اجمل قصاب اقبالی بیان سے منحرف

ممبئی حملوں کے واحد زندہ بچ جانے والے ملزم اجمل قصاب عدالت میں اپنے سابقہ اقبالی بیان سے منحرف ہوگیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سے یہ بیان زردستی لیا گیا ہے اور ایک بیان لکھ کر اس پر زبردستی اس کے دستخط لیے گئے ہیں اور اس پر پولیس نے تشدد بھی کیا ہے۔

گزشتہ سال چھبیس نومبر کی شام کو جب ممبئی پر جس ڈرامائی حملے کا آغاز ہوا اس کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ بھارتی میڈیا نے ان میں پاکستان کے ملوث ہونے کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ حملہ آوروں پر قابو پانے میں بھارتی حکومت کو ساٹھ گھنٹوں سے زائد لگے جس میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تو بھارت کی عادت ہے ہی کہ وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہراتا ہے اس لیے بھارت سے تو ہمیں گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ہمیں تو اپنے ان بھائیوں پر افسوس ہوتا ہے جو پاکستان دشمن عناصر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور ساتھ ساتھ اسلام اور اسلام پسندوں پر تنقید اوراعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ جب بھارت نے ممبئی حملوں میں پاکستان اور پاکستانی تنظیموں کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تو حیرت انگیز طور پر ہمارے اپنے نام نہاد دانشور حضرات بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے میں پیش پیش تھے۔ ان میں معروف تجزیہ نگار اور بڑے بڑے اخابری گروپوں سے وابستہ افراد بھی شامل تھے۔ آگے جانے سے پہلے ہم ذرا ان نام نہاد دانشوروں اور دردمندان وطن کی بات کریں گے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے کیا سے زیادہ کون پر دھیان دینا شروع کردیا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ چونکہ ان نام نہاد دانشور اور تجزیہ نگاروں کا تعلق بڑے بڑے اخباری گروپس سے ہوتا ہے اور یہ لوگ صحافت سے کئی عشروں سے وابستہ ہیں اس لیے سادہ لوح افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہر بات درست ہے اور اس طرح یہ لوگ رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں۔ دیگر لوگوں کے علاوہ ان میں اک معروف نام جناب نذیر ناجی صاحب کا بھی ہے۔ یہ محترم بزرگ ہیں صحافت میں ان کی زندگی گزر گئی ہے لیکن انہوں ہر دور میں چڑھتے سورج کی پوجا کی ہے اور ہر دور میں دین مخالف قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے ہیں۔ان کا حال یہ ہے انہوں نے ہر آنے والی حکومت کو ویلکم اور جانے حکومت کو معطون کیا ہے ۔سولہ مارچ سے چند دن پہلے تک یہ محترم بزرگ اپنی تحریر میں نواز شریف کو جمہوریت دشمن اور نا عاقبت اندیش ثابت کررہے تھے اور سولہ مارچ کے بعد جو ان کا پہلا کالم منظر عام پر آیا اس میں ان پر انکشاف ہوا کہ نواز شریف تو ایک پر عزم، باحوصلہ، بہادر سیاست دان ہیں جس کے باعث جمہوریت کا فروغ حاصل ہوا۔اسی طرح چند ماہ پیشتر ایک اپنے ایک کالم میں پرویز مشرف کی مخالفت میں اتنا آگے چلے گئے کہ پوری پاکستان آرمی کو لتاڑ دیا اور سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار بھی پاکستان آرمی کو قرار دیدیا، لیکن کچھ دن پیشتر انہوں نے اپنے ایک کالم میں اسلام پسندوں کی مخالفت میں اسی سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار اسلام پسندوں کو قرار دیدیا( یہ کوئی من گھڑت باتیں نہیں ہیں بلکہ کوئی فرد روزنامہ جنگ کی ویب سائٹ پر موجود تمام کالم نگار حضرات کے ایک سال کے ریکارڈ میں ان کا بھی ریکارڈ دیکھ سکتا ہے کہ کسطرح یہ وقت کے ساتھ پینترے بدلتے ہیں )۔

اسی طرح اور بھی بہت سے تجزیہ نگار اور کالم نگار حضرات نے جب سانحہ ممبئی ہوا تو بغیر سوچے سمجھے اس کا الزام اسلام پسندوں پر لگا دیا گیا۔ حالانکہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی ہوتا ہے تو اس کی مکمل تحقیقات سے پیشتر کسی کو اس کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہ تمام حضرات یکطرفہ طور پر دین پسند قوتوں کو معطون کرتے رہے اور پاکستانی حکومت کے بعض ذمہ داران نے بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی اقدامات کئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تو باقاعدہ نام نہاد تحقیقات بھی کرلی اس کے مطابق انہوں نے بھی اجمل قصاب، اور پاکستانی تنظیموں کو ہی اس کا ذمہ دار قرار دیدیا اور ایک پریس کانفرنس میں ہمارے مشیر داخلہ نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ بھارت نے جو ثبوت دئے تھے وہ تو کچھ بھی نہیں بلکہ ہم نے خود محنت کرکے ثبوت حاصل کیئے ہیں۔

لیکن اب اجمل قصاب کی عدالت میں اپنے اقبالی بیان کے منحرف ہونے کے بعد یہ حضرات کیا کہیں گے؟ کیوں کہ بھارت کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ پاکستانی حکومت یا پاکستانی تنظیموں کی کارستانی تھی بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ یہ بھارت کی اپنی کاروائی تھی تاکہ پاکستان کو دہشت گرد ثابت کیا جاسکے۔اب مشیر داخلہ صاحب کیا کہیں گے کیوں کہ انہوں تو دہشت گردوں کی کشتی بھی برآمد کرلی تھی ( جب کہ بھارت نے بھی دہشت گردوں کی ایک کشتی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا )۔

اب اجمل قصاب کے منحرف ہونے کے بعد یہ ڈرامہ ایک نیا رخ اختیار کرنے والا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اب یہ سازش بے نقاب ہوجائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک امکان ہے کہ اجمل قصاب کے اپنے اقبالی بیان سے منحرف ہونے کے بعد اس ڈرامے کے تخلیق کار اجمل قصاب کو قتل کرنے کی کوشش کریں گے کیوں کہ ہمارا گمان یہی کہتا ہے کہ اجمل قصاب کو نیپال سے اغوا کر کے استعمال کیا گیا ہو اور یہ ان کے ہاتھوں ٹریپ ہوگیا ہو لیکن اب شائد وہ اس جال سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔اسی لیے اجمل کے قتل کو خودکشی کا رنگ دیکر کہا جائے کہ اس نے دباؤ تفتیش یا تحقیقات کے خؤف سے خودکشی کرلی ہے اور اس طرح کوشش کی جا سکتی کہ اس سازش کا بھانڈا نہ پھوٹ سکے۔ ( یہ ہمارا تجزیہ ہے اور اس سے قارئین کا اتفاق کرنا لازمی نہیں ہے)بہر حال ابھی یہ معاملہ ایک نیا رخ اختیار کر گیا ہے۔ بہت جلد تمام حقیقت منظر عام پر آجائے گی۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1457959 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More