تیری رہبری کا سوال ہے!

اس وقت دنیا بھر میں عیسائی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد 2 ارب 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے جو کہ مجموعی آبادی کا 32 فیصد حصہ بنتا ہے۔ جن میں سے رومن کیتھولک چرچ کے ماننے والوں کی تعداد ایک ارب 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ رومن کیتھولک عیسائیت میں منتخب پوپ تاحیات اپنے عہدے پر فائز رہتا ہے لیکن گزشتہ ماہ پوپ بینڈکٹ شانزدہم نے تقریباً آٹھ سال تک پوپ رہنے کے بعد خرابی صحت کے باعث اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ گزشتہ چھ سو سالوں میں مستعفی ہونے والے پہلے پوپ ہیں۔ پوپ فرانسس لگ بھگ دو ہزار سالہ قدیم رومن کیتھولک عیسائیت کے 266 ویں پوپ ہیں، ان کا انتخاب دنیا بھر سے آنے والے 115 کارڈینلز نے دو روز کی خفیہ رائے شماری کے بعد کیا تھا۔ بدھ 13 مارچ 2013ءکوجب تمام دنیا کے کیتھولک عیسائیوں نے اپنا متفقہ پادری منتخب کیا تو سینٹ پیٹرز اسکوائر میں گھنٹیاں بجنے لگیں اور جشن منایا گیا۔

اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کیتھولک عیسائیوں سے زیادہ ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ساڑھے چھ ارب کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 19.2 فیصد ہے جبکہ کیتھولک عیسائی 17.4 فیصد ہیں۔ کیتھولک عیسائیوں نے اپنا ایک متفقہ رہبر بنانے کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری رکھا ہواہے۔ مسلمانوں کے اندر بھی ایک عرصہ تک یہ روایت قائم تھی لیکن آہستہ آہستہ دم توڑ گئی۔ خلافت عثمانیہ تک مسلمانوں کا بھی پوری دنیا میں ایک ہی رہنما ”خلیفہ“ کی صورت میں ہوا کرتا تھا۔ 1924ءمیں سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد عالم اسلام چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ گیا۔ ہر حصے پر الگ بادشاہت قائم ہوگئی۔ اس وقت تقریباً 192 میں سے 58 ممالک مسلمان ہیں۔ ساڑھے چھ ارب کے قریب انسانوں میں سے سوا ارب سے زائد مسلمان ہیں اور وہ دنیا کے معدنی ذخائر کے75 فیصد کے مالک ہیں۔ دنیا کی بہترین بندرگاہیں، آبی گزر گاہیں، زمینی اور فضائی راستے مسلمانوں کے پاس ہیں۔ سب سے اچھا محل وقوع مسلم ممالک کا ہے۔ تیل کے لبالب بھرے کنویں اور سونے کی کانیں ہیں۔ زرخیز زمین، دریا اور نہریں ہیں۔ محنتی کسان ہیں۔ پسینہ بہانے والے مزدور، جان کی بازی لگانے والے فوجی ہیں۔ اعلیٰ دماغ اور باصلاحیت نوجوان ہیں۔ اس کے باوجود پسماندگی اور کمزوری مسلمانوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ عالم اسلام اور مسلمانوں میں اتفاق واتحاد کا فقدان اور کسی متفقہ باصلاحیت قیادت کا نہ ہونا ہے۔ عالم اسلام پر اگر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو مسلمان اتحاد سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ اختلاف کی جتنی بھی قسمیں کہیں ہوسکتی ہیں، ان میں سے اکثر مسلمانوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مسلمان اختلاف کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اتحاد کے فقدان کے باعث ہم روزبہ روز کمزور ہوتے جارہے ہیں۔

مسلمان جس مہذب مذہب کے پیروکار ہیں، وہ مذہب اسلام جس قدر اتحاد کا درس دیتا ہے اور اس پر تاکید کرتا ہے، دیگر ادیان و مذاہب میں وہ بات نہیں دکھائی دیتی۔ اسلام کے ارکان و احکام میں بھی اتحاد کا درس ملتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا“، ”سب کے سب اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لواورآپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔“ اس آیت مبارکہ میں دو اہم کاموں کا حکم دیا گیا ہے، ایک خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا اور دوسرا سب کا مل کر تھامنا، کسی ایک فرد سے خطاب نہیں ہے بلکہ ساری امت سے خطاب ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق واتحاد پر دیا گیا ہے۔ آپس میں محبت، اخوت، بھائی چارہ، ایمان، اتحاد اور یقین مسلمانوں کا موٹو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں حکم فرمایا تھا: ”دیکھو! باہمی اختلافات میں نہ پڑنا۔“ انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے Unity is Strength ”اتحاد ایک عظیم قوت ہے۔“ علامہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی فرماتے ہیں: ”اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت، جو قوم متحد ہے، وہ زندہ ہے اور جو اختلاف کا شکار ہے وہ مردہ ہے یاقریب المرگ ہے۔“

دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں لیکن ان تمام مذاہب اور ادیان میں سے اسلام ہی ہے جسکی تعلیمات انتہائی روشن، زرّیں اور سب سے بہتر ہےں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ ¿ حیات ہے۔ مسلمانوں کے پاس سب کچھ ہے۔ اگر کوئی چیز نہیں ہے تو وہ ایک متفقہ رہنما اور امیر نہیں ہے۔ مسلمانوں کے پاس ایک واضح منزل کا تعین ہے، مگر بدقسمتی سے رہبر ان کے پاس کوئی نہیں۔ مسلمانوں کے پاس دور اندیش، بہادر اور باصلاحیت قیادت نہیں ہے۔ کوئی ایسا ملاح نہیں ہے جو عالم اسلام کی ڈولتی اور ڈوبتی ناﺅ کو کنارے لگادے۔ نہ ہی مستقبل قریب میں ایسی کوئی قیادت نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کی ترقی اور پیش رفت کا راز ان کے اتحاد میں مضمر ہے۔ لیکنآج مسلمان آپس میں ہی دست و گریباں ہیں، ایک دوسرے کے دشمن بن بیٹھے ہیں، اسی دشمنی کے سبب تنزلی کی گھاٹیوں میں اتنی دور جاگرے ہیں کہ آسانی سے نکلنے کی کوئی راہ بھی سدھائی نہیں دیتی۔

مسلمانوں میں اتنے فرقے وجود میں آچکے ہیں،جن کو شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ ہر فرقے کے لوگ اسی کوشش میں ہیں کہ کس طرح دوسرے فرقے کے لوگوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ ایک مسلک کے رہنما دوسرے مسلک والوں کے خلاف آگ بھڑکانے میںمصروف ہےں۔ دوسروں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ہر کوئی اسی کوشش میں سرگرداں ہے کہ دنیا میں صرف ہم ہی رہیں باقی سب ختم ہوجائیں۔ حالانکہ ایسا ہونا ناممکن ہے، جہاں مختلف قسم کے لوگ رہتے ہوں وہاں اختلاف کا پیدا ہونا ایک فطری چیز ہے جس کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ لیکن اختلاف کی آڑ میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیج بونا اور تعن و تشنیع کے نشتر چلانا کہا ںکا انصاف ہے؟۔

ان حالات میں عالم اسلام کو انتشار اور نفرت کی گندگی سے پاک کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری علماءکرام پر آتی ہے۔ انتشار کی اس آگ کو اگر علماءکرام چاہیں تو بجھا سکتے۔یہ سب کچھ یقیناً ہوسکتا ہے، کوئی کرنے والا تو ہو۔ عالم اسلام اور مسلمانوں کو چاہیے وہ بھی اپنا ایک متفقہ خلیفہ اور امیر مقرر کریں۔ جس خلیفہ کو مسلمان مقرر کریں گے تو وہ عالم اسلام میں بڑھتی نفرت کو کسی حد تک کم کرسکے گا۔ اگر مسلمانوں میں کوئی قیادت کا اہل آجائے تو اس کی اطاعت کی جائے گی۔ اس عہدے پر امام کعبہ کو بھی مقرر کیا جاسکتا ہے یا ان کے علاوہ مل کر کسی اور کو بھی منتخب کیاجاسکتاہے۔بہرحال ان حالات میں مسلمانوں کے لیے عالمی سطح پر ایک امیر کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عالم اسلام کی سطح پر نہ صحیح کم از کم ملکوں کی سطح پر ہی کوئی ایسا ہو۔ یہ سب کچھ صرف علماءکرام ہی کرسکتے ہیں اور یہ انہی کی ذمہ داری ہے۔ یہ علماءکرام کو سوچنا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کے بجائے عالم اسلام کی
حالت کو کس طرح سدھارسکتے ہےں۔

نہ ادھر ادھر کی تو بات کر یہ بتا قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 634512 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.