الیکشن 2013ء، امید مگر مبہم

ملک میں عام انتخابات کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ پیپلز پارٹی اپنی معیاد حکومت پوری کرچکی ہے اور عبوری حکومت کے قیام کا مرحلہ جاری ہے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جو نام دیئے گئے ان سے متعلق سیاسی اور غیر سیاسی کی ایک یہ تخصیص بھی سامنے آئی کہ ”سیاسی یہ دیکھتا ہے کہ کیا ممکن ہے جبکہ غیرسیاسی یہ دیکھتا ہے کہ کیا ہونا چاہئے“۔عبوری حکومت سے متعلق یہ اندیشے بھی ہو سکتے ہیں کہ ایسی شخصیات عبوری حکومت میں نہ ہوں جو نئے عام انتخابات تک کے لئے عبوری عرصہ حکومت کے دوران کسی قسم کے غیر معمولی حالات و واقعات کی صورت صدر اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کو ملک و عوام کی” بھلائی کا واحد آپشن“ قرار نہ دے دیں۔

الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 220ہے تاہم ان میں سے سوا سو کے لگ بھگ جماعتیں ہی عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔انتخابی نشانات کی تعداد 171ہے جس میں الیکٹرانک اشیائ،لڑائی کے ہتھیار،عام استعمال کی چیزیں،جانور،پرندے،کھیلوں کا سامان،مطبوعات،ریلوے انجن،جہاز،سورج،پھول،ٹیلی فون،ٹینٹ،کپڑے اور عمارت وغیرہ بھی شامل ہیں۔الیکشن کمیشن کی نئی ووٹر لسٹوں کے مطابق ملک بھر میں کل ووٹوں کی تعداد 8کروڑ57لاکھ38ہزار789ہے،جس میں 4کروڑ84لاکھ16ہزار 413مرد اور3کروڑ72لاکھ 22ہزار376خواتین ووٹر شامل ہیں۔پنجاب میں ووٹوں کی تعداد4کروڑ90لاکھ5ہزار 641،بلوچستان33لاکھ 45ہزار67،خیبر پختون خواہ1کروڑ 23لاکھ 11ہزار ایک،سندھ 1کروڑ87لاکھ 13ہزار 573،فاٹا17لاکھ 49ہزار331اور وفاقی ایریا کے ووٹوں کی تعداد 6لاکھ14ہزار 176ہے۔

نادارا کی کمپیوٹرائزڈ ووٹر لسٹوںکی وجہ سے جعلی ووٹ کے امکانات کم ہوئے ہیں اور انتخابی عمل کی شفافیت کے امکانات پیدا کئے ہیں ۔ ووٹوں کے دوہرے اندراج کا تدارک بھی ہوا ہے اور اس سے شہروں میں روائیتی سیاسی بازی گروں کو تکلیف ہوئی ہے ۔ اس الیکشن میں بھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کامیابی کے لئے روائیتی اندازدیکھنے میں آ رہے ہیں۔ابھی جماعتوں کے امیدوار سامنے نہیں آئے لیکن اب تک کی صورتحال سے ظاہر ہے کہ دفعہ62-63کی آئینی پابندی کے باوجودہر علاقے کی مخصوص شخصیات ہی بطور امیدوار مختلف جماعتوں کے منظوری نامے لئے عوام کے لئے محدود ’ چوائس‘ کے طور پر سامنے ہوں گے۔سیاسی جماعتیں اپنے علاقائی حامیوں کی ناجائز کاروائیوںسے صرف نظر کو سیاسی مصلحت قرار دیتی ہیں۔۔عشروں سے یہ ہماری سیاسی روایت ہے کہ ہر الیکشن میں امید وار کا ٹکٹ دیتے ہوئے ہر سیاسی جماعت کا معیار انتخاب ایک ہی ہوتا ہے ۔ یوں جماعت کوئی بھی جیتے اور کوئی بھی گروپوں کی حکومت بنائے،عوام کی حالت بدلنے یا ان کو درپیش مسائل و مصائب میں کمی کے آثار نہیں ہیں۔یہ درست ہے کہ جمہوریت اصلاح کا نہایت سست رو عمل ہے لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے جس طرح کرپشن،قرباءپروری کے لئے حکومتی اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے عوام کی زندگی کو جہنم بنائے رکھا اور باقی ماندہ حسرتوں کو جس طرح آخری دنوں پورا کیا گیا،اس سے پاکستان میں رائج سیاسی جماعتوںاور جمہوریت کی ابتر صورتحال سامنے آ جاتی ہے۔تشویشناک بات جمہوری نظام کا سست رو ہونا نہیں بلکہ مسئلہ بد نیتی کا ہے،سیاست و حکومت جب تک پرکشش مراعات اور مفادات کے حصول کا ذریعہ بنے رہیں گے،اس وقت تک” تیز یا سست“ کوئی بھی بہتری نہ ہو سکے گی۔

