زبان کی آفتوں کا اجمالی جائزہ

زبان عجائبات صفات الٰہی سے ہے۔اگرچہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے لیکن حقیقت میں جو کچھ موجود ہے وہ سب کچھ اس کے تصرف میں ہے۔کیوں کہ زبان موجود ومعدوم دونوں کو بیان کرتی ہے۔ہر عضو کی حکومت وجود کے کسی ایک خطے میں ہوتی ہے مگر زبان کی حکومت ساری مملکت وجود پرجاری و ساری ہے۔انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو تمام اعضاءانسانی زبان سے مودبانہ عرض کرتے ہیں”تیری سلامتی میں ہماری سلامتی ہے اور تیرے شر سے ہماری خیر نہیں۔“زبان سے جب بری بات نکلتی ہے تو دل تاریک وسیاہ ہوتا ہے جب کہ زبان سے حق کے صدور پردل روشن وتابندہ ہوجاتا ہے۔مذہب اسلام نے زبان کے استعمال کے سلسلے میں ہمیں تشنہ قانون نہیں رکھا ہے۔بلکہ قرآن واحادیث شریفہ میں زبان کے استعمال واحتیاط پر مکمل قانون موجود ہے۔مگر افسوس اسے دین سے دوری کہہ لیجئے یا کم علمی سے تعبیر کر لیجئے،قصداً یا سہواًغفلت کا شکار ہوکر ہم زبان کے استعمال میں غیر محتاط نظر آتے ہیں۔اور جھوٹ، غیبت،سفلہ پن،فحش گوئی،دشنام طرازی،زبان درازی،مسخرہ پن،یاوہ گوئی اور دروغ گوئی کے مرتکب بنتے ہیں۔ذیل میںمختصراًزبان کی آفتوں کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ زبان کے صحیح ودرست استعمال کی طرف توجہ مبذول ہو اور زبان کی آفتوں سے بچنے کا حتی الامکان جذبہ بھی پیدا ہو۔

پہلی آفت:فضول بات کرنا
ایسی بات نہ کہو جس کے کہنے کی ضرورت نہ ہوا ور اس کے کہنے سے کسی قسم کا نقصان یا مضرتِ دینی یا دنیوی نہ ہو۔اگر فضول اور بے ضرورت بات کہی تو حسن اسلام سے نکل جانے کاخدشہ ہے کیوں کہ پیغمبر اسلام مصطفی کریم ﷺ نے فرمایا:آدمی کے اسلام کی خوبی اس میں ہے کہ لا یعنی بات ترک کر دے۔لایعنی کلام کی مثال یہ ہے کہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کراپنے سفر کے احوال،باغ،بوستاں کی کیفیت اور جو کچھ رودادہو اس کو بے کم وکاست بیان کرنا،یہ سب یاوہ گوئی اور زیادہ گوئی ہے۔اس کی چنداں حاجت نہیں اور نہ کہنے سے ضرر کا کچھ اندیشہ بھی نہیں۔مگر آج بالخصوص دوستوں کے ساتھ ایسی محفلیںمنعقد کی جاتی ہیں۔جس میں رودادِسفر اور احوالِ شب وروز لطف اندوزی کے لیے بیان کئے جاتے ہیں۔فلم بینی کے بعد فلم کی مکمل اسٹوری یارانِ مجلس میں قہقہوں کے ساتھ تفریح طبع اور مزہ کے لیے بیان کرکے دوہرے گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں۔اس لئے کہ گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے۔اسی لیے اگر کسی سے ملاقات ہو اوراس سے ایسی بات پوچھو جس کی حاجت نہیںمثلاً:کسی سے پوچھنا کے تم نے روزہ رکھا ہے،اب اگر وہ جواب میں سچ کہتا ہے تو اس نے عبادت کا اظہار کیااور جھوٹ کہتا ہے توگناہگار ہوگا،اس کے جھوٹ بولنے کے موجب ہم ہونگے کیوں کہ اس نے ہمارے بے جا سوال پر جھوٹ کہا ہے۔اسی طرح کسی شخص سے پوچھا جائے کہاں سے آرہے ہویا کیا کررہے ہوتو ممکن ہے کہ وہ اس بات کو چھپانا چاہتا ہو اور وہ جھوٹ کہہ دے۔یہ سب کلام بے جا اور یاوہ گوئی ہے۔معقول بات وہ ہے جس میں باطل کا دخل نہ ہو۔

