بروقت اقدام سے گریز ---- ملی نقصان

بروقت اقدام نہ کر کے بعد از مرگ واویلا کرنا ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے اس کے ساتھ ہی ہم عملی اقدامات کی جگہ زبانی جمع خرچ کے عادی ہوگئے ہیں۔ ہماری یہ عادت خاصی قدیم بھی ہے (19ویں) صدی میں سرسید احمد خاں پہلی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کے پہلے مصلح ہی نہیں تھے بلکہ دانشور اور سیاہی رہنما بھی تھے لیکن مؤرخ سرسید کو صرف ماہر و مبلغ تعلیم بتاکر مصلحت کے تقاضوں کو یوں ہی پورا کرتا ہے جس طرح مولانا محمد علی جوہر کو مسلم لیگ کے بانیوں یا 1929ء میں کانگریس سے علاحدگی اختیار کرنے والوں میں نہیں بتایا جاتا ہے یہ تو تھا ایک جملہ معترضہ۔ سرسید کی مخالفت کرنے والوں میں دانشور اور طنز و مزاح کے شاعر اکبر الٰہ آبادی بھی شامل تھے لیکن سرسید کی وفات کے بعد اپنے جن اشعار سے خراجِ عقیدت پیش کیا تھا اس کا ایک مصرع کچھ یوں تھا۔ ’’ہماری باتیں ہی باتیں ہیں اور سید کام کرتا تھا‘‘۔ سرسید کے دور میں بھی سرسید احمد خاں کی طرح کام کرنے والا کوئی نہ تھا ہاں اعتراض کرنے والے یعنی باتیں بنانے والے بہت تھے اور آج زائد از ایک صدی بعد ہم اپنی قدیم روش پر قائم ہیں اور اس کی وجہ سے ہم خاصے شدید نقصانات اٹھاتے رہے ہیں۔ آزادی کے بعد 1960ء کی دہائی میں مسلم مجلس مشاعرت کے قیام تک مسلمانانِ ہند قومی سطح پر کام کرنے والی مسلم قیادت سے محروم تھے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد، آصف علی اور رفیع احمد قدوائی وغیرہ مسلمانوں کے نہیں کانگریس کے قائد تھے۔ 1971ء کی ہند۔پاک جنگ اور اس کے بعد اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ہنگامی حالت(ایمرجنسی) نے مسلم قیادت کے حوصلے پست کردئیے تھے۔ ایمرجنسی سے قبل اور 1947ء کے بعد کے درمیانی عرصہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ’’مسلم کردار‘‘ کو ختم کرنے والے اقدامات کے موقع پر بے شک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ ہنگامی حالات کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ مسلمانوں نے کانگریسی حکومت کو آزادی کے بعد پہلی مرتبہ اقتدار سے محروم کیا یہ مسلمانان ہند کی اجتماعی بیداری کا پہلا مظاہرہ تھا لیکن مسلمان اس کو برقرار نہ رکھ سکے اور بروقت کارروائی نہ کرتے ہوئے بعد از مرگ واویلا کا سلسلہ سالوں سے جاری ہے اس کی تازہ مثال افضل گرو کی پھانسی کے بعد سپریم کورٹ کے اس فیصلے (جس کی بنیاد پر افضل گرو کو پھانسی ہوئی ہے) پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔ اس فیصلے میں صرف واقعاتی یا قرائنی شواہد (پختہ ثبوت کی عدم موجودگی میں) کی بناء پر محض اجتماعی ضمیر کی تسلی کے لیے افضل گرو کو سزائے موت دینا ضروری مانا گیا۔ واضح ہو کہ یہ فیصلہ 2005ء میں صادر کیا گیا تھا لیکن ’’اجتماعی ضمیر کی تسکین‘‘ کے لیے سزائے موت دئیے جانے والی کا چرچا اب ہورہا ہے جبکہ سالوں ہم خاموش رہے ۔ شائد عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے ہی حوصلہ پاکر ممکن ہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ’’عقیدہ‘‘ کی بنیاد پر ہی بابری مسجد کی جگہ کو شری رام چندر جی کی جائے پیدائش تسلیم کرکے مسجد کی پوری زمین کو مسلمانوں کی ملکیت بھی تسلیم نہیں کیا اور ہم اب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں۔

