نتیش کمار نہیں راج کمار (1)

بائیس نومبر دو ہزار پانچ کے دن انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے ‘ نتیش کمار اور اسکی پارٹی کی اکثریت واضح تھی‘ دو دن بعد یعنی چوبیس نومبر کو بہار کی صوبائی حکومت بننے جا رہی تھی‘ دہلی میں ایک صحافی نے نتیش کمار سے سوال کیا، ”حکومت سنبھالنے کے بعد آپ کی پہلی ترجیح کیا ہو گی؟ “ وزیر اعلی نے جواب دیا” Good Governance“ صحافی نے پھر سوال کیا ”آپ کی دوسری ترجیح کیا ہو گی؟“ وزیر اعلی نے جواب دیا ”Good Governance“ صحافی نے تیسرا سوال کیا ، ”آپ کی تیسری ترجیح کیا ہو گی؟“ وزیر اعلی نے اسی اطمینان سے جوب دیا،”Good Governance“۔

بہار میں آج بھی اٹھاسی فیصد لوگ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں ‘ ان کے روزگار کا دارومدار زراعت پر ہے‘ ایک وقت ایسا آیا کہ لوگ تیزی سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے لگے ‘ یہ حکومت کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بننے جا رہا تھا‘ اس نقل مکانی کو روکنے کیلئے حکومت نے بے شمار اقدامات اٹھائے‘ سب سے پہلے قدم کے طور پر زرعی انقلاب لایا گیا‘ تا کہ لوگوں کی معیشت ان کے گھر کے قریب ہی اتنی مستحکم ہو جائے کہ انہیں روزگار کے سلسلے میں شہروں کا رخ نہ کرنا پڑے ‘ زرعی انقلاب کی ایک مثال آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ حکومت نے سب سے پہلے بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو ممکن بنایا ‘ اس مقصد کیلئے بجلی کے مختص فیڈرز نصب کئے گئے ‘ زرعی پیداوار میں اضافے کیلئے زرعی تحقیق ، موسمیاتی اثرات سے محفوظ گوداموں کی تعمیر اور زرعی اجناس کی جدید مارکیٹنگ کے نظام سمیت زراعت میں کسانوں کی دلچسپی بڑھانے کیلئے اقدامات کئے گئے ‘ زراعت سے منسلک کاروبار یعنی ماہی پروری ،دودھ اور گوشت کی پیداوار بڑھانے پر بھی توجہ دی گئی‘ حکومت کی ان کوششوں کا نتیجہ کتنا حیران کن ثابت ہوا‘ آپ اس کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ بہار کے اٰیک ہی گاؤں کے پانچ کسانوں نے دھان کی فی ہیکٹر پیداوار میں معجزہ دکھا تے ہوئے دو سو چوبیس کوئنٹل یعنی بائیس ہزار چار سو کلو کا نیا عالمی ریکارڈ بنا دیا‘ اس سے پہلے دھان کی فی ہیکٹر پیداوار کا عالمی ریکارڈ ایک سو نوے کوئنٹل (Quintal) یعنی انیس ہزار کلو تھا (بھارت میں عموما زرعی پیداوار کو کوئنٹل میں ظاہر کیا جاتا ہے) ‘ اس کے برعکس پاکستان میں نوے کی دہائی میں دھان کی پیداوار اوسطا پندرہ سو کلو فی ہیکٹر اور 2009-10 میں صرف چوبیس سو کلو فی ہیکٹر تک پہنچ سکی ‘ یعنی ہم بیس سال کے دوران فی ہیکٹرپیداوار میں صرف ساڑھے سات سو کلو کا اضافہ کر سکے۔

حکومت نے ریاست میں رابطہ سڑکوں کا جال بچھا دیا‘ ابتدا میں ہر اس گاؤں کو پکی سڑک سے منسلک کر دیا گیا جس کی آبادی پانچ سو افراد پر مشتمل تھی ‘ اور اس وقت ہر اڑھائی سو آبادی والے گاوں کو پکی سڑک سے منسلک کر دیا گیا ہے‘ اسکے علاوہ صوبے میں ہائی ویز اور ڈسٹرکٹ سڑکیں بھی تعمیر کی گئیں۔

بہار کے سکولوں میں طالبات کے داخلے کی شرح انتہائی کم تھی‘ طالبات غربت کے باعث سکول یونیفارم نہیں خرید سکتی تھیں ‘ اب آپ ذرا نتیش کمار کا وژن ملاحظہ کریں ‘ حکومت نے مڈل تک کی طالبات کو مفت یونیفارم مہیا کیا‘ اس سے مڈل سکول میں طالبات کے داخلے کی شرح بہتر ہونے لگی‘ پھر حکومت نے اس بات کا ادراک کیا کہ ہمیں بہار کی عورت صرف مڈل پاس ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ چاہیے ‘ مڈل کے بعد طالبات کے لئے تعلیم جاری رکھنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اپنے گھر سے سیکنڈری سکول تک کا سفر تھا‘ حکومت نے سوچا کہ اگر کسی طرح اس سے مشکل سے نمٹ لیا جائے تو طالبات کی مڈل سے آگے تعلیم جاری رکھنے کی ایک رکاوٹ تو دور کی جا سکتی ہے‘ اس مقصد کیلئے دو ہزار سات میں طالبات کیلئے (Girls Bicycle Scheme) کا اجرا کیا گیا‘ اس اسکیم کے اجرا سے پہلے بہار میں سکینڈری سکولوں کی طالبات کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار تھی لیکن اس اسکیم کے صرف چار سال میں یہ تعداد بڑھ کر ساڑھے چھ لاکھ ہو گئی ۔

