پولیس پر تنقید جائز مگر توہین کیوں

مہذب معاشروں میں کسی بھی انسان کو محض اس کے اعلیٰ حسب نسب یا منصب نہیں بلکہ اس کے ذاتی کرداراورافکارکی بنیاد پرعزت ملتی ہے۔شعبدہ بازی سے شہرت تو مل جاتی مگرعزت نہیں ملتی ۔آصف علی زرداری آج پاکستان کے صدرمملکت ہیں جبکہ محمدرفیق تارڑکے پاس بھی یہ منصب رہا ہے لیکن ان دونوں شخصیات کی عزت اورشہرت میں زمین آسمان کافرق ہے،محمدرفیق تارڑکانام آج بھی احترا م سے لیا جاتا ہے۔دنیا میں کچھ لوگ عہدوں سے جانے جاتے ہیں اور کچھ شخصیات سے عہدپہچاناجاتا ہے،بابائے قوم محمدعلی جناح ؒ کے دورکوبھی ان کے نام سے شناخت ملی اورآج بھی پاکستان کوقائداعظم ؒ کاپاکستان کہا جاتا ہے۔جہاں معین قریشی ،شوکت عزیز،شجاعت حسین ،یوسف رضاگیلانی اورراجہ پرویز اشرف پاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں وہاں یہ منصب ایک مقدس امانت کی طرح ملک معراج خالد کے پاس بھی رہا ہے۔ملک معراج خالد کے وزیراعظم بننے سے انہیں نہیں بلکہ اس منصب کوعزت ملی ۔کچھ لوگ عہدہ ملنے سے بظاہر باوقار ہوجاتے ہیں اورڈاکٹر عبدالقدیرخان کی طرح کچھ احباب کے وجود بابرکت سے ان کا منصب باوقارہوجاتا ہے۔قلم قبیلے کے سرخیل ڈاکٹر اجمل نیاز ی پروفیسر رہے ہیں مگرانہیں اپنے قلم سے پرویزی آمریت کے کالے قوانین کاسرقلم کرنے کی پاداش میں پروفیسر کے منصب سے زبردستی ہٹادیا گیا تھامگراللہ پاک نے انعام کے طورپر ان کی عزت اورشناخت کو دس گنا کردیا ،آج بھی وہ سودوزیاں سے بے نیازہوکرکالم نگاری کرتے ہیں۔حاجی حبیب الرحمن کاآئی جی پنجاب کی حیثیت سے بہت احترام کیا جاتا تھا مگرآج اس سے بھی زیادہ کیا جاتا ہے،اب وہ آئی جی پی نہیں رہے مگر وہ اچھی یادوں کے ساتھ ساتھ پولیس کی باگ ڈورقائم مقام آئی جی خان بیگ ،کیپٹن (ر)محمدامین وینس،ذوالفقاراحمدچیمہ،ملک خدا بخش اعوان،کلب عباس ،ناصرخان درانی ،امجدجاویدسلیمی،محمدایملش ،اخترحیات لالیکا،رائے محمدطاہراورسیّدخرم علی شاہ کی صورت میں منجھے ،پرجوش اورذہین آفیسرز کے ہاتھوں میں چھوڑگئے ہیں۔خان بیگ کویہ عہدہ سیاسی بنیادوں پرنہیںدیا گیا بلکہ ان کی اہلیت اورصلاحیت کودیکھا گیا ہے ۔کیپٹن (ر)محمدامین وینس نے اپنی کمٹمنٹ اورپیشہ ورانہ قابلیت سے پولیس کے بارے میں عوام کی سوچ تبدیل کردی ہے۔محمدامین وینس اپنے زیرانتظام شہروں میں عوام کاپولیس پراعتماد بحال جبکہ اپنے آفیسرزاوراہلکاروں کامورال بلندکرنے میں کافی حدتک کامیاب رہے ہیں۔فوج سے پولیس میں آئے آفیسرزکی کارکردگی سے اس ادارے کی ساکھ میں نمایاں بہتری آئی ہے۔کیپٹن (ر)محمدامین وینس کی نیک شہرت میں ان کی نیک نیتی،فرض شناسی اورانسان دوستی کارفرما ہے۔رائے محمدطاہربھی اپنے کام میں مداخلت اوردباﺅقبول نہیں کرتے۔