منقول ہے کہ ایک دن حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص اہل بہشت سے یہاں آئے گا۔پس حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ دروازے سے داخل ہوئے۔لوگوں نے انھیں اس عظیم خوش خبری سے باخبر کیا اور دریافت کیا کہ کس عمل کے باعث اس بشارت عظمیٰ سے سرفراز کیے گئے۔فرمایا کہ میراعمل تو بہت تھوڑا ہے لیکن میں نے کبھی بھی اس کے بارے میںلوگوں سے دریافت نہیں کیا جس کام سے میرا کوئی تعلق نہیں اور نہ میں نے لوگوں کی بد خواہی کی۔جو بات ایک لفظ میں ادا ہوسکتی ہو اگر اس کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو یہ دوسرا لفظ فضول ہے۔شاہکارِ دست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺ نے فرمایا کہ نیک بخت وہ شخص ہے جس نے یاوہ گوئی سے خود کو روکا اور (راہِ خدا) میں زیادہ مال صرف کیا۔لیکن لوگ اس کے برعکس کرتے ہیں کہ مال کو فضول اور بے کار دباکر رکھتے ہیں اور کلام فضول صرف کرتے ہیں۔مزید فرمایا:آدمی کو زبان درازی سے بدتر کوئی چیز نہیں دی گئی۔ذہن نشین رہے کہ ہمارا ہر جملہ حساب میں لکھا جائے گا۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔ترجمہ:”کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔“(سورہ ق،آیت18،پارہ26،کنزالایمان)

دوسری آفت:باطل سخن
زبان کی دوسری آفت وہ سخن ہے جو محض باطل اور معصیت میں کیاجائے۔باطل سے مراد وہ کلام جوبدعات میں کیاجائے اور معصیت(گناہ)یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے گناہ، فسق و فجورکی باتیں،شراب نوشی کی مجلسوں اورفسق وفجور کی حکایات بیان کی جائیں۔ایک دوسرے سے فحش باتیں کرنایا اس طرح فحش باتیں بنائیں جس کو سن کر دوسروں کو ہنسی آجائے۔یہ تمام باتیں معصیت میں داخل ہیں۔یہ پہلی آفت سے زیادہ سخت ہے کیوں کہ پہلی آفت میںصرف مرتبے اور درجات کا نقصان تھا مگر اس میں توگناہ ہے۔رسول گرامی وقارﷺ نے فرمایا:کوئی ایسا ہوگا کہ ایک بات ایسی کہے جس کا اس کو خوف نہ ہو اور اس کو حقیر نہ جانے آخر کاریہی بات اس کو قعرِ جہنم تک پہنچائے گی اورکوئی ایسا ہوگا کہ بے تکلف ایک بات کہے اور وہ بات اس کو بہشت میں لے جائے۔

تیسری آفت:بحث کرنا
بحث کرنا،جھگڑنا زبان کی تیسری آفت ہے۔آقائے کون ومکاں ﷺ نے فرمایا:ہر ایک جھگڑے کا کفارہ دورکعت نماز ہے۔جھگڑا کرنے میں یہ بھی ہے کہ کسی کے کلام پر حرف گیری نہ کی جائے۔کسی کے کلام کے نقص کو ظاہر کرنا حرام ہے کیوں کہ اس سے قلبی رنج ہوتا ہے اورکسی مسلمان کو بغیر ضرورت رنج دینا مناسب نہیں ہے۔اور لوگوں کے کلام کی خطا اور غلطی ظاہر کرنافرض نہیں ہے بلکہ خاموش رہناایمان کی دلیل ہے۔البتہ بطور نصیحت خلوت میں حق بات کو ظاہر کردو بشر طیکہ قبولیت کی امید ہو اگر نہ ہوتو خاموش رہنا مناسب ہے۔جھگڑوں سے بچنے والوں کومژدہ جانفزا سناتے ہوئے مصطفی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جو کوئی بات چیت میں مخالفت اور جھگڑاکرنے سے باز رہے گااور بے جا گفتگو نہ کرے گااس کے لیے جنت کا محل ہے۔