جب گرلز بائیسکل اسکیم کا منصوبہ بنایا گیا تو نتیش کمار کو بہار کی بیوروکریسی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا ، ” تمام سائیکلوں کا ایک ہی رنگ ہو گا‘ ہر سائیکل پر ریاست بہار کا علامتی نشان (emblem)بنا ہو گا‘اسکیم کا نام درج ہو گا‘ وزیر اعلی کی تصویر ہو گی ‘ اخبارات اور ٹی وی چینلز پراشتہارات چلائے جائیں گے‘ صوبے کے تمام بڑے شہروں میں بینرز اور بل بورڈز آویزاں کئے جائیں گے تا کہ عوام میں حکومتی کارکردگی کی تشہیر کی جا سکے‘ اس سے حکومت کا ووٹ بینک مضبوط ہو گا‘ لوگ وزیر اعلی کو اپنا خادم سمجھیں گے “ یہ سب جاننے کے بعد میرے ذہن میں وزیر اعلی شہباز شریف اور انکی صوبائی حکومت کی حکمت عملی گردش کرنے لگی ‘ میں سوچنے لگا کہ شہباز شریف کی طرح اس دل لبھانے والی بریفنگ کو دیکھ کر تو نتیش کمار کا دل باغ باغ ہو گیا ہو گا‘ اپنی شہرت میں اضافے کیلئے تیار کردہ منصوبے کو دیکھ کر تو اسکی باچھیں کھل گئی ہوں گی اور وہ اس منصوبے کے سربراہ (Project Head) کو تعریفی سند سمیت ترقی دینے کا اعلان کرے گا‘ لیکن میں یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ وزیر اعلی نے اس ستائشی اور تعریفانہ بریفنگ کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ‘ اس نے تمام شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے‘افسران نے بتایا کہ ہم نے سائیکلوں کی اس طرز پر تیاری کیلئے ٹینڈر جاری کر دیا ہے‘ وزیر اعلی نے کہا کہ ٹینڈر منسوخ کر دیا جائے‘ پارٹی کے لوگوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ہماری پارٹی کی ساکھ میں اضافہ کرے گا‘ نتیش کمار نے کہا کہ اس اسکیم میں دکھاوا نہیں صرف خدمت شامل ہونی چاہیے ۔

گزشتہ پانچ سالوں سے صوبہ بہار کی مجموعی داخلی پیداوار (GDP) کی شرح نمو اوسطا گیارہ فیصد سے بھی زیادہ رہی جبکہ رواں مالی سال کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے GDP کی شرح نمو صرف 3.7فیصد رہی‘ اتنی حیرت انگیز کامیابی پر تو نتیش کمار کو تاریخ ساز جشن منانا چاہیے تھا‘ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اشتہارات کی بھرمار کر دینی چاہیے تھی‘ بہار کے ہر سڑک کوقد آور بینرز سے سجا دینا چاہیے تھا لیکن یہ عجیب شخص ہے‘ اس نے اپنی اس کامیابی کا کوئی جشن نہیں منایا‘ اس نے اقتصادی ماہرین کی ٹیم سے کہا کہ مجھے گیارہ فیصد کی شرح نموصرف اسی صورت میں قبول ہو گی اگر اورنگ آباد سے جہاں آباد، کشن گنج سے نواڈا اور پٹنہ سے ویشالی تک عام آدمی کو روزگار میسر ہو‘ اس کے برعکس آپ شہباز شریف اور پنجاب کی مثال لیجئے ، جہاں نصف سے زائد پنجاب غربت اور بنیادی سہولیات سے محروم زندگی گذار رہا ہے لیکن صرف لاہور کے چار منصوبوں پر پنجاب حکومت کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چالیس ارب لگا دیئے گئے ۔

بہار کا دلچسپ موازنہ پاکستانی پنجاب سے ہو سکتا ہے کیونکہ پنجاب کی آبادی سوا نو کروڑ اور بہار کی آبادی تقریبا سوا دس کروڑ ہے‘ پنجاب رقبے کے لحاظ سے بہار سے دوگنا ہے یعنی پنجاب کے پاس ترقی کے نسبتا زیادہ مواقع اور وسائل موجود ہیں ‘ بہار کے اڑتیس اضلاع اور پنجاب کے چھتیس ہیں‘ دونوں کے ڈویژنز کی تعداد نو ہے‘ بہار اور پنجاب کے پولیس اسٹیشنز کی تعداد میں بھی بہت زیادہ فرق نہیں ہے ‘ اس کے علاوہ بھی پاکستانی پنجاب اور بہار میں بہت سے مماثلتیں پائی جاتی ہیں ۔
Ameer Abbas
About the Author: Ameer Abbas Read More Articles by Ameer Abbas: 18 Articles with 16289 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.