اس حکومت کے دور میں عوام نے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں اور شدید ناجائز معاشی دباﺅ کا سامنا کیا ہے۔ملکی وسائل کا غالب ترین حصہ ملکی نظام سنبھالنے اور چلانے والوں پر خرچ کرتے ہوئے انہیں زندگی کا بہترین ’سٹیٹس‘ دیا جاتا ہے۔ملک میں ٹیکس نہ دینے کے رجحان کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام دیکھتے ہیں کہ حکومتی و سرکاری ارباب اختیار،اعلی سرکاری تنخواہیں و مراعات پانے والوں کے لئے ، ملک و عوام کی ابتر معاشی صورتحال سے قطع نظر،شاندار معیار زندگی یقینی بنانے کی صورتحال میں ان کا دیا پیسہ پہلے ان جائز و ناجائز مراعات کو پورا کرنے پر لگتا ہے اور پھر کہیں اور خرچ ہو سکتا ہے۔یعنی پہلے ملکی نظام چلانے کا ” احسان عظیم“ کرنے والی ” اعلی و برتر مخلوق “ کے پیٹوں کا سمندر بھرے گا پھر عوام کو حسب قسمت و حسب حیثیت کچھ عطا ہونے کی امید کی جا تی ہے۔جمہوریت کا مطلب عوام کے مفاد کو ملک میں سب سے مقدم قرار دینا ہے جو پاکستان میں اب تک نہیں دیا گیا ہے کیونکہ ایسا کرنے کی سوچ ہی کار فرما نہیں ہے۔ملک کے ہر شعبے میںچودھراہٹ،بادشاہت،آمریت کا انداز چلن بدستور ہے۔ملک کی موجودہ سیاسی جماعتوں میںبلاشبہ مسلم لیگ(ن) بہتری کے حوالے سے باقی جماعتوں پہ برتری رکھتی ہے لیکن ملک میں جتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے ،اسے دیکھتے ہوئے اس سے نبرد آزما ہونے کے سیاسی عزم کے عملی تقاضے نظر نہیں آتے ۔ ملک کو درپیش سنگین مسائل و خطرات تو واضح ہیں لیکن عوامی،شہری مفادات مقدم نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری محکمے، ادارے عوام کے لئے عذاب بن چکے ہیں لیکن سنگین ملکی مسائل کی طویل فہرست میں یہ امور شامل نہیں ہیں ۔

الیکشن قریب بھی ہیں اور دور بھی،دعا کریں کہ ”دور عبوریت “ معینہ عبوری عرصہ میں ہی گزر جائے۔ابھی تو سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے ، جماعتیں تبدیل کرنے اور’جوڑ توڑ‘ کا مرحلہ ہے،عوام کس ردعمل ،رائے کا اظہار کرتے ہیں یہ الیکشن میں ہی سامنے آئے گا۔ داخلی امور کے علاوہ بیرونی حمایت کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی ان انتخابات میں اہم کردار ادا کرے گا کیونکہ اب میڈیا کے ذریعے عوامی رائے عامہ کو کافی حد تک متاثر کیا جا سکتا ہے۔مسئلہ وسائل یا نظام کا نہیںبلکہ کردار کا ہے جو بدکرداری پہ قائم و دائم رہنے پہ مصرہے اور اس کے سدھرنے کے آثار فی الحال نظر نہیں آ رہے۔اب عوام کو نظر نہ آنے والی سست رو بہتری کا جھانسہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ عوام ملکی ،ریاستی نظم و نسق کوبہتر بنانے اور عوامی مفاد کو مقدم قرار دینے کا احساس اور تقاضہ رکھتے ہیں۔”تاریک سرنگ کے آخر میں بھی امید کی کرن نظر نہیں آتی“ ۔مسائل،خرابیاں ،بداعمالیاں اور بد انتظامی اتنی مستحکم ہو گئی ہیں کہ بقول شاعر
پہلے د ر د دل میں ہوتا تھا
گزر گیا دل تو باری روح کی آئی
جل چکی روح تو باری بدن کی آئی
اب ہر عضو دکھتا ہے الگ الگ
جیسے عشق کے فسانے ہوں الگ الگ
 
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614994 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More