چوتھی آفت:جھگڑاکرنا
مال کے سلسلے میںجھگڑا کرنا زبان کی چوتھی آفت ہے۔مختارِ کائنات ﷺ نے فرمایا:جو کوئی بغیر علم کے کسی سے جھگڑا کرے،رب تعالیٰ اس سے ناخوش ہوگا جب تک وہ خاموش نہ رہے۔بزرگانِ دین نے فرمایا:مال کے سواکوئی اور ایسی چیز نہیں ہے،جو دل کو پریشان کرے اور عیش کو تلخ کرے اور بھائی چارے میں خلل انداز ہو۔کوئی زاہد مال کے سلسلے میں خصومت(عداوت،دشمنی)نہیں کرے گا کیوں کہ بغیریاوہ گوئی کے جھگڑا ختم نہیں ہوگا اور جو زاہد ہے وہ یاوہ گوئی(بے ہودہ باتیں)نہیں کرے گا۔

پانچویں آفت:فحش گوئی
پانچویں آفت فحش گوئی ہے۔رسول خدا ﷺ نے فرمایا:ایسے شخص پر جنت حرام ہوگی جو فحش گوئی کرے گا۔حضور علیہ التحیة والسلام نے یہ بھی فرمایا:دوزخ میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے منہ سے نجاست نکلے گی اور اس کی بدبو سے تمام دوزخی فریادکریں گے اور دریافت کریں گے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ان کو بتایا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فحش گفتاری کو پسند کرتے تھے اور فحش بکتے تھے۔شیخ ابراہیم بن میسرہ نے کہا ہے کہ جو کوئی فحش بات کہے گا قیامت میں اس کا منہ کتے کاہوگا۔(اللہ اکبر)افسوس!آج غیرقوموں کی طرح امت مسلمہ بھی فحش کلامی کے مرض میں مبتلا ہے۔گالی گلوچ تکیہ کلام بنتے جا رہے ہیں۔نہ زبان کے استعمال میں محتاط روش ہے اور نہ ہی کسی کی عزت وآبرو کی پرواہ۔بے دھڑک نازیبا کلمات کے ذریعے قلبِ مومن کو پارہ پارہ کردیا جاتاہے۔بے جھجھک گالیوں کے ذریعے عزت کے قلعے کو پَل بھر میںمسمار کر دیا جاتا ہے۔زبان درازی سے جہاں بڑوں کی بے ادبی کی جاتی ہے وہیں دروغ گوئی کے ذریعے آبروئے مومن کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا جاتا ہے۔جب کہ ہمارے اسلاف کرام الفاظ وبیان کے معاملے میںکس قدر محتاط تھے۔حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے کبھی کسی کتے کو بھی کتا نہیں کہا کیوں کہ لفظ”کتا“گالی یا معیوب سمجھاجاتا ہے۔(سوانح حضرت اویس قرنی )شاید اسی لیے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے منہ میں کنکریاں رکھتے تھے تاکہ زیادہ بات نہ ہو۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ زبان سے زیادہ کوئی چیز قید کرنے کے لائق نہیں ہے۔محتاطی کا یہ عالم ہے کہ شیخ ربیع ابن خیثم نے بیس سال تک دنیا کی کوئی بات نہیں کی،وہ صبح کو اٹھتے تو قلم اور کاغذلے کرجو بات کہنا ہوتی،اس کو کولکھ لیتے اور اس کاحساب دل میں کرتے۔خود اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:”ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیںمگرجو حکم دے خیرات یا اچھی بات کایالوگوں میں صلح کرنے کا۔“(انبیائ)یعنی وہی بات بہتر ہے جس میں خیرات کا حکم ہو یانیکی کی دعوت دی جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔اسی لیے مصطفی کریم ﷺ نے فرمایا:ابن آدم کا ہر کلام اس کے لیے وبال ہے اس کو اس کا کوئی نفع نہیں ملتا سوائے نیکی کاحکم کرنے اور برائی سے روکنے اور ذکر الٰہی کے۔(ابن ماجہ،بحوالہ:برکات شریعت،حصہ اول،ص۵۵۳)