حال ہی میں مجلس اتحادالمسلمین کے جواں سال اور بے باک قائد اکبر الدین اویسی کو اپنی ایک دو تقریروں کے سلسلے میں کئی مقامات پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ایک معاملے میں ایک سے زائد شکایات اور مقدمات درج کرنے پر روک لگانے سے حیدرآباد کی عدالت العالیہ کے اک فاضل جج نے انکار کردیا۔ مجلسی قیادت نے اس وقت ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیالنج کرنے کی ضرورت کیوں نہیں سمجھی۔ اور اب یہ مسئلہ بہ انداز دگر اٹھایا گیا ہے۔ دوسری طرف جے پور میں منعقدہ ایک ادبی اجلاس میں ’’بے ادبی‘‘ زیادہ ہوئی، اسی میں ممتاز مصنف اشیش نندی کی ایک قابل اعتراض تقریر بھی شامل ہے جس کے خلاف متعدد مقامات پر شکایات درج کی گئیں وہ اس مصیبت سے بچنے کے لیے (جس سے آج اکبر الدین اویسی دوچار ہیں) عدالت عظمیٰ سے رجوع ہوکر یہ حکم حاصل کرلیا کہ نندی کے خلاف الگ الگ مختلف مقامات پر شکایات درج نہیں کی جائیں!

بابری مسجد پر یاد آیا کہ بابری مسجد کی ملکیت کا مقدمہ ہم نے بالکل آخری وقت میں دائر کرکے ہر معاملہ 12-11 سال کے لیے متاخر کرلیا تھا لیکن 1950ء کی دہائی مسلمانوں کے لیے مرعوبیت اور خائف رہنے کا دور تھا ۔ 1980ء کی دہائی میں حالات مختلف تھے لیکن مسلمان اپنی اہمیت کا اندازہ نہ کرسکے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے اپنے نمائندے جو اسمبلیوں یا پارلیمان یا کابینہ میں مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے شامل کئے جاتے ہیں وہ خود کو مسلمانوں کا نمائندہ نہیں مانتے ہیں بلکہ سیکولر بن جاتے ہیں۔ اپنی کرسی کی خاطر وہ ہر قسم کی ذلت برداشت کرتے ہیں لیکن اپنی کرسی نہیں چھوٹے ہیں ان کی اس بے عملی اور اقتدار سے محبت خود ان کی قوم کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت (1992ء) کے بعد ملک بھر میں کسی مسلمان وزیر، رکن پارلیمان اور رکن اسمبلی یا کسی نیم سرکاری ادارے کے صدرنشین نے استعفیٰ نہیں دیا اگر تمام مسلمان نہ سہی بیشتر مسلمان بھی مستعفی ہوجاتے تو حکومت پر دباؤ پڑتا گوکہ ہم اس وقت ملک سے باہر تھے۔ تاہم وطن عزیز کی اتنی خبر ضرور رکھتے تھے کہ آج بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی اہم فرد یا بااثر مکتب فکر کی طرف سے مسلمان وزرأ اور عوامی نمائندوں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی نہیں کیا لیکن ہم مسلمان آج ضرور کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہوا وہ نہیں ہوا؟

ملک کی عدالتوں میں ’’عوامی مفاد‘‘ یا ’’مفاد عامہ‘‘ کے تحت سینکڑوں مقدمات دائر کئے جاتے ہیں لیکن ہم نہ صرف عدالتوں سے دور رہتے ہیں بلکہ دستور وقانون کی دی ہوئی مراعات سے فائدہ اٹھانے سے نہ دلچسپی رکھتے ہیں نہ ہی ہم اس تعلق سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم میں قانون دانوں، ماہرین دستور یا ایڈوکیٹس کی کمی ہے اور جو ہیں ان کو قومی معاملات سے دلچسپی کم ہے یا وہ مصلحتوں کا شکار ہیں۔ حال ہی میں مختلف ٹی وی چیانلز پر افضل گرو کے معاملے میں مباحثے ہوئے ان مباحثوں میں ممبئی کے ایک ممتاز مسلمان ایڈوکیٹ نے ’’وکیل سرکار‘‘ کا رول اختیار کرتے ہوئے ہر نکتہ پر حکومت کی زبردست تائید کی!

