں۔ممکن ہے کہ متحدہ کا خیال ہوکہ سپریم کورٹ میں اپیل کے بعد اس کی توقعات کے مطابق فیصلہ آجائے ۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوجانے کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر شکوک شبہات موجود ہیں۔اتوار کو سابق صدر پرویز مشرف وطن واپس آچکے ہیں ۔وہ جس شہر میں دبئی سے براہ راست پہنچے اگرچہ وہ ان کا اپنا شہر ہے لیکن اس میں اب وہ سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے جو ان کے بچپن کے دنوں میں تھا۔اب ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد وہ نہیں رہیں جو ملک کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ علاقے کہلاتے تھے۔اب تو یہاں بھی گولیاں چلتی ہیںاور لاشیں گرتی ہیں۔پرویز مشرف کراچی آمد کے بعد کراچی کی صورتحال پر تشویش کا بھی اظہار کیا انہوں نے شہر کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپس کے جھگڑے ختم کریں ، یہ شہر سب کا ہے ۔انہوں نے ائیرپورٹ پر اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ” وہ پاکستان کہا چلاگیا جو میں چھوڑ کر گیا تھا“۔

پرویز مشرف این آر او زدہ لوگوں کے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد ملک چھوڑ گئے تھے اور ساڑے چار سال بعد واپس آئے ۔ملک اور قوم سے ان کو کتنی محبت ہے اس کااندازہ ان کے اس عمل سے لگایا جاسکتا ہے ۔ بہرحال ان کی موجودگی کے دوران خدشات بھی ر ہیں گے۔

تحریک طالبان پاکستان نے انہیں دھمکی دی ہوئی ہے کہ وہ انہیں جہنم میں بھیج دے گی ۔ اتوار کو ملک کے نگراں وزیراعظم کے لیے ہزار خان کھوسو کا چناﺅ کرلیا گیا۔ پیر کو وہ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔لیکن ابھی انتخابات کے ساتھ خدشات باقی ہیں جبکہ متحدہ کی شکایتیں اور طالبان کی دھمکیاں ہنوز برقرار ہیں ۔ کیا ہوگا اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرےگا -
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 153093 views I'm Journalist. .. View More