لال مسجد

سانحہ لال مسجد سربریت و سفاکی کے جو انمٹ نقوش ہر ذی شعور انسان کے ذہن پر چھوڑ گیا ہے، اگر کوئی ان درد والم سے لبریز نقوش کو ذہن سے کھرچ کر بھی نکالنا چاہے تو یقیناً ناکامی ہی ہوگی۔لال مسجد آپریشن اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست ، اس وقت کے صدر ، وزیر اعظم ،اس آپریشن میں ملوث تمام افراد اور اس خونی کھیل کو روکنے میں کوتاہی کرنے والے ہرشخص پر ایک بدنما دھبہ ہے۔لال مسجد میں ہونے والے تاریخی ظلم پر ایک عرصہ تک چپ سادھ لی گئی تھی، کسی نے کوئی ایکشن نہ لیا،قرآن و حدیث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ و داعی معصوم طلبہ و طالبات کو گولہ ، بارود کی آگ میں جھونک کر خون کی ندیوں میں نہلانے والے تمام ذمہ دار بڑی دلیری سے سرعام گھوم رہے ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے اس واقعہ کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں عدالت عالیہ نے اس سانحہ کا نوٹس لیا اور اس بہیمانہ واقعہ کی تفتیش کرنے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا۔جس کا مقصد اس واقعہ کے ذمہ داران کو بے نقاب کرنا ہے۔ عدالت عالیہ نے کئی دن اس سانحہ کے متعلق بیانات لینے کا سلسلہ جاری رکھا، مختلف لوگوں کے بیانات لیے۔ اس سانحہ کے مختلف کردار ساری ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر اپنا دامن بچاتے نظرآرہے ہیں۔ حالانکہ ذمہ دار سب ہیں، سب کو ہی کڑی سزا دے کر معصوم بچوں کے ناحق خون کا بدلہ لینا ضروری ہے۔ گزشتہ روز لال مسجد کمیشن کا اجلاس جسٹس شہزاد شیخ کی زیرصدارت ہوا۔ جس میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا۔ شوکت عزیز نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ معاملہ سول انتظامیہ کے بس سے باہر ہوگیا تھا۔ میں نے بحیثیت وزیراعظم مسلح افواج کو طلب کرنے کے لیے کسی بھی سمری پر دستخط نہیں کیے اور نہ ہی لال مسجد آپریشن کے حوالے سے میری کابینہ میں کوئی بحث ہوئی اور نہ کابینہ نے آپریشن کی منظوری دی ،لیکن میں پرویزمشرف کے ساتھ ذاتی طور پر مشاورت کرتا رہا۔البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ پرویز مشرف سے کس قسم کی مشاورت کرتے رہے؟

شوکت عزیز نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ 9 اور 10 جولائی کی درمیانی شب جب چودھری شجاعت حسین ایوان صدر میں غازی عبدالرشید کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے کے ڈرافٹ لے کر آئے تو چودھری شجاعت حسین نے یہ کہا تھا کہ اب آپریشن ناگزیر ہوگیا ہے اور آپریشن مسئلے کا واحد حل ہے۔ اب آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے چودھری شجاعت حسین، اعجاز الحق اور طارق عظیم بات چیت کر رہے تھے۔ جب معاملہ حل نہیں ہو پایا تو مشاورت سے آپریشن کیا گیا۔ لال مسجد آپریشن مکمل طور پر ملٹری تھا، مذاکرات کی ناکامی کے بعد کوئی اور چارہ نہ رہا۔ لال مسجد آپریشن میں ہلاکتوں پر افسوس ہے۔ لال مسجد آپریشن سے میرا کوئی تعلق نہیں، مجھ سے منظوری لی گئی نہ ہی لال مسجد والوں کے مطالبات مجھ تک پہنچائے گئے۔ کمیشن نے استفسار کیا کیا آپریشن کے لیے وزارت داخلہ کی طرف سے کوئی سمری بھجوائی گئی؟ شوکت عزیز نے جواب دیا کہ مجھے وزارت داخلہ کی طرف سے کوئی سمری نہیں بھجوائی گئی۔ لال مسجد آپریشن سے متعلق پلان موقع کی مناسبت سے تبدیل ہوتا رہا۔ کمیشن نے شوکت عزیز سے استفسار کیا کیا آپ نے کہا تھا کہ ہتھیار پھینک دیں ورنہ مارے جائیں گے؟ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے جواب دیا مجھے ایسا کچھ معلوم نہیں ہے۔ آپریشن کا فیصلہ فوج، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کا تھا، فوجی آپریشن آخری حربے کے طور پر کیا گیا۔ کمیشن نے سوال کیا کہ لال مسجد میں کس قسم کا اسلحہ استعمال ہوا تو سابق وزیراعظم نے کہاکہ نہ تو وہ سیکورٹی کے ماہر ہیں نہ اسلحے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے کمیشن کو بتاےا کہ لال مسجد آپرےشن مےں مےری کوئی ذمہ داری نہےں ہے، آپرےشن کا آغاز وزارت دفاع نے کےا۔اس آپرےشن کی اگر ذمہ داری ڈالی جائے تو پورے، مقامی انتظامےہ اور فوج پر عائد ہوتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شوکت عزیز نے کہا کہ مجھے کچھ باتیں ادا کرنی ہےکیونکہ میں کمزور ہوں۔