نسیم حسن شاہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس رہے ہیں،اخباری اطلاع کے مطابق ان کی یاداشت چلی گئی ہے اور آج وہ ایک گمنام زندگی جی رہے ہیں، وہ ذوالفقاربھٹوکی سزائے موت کا متنازعہ فیصلہ سنانے والے عدالتی بینچ کاحصہ تھے، ان کایہ انجام مکافات عمل کاشاخسانہ بھی ہوسکتا ہے مگراس کے باوجود عوام نسیم حسن شاہ کی صحت اوردرازی عمرکیلئے دعاکریں۔ ایٹمی پاکستان کی باگ ڈورمسلسل نوبرس تک پرویزمشرف کے ہاتھوں میں رہی ،ان کے دورمیں ریاست،سیاسی قیادت،جمہوریت اورمعیشت کے ساتھ جوکچھ ہوا اس کیلئے فوج کوبحیثیت ادارہ کٹہرے میں کھڑانہیں کیا جاسکتا۔ماتحت عدالتوں میں سرعام رشوت وصول کی جاتی ہے مگر اس ناپسندیدہ فعل کی پاداش میں اعلیٰ عدلیہ کی کمٹمنٹ پرشبہ کرنادرست نہیں ہوگا تاہم اس منفی روش کے سدباب کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے سواکوئی بااختیار اتھارٹی نہیں ہے۔سیاست کی طرح صحافت میں بھی چند گندی مچھلیاں ہیں مگرپوری برادری کوبراکہناجائزنہیںہوگا۔ہمارے ہاں اگرکوئی کسی کے ساتھ ''واردات''کرتا ہے تووہ اس فردکی پوری برادری یاادارے یاپھرپوری قوم کو برائی کامحورقراردے دیتا ہے ۔بلاشبہ عزت ایک انعام اورنعمت جبکہ شہرت ایک بیماری اور ہوس ہے۔جوانسان عزت کی بجائے شہرت کے پیچھے دوڑتے ہیں تاریخ انہیں بھول جاتی ہے ۔ کچھ لوگ عزت اورکچھ شہرت کیلئے فلاحی کام کرتے ہیں تاہم اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف انسان کی نیت دیکھی جاتی ہے۔ ہرفرد،ادارے اورمعاشرے میں جہاںخوبیاں ہوتی ہیں وہاں خامیاں بھی ضرور ہوتی ہیں ۔دنیا کاکوئی معاشرہ اورادارہ پوری طرح گندی مچھلیوں سے پاک نہیں ہے۔تاہم ان گندی مچھلیوں کے سبب مجموعی طورپر اس ادارے کے بارے میں منفی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ۔ہم ناقص یاغیرتسلی بخش کارکردگی پرکسی فرد،ادارے یامعاشرے کوتنقیدکانشانہ توبناسکتے ہیں مگرکسی کی توہین کرنے کاہمارے پاس کوئی حق نہیں ہے۔ایک دوسرے کی عزت نفس کومجروح نہ کرنا ہمارااخلاقی فرض ہے۔ہم افراداوراداروں پرتنقیداوران کی توہین کرتے وقت ان کی معاشرے کیلئے ضرورت اور اہمیت کو کیوں بھول جاتے ہیں۔پولیس کا ادارہ کسی بھی ملک اورمعاشرے کیلئے انتہائی اہمیت کاحامل ہے ۔جس طرح ہمارے فوجی سرحدوں کے محافظ ہیں،وہ ہماری آرام دہ نیند کیلئے خود رات بھرجاگتے اوردشمن کی سنگینوںسے نکلی گولیاں روکنے کیلئے اپنے سینوں کوڈھال بناتے ہیں ۔اس طرح شہروں میںامن وامان برقراررکھنے کیلئے پولیس کے آفیسراوراہلکار سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں ۔ہمارے پا س فوج ، پولیس ،رینجرز اورمیڈیا کاکوئی متبادل نہیں ہے۔لوگ ججوں سے نہیں پولیس سے ڈرتے ہیں اورکسی بھی معاشرے میںقانون کی حکمرانی کیلئے ڈر انتہائی ضروری ہے۔