چھٹی آفت:لعنت کرنا
لعنت کرنازبان کی چھٹی آفت ہے۔رسول گرامی وقار ﷺ نے فرمایاکہ مومن لعنت نہیں کرتاہے۔منقول ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں ایک عورت شامل تھی اس نے ایک اونٹ پر لعنت کی سرور کونین ﷺنے فرمایاکہ اونٹ سے کجاوہ اتار کراس کوقافلے سے باہر نکال دو کہ یہ ملعون ہے۔کئی روز تک وہ اونٹ ادھر ادھر پھرتا رہا اور کوئی اس کے پاس نہیں جاتا تھا۔اللہ اکبر!اگر کسی نے کسی جانور پر لعنت کردی تو اللہ کے محبوبﷺ نے اس لعنتی جانور کو قافلے سے باہر نکال دیا۔امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جانوروں اور مکوڑوں کو بھی لعنت کرنا برا ہے۔حضور امیر سنی دعوت اسلامی علامہ شاکر علی نوری صاحب برکات شریعت میں تحریرفرماتے ہیں کہ لعنت کے معنی ہے اللہ کی رحمت سے دور ہوجانا۔حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آدمی زمین یا کسی چیزپر لعنت کرتا ہے تووہ چیز کہتی ہے کہ اس پر لعنت ہوجو ہماری بہ نسبت زیادہ گناہگار ہے۔ایک روز سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کسی پر لعنت کی۔آقاﷺ نے ان کی لعنت سن کر فرمایا:ابوبکر کو لعنت کرنا درست نہیں۔رب کعبہ کی قسم!آپ ﷺنے ان الفاظ کی تین بار تکرارفرمائی۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس فعل سے توبہ کی اور اس کے کفارے میںایک غلام آزاد کیا۔کسی شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیاکہ مجھے نصیحت فرمائیں۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:لعنت مت کرو۔ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ مسلمان پر لعنت کرنااور اسے قتل کرنا دونوں یکساں ہے۔حدیث شریف میں ہے کہ”تیرے دل کاتسبیح میں مشغول رہنا،ابلیس پر لعنت کرنے سے بہتر ہے“۔پھر مسلمان پر لعنت کرنا کس طرح درست ہوگا ۔

ساتویں آفت:مذاق
ساتویں آفت بذلہ سنجی(لطیفہ گوئی)اور مذاق ہے۔کسی کا مذاق اڑانااور اس کی بات اوراس کے فعل کو اس طرح نقل کرناکہ رنجیدہ ہوتویہ حرام ہے۔حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ترجمہ:”اور نہ مردمردوں سے ہنسیںعجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں“۔(پارہ26،سورة الحجرات،آیت۱۱،کنزالایمان)حضور اکرم ﷺ نے مذاق کرنے سے مطلقاً منع فرمایا ہے،ہاںتھوڑی سی ظرافت کبھی کبھی مباح ہے اور حسنِ اخلاق میں داخل ہے بشرطیکہ اس کو عادت نہ بنا لیاجائے اور حق بات کے سوائے اور کچھ نہ کہے کیوں کہ جھوٹ مذاق میں بھی حرام ہے۔اور زیادہ ہنسی مذاق سے وقت ضائع ہوتا ہے اور زیادہ ہنسی سے انسان کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی یہی ہنسی مذاق جھگڑے کا باعث بنتی ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک اعرابی اونٹ پر سوار تھا،رسول اللہ ﷺ کودیکھ کر اس نے سلام کیا اور چاہا کہ حضور ﷺ کے قریب جا کرآپ سے کچھ دریافت کرے،ہرچند وہ آگے بڑھناچاہتا لیکن اونٹ پیچھے ہٹ جاتا تھا،صحابہ کرام ہنسنے لگے،آخر کا اونٹ نے اس اعرابی کو گرادیااور وہ بے چارہ اس صدمے سے مرگیا،اصحاب رسول نے کہاکہ یارسول اللہ ﷺوہ شخص گرکرہلاک ہوگیا۔آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں تمھارے منہ اس کے خون سے بھرہیں یعنی تم اس پر ہنس رہے تھے یعنی ہماری ہنسی قلب مومن کی تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔اور ایک صالح مومن کے قلب کی اہمیت وافادیت وفضیلت احادیث مبارکہ میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے۔مگر آج چند لمحے کی تفریح طبع کی خاطر قلب مومن کوپارہ پارہ کر دیا جاتاہے۔جس سے انسانی دل زخم خوردہ ہوجاتاہے جب کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص لوگوں کو ہنسانے کے لیے ایک بات کہتاہے اور اسی کی بدولت اپنے درجہ سے اتنا زیادہ گر جاتا ہے جتنا کہ آسمان سے زمین پر۔حضور اکرم ﷺنے یہ بھی ارشاد رفرمایاہے کہ جب کوئی استہزا کرے اور دوسرے لوگوں پر ہنسے تو قیامت کے دن بہشت کادروازہ کھولیں گے،اس کو بلائیں گے مگر اس کو اندرداخل نہیں ہونے دیںگے،جب وہ لوٹے گا تو پھراس کو بلائیںگے اور دوسرا دروازہ کھولیں گے اسی طرح چند بار کیا جائے گاکہ جب وہ نزدیک آئے گا دروازہ بند کردیاجائے گا،پھر ہرچنداس کو بلایا جائے گالیکن وہ نہیں آئے گا کیوں کہ وہ سمجھے گا کہ اس کی تحقیر کی جارہی ہے۔