جبکہ کچھ ہی دن پہلے سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ نے لال مسجد آپریشن کی ذمہ داری سابق صدر مشرف اور اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز پر عائد کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ لال مسجد میں ہونے والے آپریشن میں وزارتِ داخلہ اور سویلین خفیہ ایجنسیوں کو شامل نہیں کیاگیا تھا۔ آپریشن کے وقت میں ملک سے باہر تھا، آپریشن وزارت داخلہ نہیں فوج نے کیا تھا۔ لال مسجد آپریشن سے متعلق فیڈرل شریعت کورٹ کے جج شہزادو شیخ کی سربراہی میں قائم عدالتی کمشن کے سامنے بیان دیتے ہوئے آفتاب شیر پا کا کہنا تھا کہ لال مسجد آپریشن کو اس وقت کے صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز کنٹرول کر رہے تھے۔ وزارتِ داخلہ کو اس وفد کے بارے میں بھی معلومات نہیں دی گئی تھیں جو چودھری شجاعت کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا اور جنہوں نے مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید غازی سے ملاقات کی تھی۔ آپریشن میں تاخیر اس لیے کی جا رہی تھی تاکہ اس مسئلے کا کوئی پرامن حل نکالا جاسکے۔ سابق سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ انہوں نے گرفتاری کے بعد مولانا عبدالعزیز کا سرکاری ٹی وی پر انٹرویو نشر نہیں کیا تھا بلکہ انہیں ایک گمنام ٹیلی فون آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مولانا عبدالعزیز ٹی وی سٹیشن آرہے ہیں لہذا ان کا برقعے میں ہی انٹرویو کیا جائے۔ شیرپاﺅ کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں انہیں معلومات نہیں ہیں۔

گزشتہ دنوں میں لال مسجد کمیشن کو دیے گئے بیان میں مولانا فضل الرحمن خلیل کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے مذاکرات کے دوران ہی آپریشن شروع کرا دیا تھا۔ لال مسجد آپریشن کے وقت مولانافضل الرحمن خلیل، علامہ عبدالرشید غازی کے نمائندے کے طور پر حکومتی ٹیم سے مذاکرات میں شریک تھے۔ کمیشن کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے فضل الرحمن خلیل کا کہنا تھا کہ حکومتی نمائندوں سے 5 نکاتی معاہدہ طے پایا تھا جسے وہ منظوری کے لیے مشرف کے پاس لے گئے، چودھری شجاعت حسین نے کہا تھا کہ یہ محض رسمی کارروائی ہے،کافی دیر بعد وفد واپس لوٹا تو پتہ چلا کہ مشرف نے طے شدہ معاہدہ مسترد کر کے نئی شرائط رکھی ہیں، انہوں نے لال مسجد سے پہلے پانچ اوربعد میں تیس یرغمالی مانگے، ان شرائط پر بھی علامہ عبدالرشیدغازی کوراضی کرلیاتھا لیکن پرویز مشرف کی نیت میں فتورتھا۔ مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہا کہ مشرف سمیت لال مسجد آپریشن کے ذمہ داران کوکیفرکردارتک پہنچایاجائے۔ وفاق المدارس کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں صدر، وزیر اعظم، ان کے کئی وزراءاور فوجی جنرل سمیت سب ہی قصوروار ہیں۔ ہم نے کئی ذمہ داران سے باتیں کیں، افسران بالا سے ملاقاتیں کیں، مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ قانون سے بالا تر ہو کر ماروائے عدالت سینکڑوں طلبہ وطالبات اور حفاظِ قرآن کا خون کردیا گیا، بتایئے! یہ کہاں کا انصاف ہے؟

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 634505 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.