عدلیہ کے احکامات کی پاسداری کیلئے پولیس اہلکار کلیدی کرداراداکرتے ہیں۔پولیس کے سوادوسراکوئی ادارہ نہیں ہے جو عدالتی احکامات کی پاسداری کویقینی بنائے لہٰذا ءاس ادارے کی خوداعتمادی اورشہریوں میں اس کاڈرختم ہوناملک اورمعاشرے کے مفادمیں نہیں۔مسجد،مدرسہ ،مجلس عزائ،مقدس شخصیات کے مزار،عرس ،عدالتوں،جلسہ ،جلوس ،بنک،میٹروبس ٹریک،وی آئی پی روٹ،ججوں کے گھروں سمیت وی آئی پی حضرات کے محلات کی حفاظت اورالیکشن ڈے سمیت کوئی بھی ہنگامی صورتحال ہوتوپولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے۔یہ چوروں،ڈاکوﺅں اورقاتلوں کاتعاقب اورانہیں گرفتارکرتے کرتے کئی بارموت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں ۔کمرہ عدالت کے اندراورباہر بھی پولیس اہلکار وں سے امن وامان اور ڈسپلن برقراررکھنے کاکام لیا جاتا ہے۔اگرپولیس نہ ہوتومعاشرے اورجنگل میں کوئی فرق نہیں رہے گا،معاشرے کے طاقتورافرادکمزوروں کاحق ہڑپ کرجائیں گے۔

دوسرے اداروں کی طرح پولیس کی کسی مجرمانہ غفلت پرجی بھر کے تنقید کی جائے،بہتری کیلئے ٹھوس تجاویز دی جائیں مگر ایک اہم قومی ادارے کی توہین انتہائی نامناسب ہے۔پنجاب پولیس تقریباً دولاکھ افراد کاایک منظم اورموثرادارہ ہے جوآئی جی کی کمانڈمیں دن رات کام کرتا ہے ،اگربدامنی کے واقعات پرآئی جی کوکٹہرے میں کھڑاکیا جائے گاتواس ادارے کی ساکھ راکھ کاڈھیربن جائے گی اوراس کاڈرجاتارہے گا۔سانحہ بادامی باغ کے حوالے سے مقامی ایس ایچ او،ڈی ایس پی کومعطل کرنے کے ساتھ ساتھ ایس ایس پی آپریشن سہیل سکھیرا اورایس پی ملتان خان کواوایس ڈی بنادیا گیا تھا،ان آفیسرز کوناکردہ گناہ کی سزاملی ۔اس سانحہ میں پولیس کی ناقص مینجمنٹ توہوسکتی ہے مگربدنیتی ہرگز نہیں تھی۔اس سانحہ کی بنیاد پرسی سی پی اولاہورامجدجاویدسلیمی کی تبدیلی سے سماجی نظام تبدیل نہیں ہوگا۔اگر خدانخواستہ لاہورمیں دوبارہ کوئی سانحہ رونماہوجاتا ہے تو کیا اس صورت میں ارباب اقتدارمحمدایملش کوبھی تبدیل کر دیں گے،اگرایساہوا توظاہر ہے اس سیٹ پرکوئی دوسرا سینئر پولیس آفیسرآ جائے گا،آسمان سے کوئی فرشتہ توآنے سے رہا۔ بار بارآفیسرز کوتبدیل کرنے کی بجائے نظام اورمائنڈسیٹ کی تبدیلی ناگزیر ہے ۔ ہمیں اپنے پولیس آفیسرز اوراہلکاروں پراعتماد کرناہوگا۔جس طرح ہم ان سے عزت کی امید کرتے ہیںاس طرح ہمیںبھی ان کااحترام کرنا وگا۔اپنے فرض منصبی کی بجاآوری کیلئے کسی بھی عہدے پرکام کرنیوالے آفیسرکاپراعتماداورخودمختار ہونا ناگزیر ہے۔ایک کسی ادارے میں دوچار چھ لوگ نااہل یابدعنوان ہیں توادارے کے سربراہ کوکٹہرے میںکھڑاکرناکہاں کاانصاف ہے ۔