آٹھویں آفت:جھوٹاوعدہ کرنا
جھوٹاوعدہ کرنا زبان کی آٹھویں آفت ہے۔حدیث مبارکہ میں وعدہ خلافی کرنا منافق کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔حضور ﷺنے فرمایا:وعدہ قرض کی طرح ہے۔اللہ رب العزت نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اوصاف میں فرمایا:”انہ کان صادق الوعد“۔ترجمہ:بے شک وہ وعدے کا سچا تھا۔(پارہ16،سورہ مریم،آیت 54،کنزالایمان)حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کسی مقام پر کسی سے ملنے کا وعدہ کیا اوروہ شخص نہیں آیا۔آپ نے تین دن تک وہاںاس کا انتظار کیاتاکہ وعدہ پورا ہو جائے۔ایک صحابی رسول فرماتے ہیں کہ میں نے شاہکارِ دست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺسے بیعت کی اورمیں نے کہاکہ میں فلاں جگہ آپ سے ملاقات کے لیے آﺅں گا،میں بھول گیا۔تیسرے دن مجھے یاد آیا تو میں وہاں گیا۔آپ ﷺ وہاں میرے انتظار میںموجود تھے۔آپ فرمانے لگے۔”ائے جواںمرد!تین دن سے میں تمھاری راہ دیکھ رہاہوں“۔اب شریعت مصطفوی کا قانون یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے کسی جگہ ملنے کا وعدہ کیاہے تو اس جگہ اگلی نماز کے وقت تک ٹھہرنا ضروری ہے۔