بابری مسجد کے معاملے میں گزشتہ (65) سے عدالتوں یا قانونی جنگ میں وہ سرگرمی نہیں دکھائی جو دکھانی چاہئے تھی بعض فیصلوں کے خلاف ہم نے اپیل نہیں کی یا عدالت عظمیٰ میں ’’نظرثانی (Review) کی اپیل نہیں کی ’’جوں کی توں حالت(Status Quo)‘‘ کی برقراری کا احکام سے ہم نے ہمیشہ نقصان اٹھایا ہے بلکہ بابری مسجد کے ہمارے ہاتھ سے نکل جانے میں ’’جوں کی توں حالت‘‘ کے احکام کا بڑا دخل رہا ہے۔ عمل یا اقدام کے خلاف ایسے احکامات کے تعلق سے نظرثانی کی درخواست ہم نے شائد ہی کبھی داخل کی ہو!

وزیر اعلیٰ کشمیر فاروق عبداﷲ کو افضل گرو کی پھانسی کے بعد بہت کچھ کہنا یادآیا لیکن جن تین اہم باتوں کی انہوں نے نشاندہی کی ہے وہ موصوف خود بھی کرسکتے تھے۔ ’’اجتماعی ضمیر کی تسکین‘‘ کی وہ اب وضاحت چاہتے ہیں! ( موصوف 2005ء سے جبکہ فیصلہ آیا تھا کیا کررہے تھے؟ ۔ وزیر اعلیٰ کشمیر کو افضل گرو کے خاندان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا ذکر تو کردیا لیکن وہ خود 9-8 فروری کی درمیانی شب میں (یا اس سے قبل) دہلی سے سری نگر روانہ ہونے سے قبل اس سلسلے میں معلومات حاصل کرکے وہ بیگم افضل گرو کو اس تعلق سے نہ صرف معلومات پہنچاسکتے تھے بلکہ افضل گرو کے خاندان کی دہلی روانگی کے انتظامات بھی کرسکتے تھے وہ اب افضل گرو کی لاش ان کے ورثاء کے حوالے کئے جانے کے لیے حکومت ہند پر دباؤ ڈال سکتے ہیں لیکن یہ سب کچھ کرتے ہوئے ان کو ڈر لگا رہتا ہے کہ ’’شیر کشمیر‘‘ شیخ عبداﷲ کے پوتے کو وزارت اعلیٰ خطرے میں پڑجائے گی۔

مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے بل پارلیمان میں پیش ہوتے ہیں پاس ہوجاتے ہیں اور ہم بعد میں واویلہ مچاتے ہیں حکومت بھی اس سلسلے میں چالاکی دکھاتی ہے۔ مسلم اراکان کی غیر موجودگی میں بل پیش کرتی ہے بل کے مسودہ کے مطالعہ کا موقع نہیں دیا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر ’’بے میم کے مسلمان‘‘ بل پیش کرتے ہیں تو مسلم ارکان اس وقت نماز جمعہ کے لیے گئے ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرز عمل سے کتنے مسلمان ارکان پارلیمان نے احتجاج کیا؟

حال ہی میں حکومت آندھراپردیش نے تمام اسکولوں میں پہلی جماعت سے تلگو کی تعلیم لازمی کردی ہے ۔ اردو آندھرا کے بہت بڑے علاقے کی دوسری سرکاری زبان ہے جن اضلاع میں اردو سرکاری زبان دوم ہے وہاں یہی حکم اردو کے تعلق سے آنا چاہئے تھا لیکن اردو تو برائے نام سرکاری زبان ہے۔ حکومت کو پتہ ہے کہ اردو والے اس پر خاموش رہیں گے کریں گے تو بیان بازی کریں گے جبکہ اسمبلی میں سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ کئی درخواستیں اور میمورنڈم حکومت کو پیش کئے جاسکتے تھے۔ کامیابی نہ ہوتو مفاد عامہ کے تحت عدالت سے رجوع ہوسکتے ہیں۔ اب آپ خود دیکھ لیں گے کس نے کیا کیا؟ کون کیا کرسکتا تھا اور اس نے کیا کیا؟ اور بغیر کچھ کئے بیان بازی کون کرتا رہا ہے۔

اگر مسلم عوام اب بھی نہیں جاگیں گے تو ہمارے رہنماؤں اور زعماء کی بے عملی، بروقت اقدام نہ کرنے اور محض بیان بازی کے لیے ’’بعد از مرگ واویلا‘‘ ہی کرتے رہیں۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.