دوسرااگرکوئی کسی مجرمانہ اقدام میں ملوث ہے تواسے قانون کے مطابق سزادی جائے ،دنیا کاکوئی قانون کسی انسان یاآفیسر کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔چنددوسرے قومی اداروں کی طرح پولیس میں احتساب کاخودکارنظام رائج ہے ،قانون شکنی پرپولیس والے معطل ،برطرف اورگرفتاربھی ہوتے ہیں ۔سانحہ بادامی باغ پرصرف پولیس آفیسراوراہلکار جوابدہ کیوں ہے ،کمشنر ،ڈی سی اواورمقامی منتخب نمائندوں سے بازپرس کیوں نہیں کی گئی ۔بادامی باغ میں جلاﺅگھیراﺅروکتے ہوئے کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے مگراس کے باوجود پولیس کاادارہ ایک ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہے اورمجرم ہنس رہے ہیں۔کیا ریاست کے پاس پولیس کاکوئی متبادل ادارہ ہے ۔وہ شہریوں کی جان ومال اورقومی املاک کی حفاظت کیلئے اپنا آپ داﺅپرلگادیتے ہیں پھربھی انہیں اس کمٹمنٹ کاجواب نفرت سے ملتا ہے۔پولیس والے ہمارے اپنے ہیں مگرہم نے انہیں اچھوت بنادیا ہے۔ پولیس آفیسرز انگوٹھاچھاپ سیاستدانوں کی طرح ووٹ لے کرآتے ہیں اورنہ وکلاءکی طرح جوسیاسی وفاداریوں کی بنیاد پربراہ راست جج بن جاتے ہیںبلکہ یہ فوج کی طرح تعلیم وتربیت کے کئی کٹھن مرحلے طے کرکے اس مقام تک آتے ہیں۔انہیں نشان حیدر نہیں ملتامگرپھربھی شہریوں کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہیں۔یہ ہماری خاطر گولیاں کھائیں اورہماری گالیاں بھی ،یہ کہاں کاانصاف ہے ۔تعلیمی اداروں،تعلیمی بورڈ،ایل ڈی اے اورماتحت عدالتوں سمیت کیا ایساکوئی ادارہ ہے جہاں کرپشن نہیں ہوتی توپھرصرف پولیس کامیڈیا ٹرائل کیوں ۔میراہرگزیہ مطلب نہیں کہ اگردوسرے اداروں میں کرپشن ہوتی ہے توپولیس کوبھی اس کی اجازت دے دی جائے۔تاہم پولیس فورس کوکرپشن سے پاک کرنے کیلئے اسے سیاسی مداخلت سے آزاد کرناہوگا۔ سیاستدان اپنے سیاسی مفادات کیلئے اپنے وفادار ڈی پی اوزاور ایس ایچ اوزکی پوسٹنگ پراثراندازہوتے ہیں۔پولیس لائنزمیں اہلکاروں کی ڈیوٹی لگانے پرماموراہلکاروں کوپندرہ یاتیس روزکے بعدتبدیل کردیا جائے کیونکہ ان کی ملی بھگت سے کئی اہلکارگھروں میں بیٹھ کرپچاس یاستر فیصد تنخواہ وصول کرتے ہیں اوراہلکاروں کی تعدادمیں کمی کے سبب کامیاب مجرمانہ سرگرمیوں کی شرح بڑھ گئی ہے۔ایک اوراہم بات واپڈاکی طرزپرہرتھانہ میں ایک ایک موبائل فون دیا جائے جوایس ایچ اوزکے استعمال میں ہوکیونکہ ایس ایچ اوزآئے روزتبدیل ہوجاتے ہیں اور پھر شہریوں کو رابطہ کرنے کیلئے نئے ایس ایچ اوکاموبائل نمبر تلاش کرناپڑتا ہے۔میں سمجھتا ہوں بدترین سیاسی مداخلت اورمعاشرے میں پھیلی جہالت کے باوجودپولیس بحیثیت ادارہ ڈیلیور کررہا ہے۔ہمارے محافظ حوصلہ شکنی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی اورعزت افزائی کے مستحق ہیں۔پولیس اہلکاربھی شہریوں کوعزت دیں یقیناانہیں بھی احترام ملے گا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.