نویں آفت:جھوٹی قسم کھانا
جھوٹ بات کہنا اور جھوٹی قسم کھانا زبان کی نویں آفت ہے اور یہ سخت گناہ ہے۔پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایاکہ”دروغ“نفاق کا ایک دروازہ ہے اور فرمایا”دروغ گوئی رزق کی کمی کا سبب ہوتی ہے۔مزید فرمایا کہ بندے کی ایک ایک دروغ بات خداوند تعالیٰ کے حضور میں لکھی جاتی ہے۔آج کل جھوٹ گھریلو ونجی زندگی سے پروان چڑھ کر تجارتی میدانوں کو بھی اپنے دامِ فریب میں لے چکا ہے۔وہ تاجر جو زیادہ منافع کی خاطر گاہکوں سے جھوٹ کہہ کر رزق کی برکت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیںانھیں اس حدیث شریف سے درس حاصل کرنا چاہئے۔آقا علیہ السلام نے فرمایا”تاجر لوگ فاجر ہیں“۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیایارسول اللہ ﷺ!کیا خریدوفروخت حلال نہیں ہے؟آپ ﷺنے فرمایا اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لوگ قسم کھاتے ہیں اور گناہگار بنتے ہیں پھر جھوٹ بولتے ہیں“۔جب کہ حدیث مبارک میں ہے کہ مومن بخیل تو ہو سکتا ہے،بخیل ہونا بھی ممکن ہے مگر مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔(مشکوٰة)حضرت عبداللہ ابن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہے کہ میرادو سالہ بچہ کھیلنے کے لیے باہر جارہا تھا۔میں نے اس سے کہاکہ مت جاﺅ،میں تمھیں کھانے کے لیے کچھ دوںگا۔اس وقت محبوب رب العالمین ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرماتھے،آپﷺنے دریافت کیا کہ تم اس بچے کو کیا دوگے؟میںنے عرض کیاکہ میں اس کو خرما دوں گا،آپ نے فرمایااگر تم کچھ نہ دیتے تو یہ تمھاراجھوٹ لکھا جاتا۔جناب میمون ابن شبیب کہتے ہیں کہ میں خط لکھ رہاتھا،اسی وقت ایک بات دل میں آئی،اگر خط میںاس کوتحریر کرتا توحسنِ بیان میں اضافہ ہوتا لیکن وہ جھوٹ تھی،پس میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اس کو نہیں لکھوں گا۔حضرت عبدا للہ بن عتبہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد حضرت عمر بن عبدالعزیز (علیہ الرحمہ)کے پاس گئے،میں اس وقت عمدہ لباس پہنے ہوئے تھا،جب ہم وہاں سے واپس ہوئے تولوگ کہنے لگے کہ یہ خلعت امیر المومنین نے دی ہے،میں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ امیر المومنین کو جزائے خیر عطافرمائے۔یہ سن کر میرے والد نے فرمایاکہ ائے فرزند!ہرگز جھوٹ نہ بولواور جھوٹ کے مانند بھی بات زبان سے نہ نکالو،تمھاری یہ بات جھوٹ کے مشابہ ہے۔حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی۔ان کی آنکھ کے کنارے کوئی چیز (کیچڑ)جمع ہو گئی،لوگوں نے صاف کرنے کو کہاتو آپ نے فرمایاکہ میں نے طبیب سے وعدہ کیا تھاکہ آنکھ کو ہاتھ نہیں لگاﺅں گا،اب اگر میں اس کوصاف کرلوں تویہ میری دروغ گوئی ہوگی۔

دسویں آفت:غیبت کرنا
دسویں آفت”غیبت“ ہے اور یہ بلا عالمگیر ہے۔حق تعالیٰ نے قرآن مجید میںغیبت کرنے والوں کومرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے والے سے تشبیہ دی ہے۔(سورہ الحجرات،پ 26،آیت 12،کنزالایمان)اور حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:غیبت سے پرہیز کرو کیوں کہ غیبت زنا سے بدتر ہے۔زانی کی توبہ تو قبول کرلی جاتی ہے مگر غیبت کرنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی جب تک وہ شخص معاف نہ کردے،جس کی غیبت کی گئی ہے۔حق سبحانہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ جو غیبت سے توبہ کرکے مرے گا وہ سب سے آخر میں بہشت میں جائے گا اور اگر بغیر توبہ کے مرجائے تو سب سے آگے دوزخ میں داخل ہوگا۔

گیارہویں آفت:غمازی کرنا
زبان کی تیسری آفت غمازی(ایک کی بات دوسرے سے لگانا)اور سخن چینی(دورخاپن)ہے۔حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ:ذلیل بہت طعنہ دینے والا،دورخاپن کرنے والا۔ایک اور مقام پر فرمایا۔ترجمہ:خرابی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب لگائے اور پیٹھ پیچھے بدی کرے(سورہ الھمزة،پارہ30،آیت۱،کنزالایمان)ان آیتوں سے مراد دورخاپن ہے۔اللہ کے رسول نے اس آدمی کو بدترین شخص فرمایا جو لوگوں میں فتنہ پیدا کرے۔ایک حدیث پاک میں ہے کہ جنت کے قریب آٹھ قسم کے لوگ نہیں پہنچ سکیں گے،غماز بھی اسی میں سے ایک ہے۔منقول ہے کہ بنی اسرائیل قحط سے دوچار ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس دعائے باراں کے لیے گئے،لیکن دعا کے باوجودبارش نہیں ہوئی تب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی کہ ائے موسیٰ!میں تمھاری دعا قبول نہیں کروں گاکہ تمھاری جماعت میںایک غماز موجود ہے۔موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیاالٰہی!مجھے اس کی نشانی بتا تاکہ میں اسے جماعت سے نکال دوں،خدائے تبارک تعالیٰ نے فرمایاکہ جب میں غمازسے ناخوش ہوںتومیںکس طرح غمازی کروں۔تب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پرہرایک نے غمازی سے توبہ کی اور پھر بارانِ رحمت کا نزول ہوا۔

بارہویں آفت:لگائی بجھائی کرنا
زبان کی بارہویں آفت دودشمنوں کے درمیان لگائی بجھائی (دورخی)کرنا ہے یعنی ہر ایک سے ایسی بات کہناجواس کوپسند آئے،پھرہرایک کی بات دوسرے تک پہنچادینا،یہ بات غمازی سے بھی بدتر ہے۔حضور اکرم ﷺنے فرمایا:جوشخص دنیا میں دوغلاپن کرے گاقیامت میں اس کی دوزبانیں ہوں گی۔ایساشخص جودشمن سے دوستی رکھتا ہے اس کوچاہئے کہ جب وہ کسی سے ایک بات سنے تو خاموش ہوجائے،ایک کی بات دوسرے سے نہ لگائے اور ہرایک سے اس طرح نہ کہے کہ”میں آپ کاخیر خواہ ہوں“۔

تیرہویں آفت:مدح وستائش کرنا
لوگوں کی مدح وستائش کرنا زبان کی تیرہویں آفت ہے اور تعریف میںغلو کرنایہ بھی آفت ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے مخلوق کی تعریف میں غلو کیاقیامت کے دن اس کی زبان اتنی لمبی ہوگی کہ زمین سے لگ جائے گی اور وہ اس کو روندتا ہواگرپڑے گا۔ایک شخص نے حضور انور ﷺ کے روبرو کسی شخص کی تعریف کی،حضور ﷺ نے فرمایا:افسوس کہ اس کی گردن ماردی۔آپ نے پھر فرمایا کہ اگرتجھے کسی کی مدح کرنا ضروری ہے تویوں کہہ کہ میں ایساسمجھتا ہوں اورعنداللہ اس کو عیب سے برا خیال کرتا ہوںاگرتو اس خیال میں سچاہے تب اس کا حساب خدا کے ساتھ ہے۔تعریف کے نقصان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد رسول ﷺہے کہ اگر کوئی شخص تیز چھری لے کر کسی کے پاس جائے تو اس سے بہتر ہے کہ اس کے سامنے اس کی تعریف کی جائے۔حاصل کلام یہ ہے کہ تعریف سن کر خوش ہونے کی بجائے تعریفی کلمات سے بے زاری اختیار کی جائے۔لوگوں نے ایک بزرگ کی تعریف کی وہ کہنے لگے یا الٰہی!یہ شخص میرا قرب اس چیزکے وسیلے سے ڈھونڈرہا ہے جس سے میں بیزار ہوںاور تیری بارگاہ کی تعریف کا خواہاںہوں“۔کچھ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا:بار الہا!مجھ سے مواخذہ نہ فرمانااس بات پرجویہ لوگ کہتے ہیںاور میری اس خطا کو بخش دینا جس کو یہ لوگ نہیں جانتے اور مجھ کویہ لوگ جیسا سمجھتے ہیں اس سے بہتر فرمادے۔ایک شخص حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو دل سے دوست نہیں رکھتا تھا اس نے نفاق سے آپ کی تعریف کی توآپ نے فرمایاتونے زبان سے جو کچھ مجھے کہامیںاس سے کم ترہوں اور دل میں تومجھے جیسا سمجھتا ہے اس سے میں بہتر ہوں۔
(استفادہ خصوصی:کیمیائے سعادت اور خطبات غزالی)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 679189 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More