سازشی تجزیے

پچھلے چند ہفتوں سے لانگ مارچ کے بارے میں انواع و اقسام کے تجزیے پڑھ پڑھ اور سُن سُن کر میرا دماغ اس قدر"پولا"ہو گیا ہے کہ مُجھے یقین ِ کامل ہے کہ لانگ مارچ کے موضوع پر اگر میں بھی کُچھ لکھوں گا تو گھسا پٹا تجزیہ ہی برآمد ہو گا۔ موجودہ اور پچھلے دو تین ہفتوں کی صورتحال کو مدِ نظر رکھ کر میں نے کچھ ایسے جملے منتخب کیے ہیں جو کم و بیش ہر وقت، ہر ماحول، ہر شخص اور ہر حکومت پر فِٹ بیٹھتے ہیں، نمونے ملاخطہ کیجئے:

(1)یہ ایک گہری سازش ہے: ہمارے ہاں ہر وہ چیز جو ہمارے مزاج کے خلاف ہو، ایک گہری سازش لگتی ہے۔ حکومتیں جب بھی یہ جُملہ بولیں، فوراً سمجھ جانا چاہیے کہ اُن کا اشارہ اپوزیشن کی طرف ہے۔ تاہم اپوزیشن بہت کم ایسا اشارہ کرتی ہے کیونکہ وہ براہِ راست حکومت کا نام لیتی ہے۔ "یہ گہری سازش"والا فقرہ اپنی نا اہلی کو چھپانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ الیکشن میں ہارنے والے امیدوار کو اپنی شکست مُخالف اُمیدوار کی گہری سازش نظر آتی ہے حالانکہ خدا جانتا ہے ایسی عُمدہ اور"گہری سازش"سادہ لوح عوام سے بہتر کوئی کر ہی نہیں سکتا۔(2)سولہ کروڑ عوام ہمارے ساتھ ہیں: حکومت سولہ کروڑ عوام کے ساتھ ہو نہ ہو، سولہ کروڑ عوام ہر حکومت کے ساتھ ضرور ہوتے ہیں۔ حبیب جالب مرحوم نے "دس کروڑ"کو "جہل کا نچوڑ"کہا تھا لیکن میں ایسا نہیں کہوں گا۔ہمارے ہاں ہر پارٹی کے ساتھ سولہ کروڑ عوام ہیں خواہ یہ سولہ کروڑ اُسے سولہ ووٹ بھی نہ دیں۔ پس ثابت ہوا کہ اپنے کسی بھی عمل کے ساتھ سولہ کروڑ عوام کی حمایت کا دُم چھلا لگانا "پولیٹیکل سٹیٹس سمبل"ہے۔ (3)آئندہ 48 گھنٹے بہت اہم ہیں: اس کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ اگلے 48 گھنٹوں یعنی دو دن تک کوئی شادی، منگنی یا ولیمے کی تقریب کا اہتمام نہ کریں ۔ یہ 48 گھنٹے عموماً دو ہفتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ (4)سب امریکہ کروا رہا ہے:طویل تحقیق کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ واقعی لوگ غلط نہیں کہتے، سب کچھ امریکہ ہی کروا رہا ہے۔ تاہم راجو بلیکس یکسر اِس بات سے منحرف ہو چکا ہے۔ اس سے قبل وہ پورے یقین سے کہتا تھا کہ لاہور سے گوجرانوالہ کی برسوں سے ٹوٹی پھوٹی سڑک بھی امریکہ کی وجہ سے نہیں بن رہی، موٹر وے پر ریسٹ ایریا میں دکانداروں کی اوور چارجنگ بھی امریکی ایما پر ہو رہی ہے، ٹی ہاؤس بھی امریکہ نے بند کر دیا تھا، الحمراء لاہور کی ادبی بیٹھک میں غیرادیبوں کے داخلے کا ذمہ دار بھی امریکہ ہے ۔(5)ملک بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے:ہمارا ملک 1947 سے بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کو بحرانی کیفیت سے صرف حکومت ہی نکال سکتی ہے تاہم اس کے لئے حکومت کی شرط ہوتی ہے کہ اُسے چاروں صوبوں میں کلیدی عہدے دیئے جائیں۔ سینٹ بھی اُس کے پاس ہو، چاروں گورنرز اور چاروں وزیر اعلیٰ بھی اُسی کے ہوں، چونکہ ایسا کم ہوتا ہے اس لئے ملک کی بحرانی کیفیت بھی جوں کی توں رہتی ہے۔(6) اس واقعے میں کوئی بیرونی ہاتھ ہے:یہ جملہ بھی ”مُستند “ بیزار جملوں کی فہرست میں ٹاپ ٹین میں شامل ہے۔ ہر بڑے حادثے کے بعد اس کا مُدعا بیرونی ہاتھ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ بیرونی ہاتھ آج تک دریافت نہیں ہو سکا اس کے باوجود یہ کہیں نہ کہیں سے آن ٹپکتا ہے۔(7)مجھے تو پہلے ہی پتا تھا کہ ایسا ہوگا: ہم سب کو پتا ہوتا ہے کہ ایسا ہو گا لیکن ہم پھر بھی نہیں سُدھرتے۔ ببلی کہتی ہے ”مجھے چھ مہینے پہلے ہی پتا چل گیا تھا کہ جج بحال ہو جائیں گے“ میں نے حیرت سے پوچھا ، ”چھ مہینے پہلے تمہیں کس وکیل نے اتنی پکی اطلاع دے دی؟“ وہ اٹھلا کر بولی ”مجھے کسی وکیل نے نہیں بلکہ میرے موکلوں نے بتایا تھا“ ہمارے اکثر لوگ اسی طرح اپنا source نہیں بتاتے، بس انہیں ہر بات کا پتا ہوتا ہے۔ کچھ باتیں تو ایسی بھی ہیں جو شاید ”ایجنسیوں “ کے بھی علم میں نہ ہوں۔

مجھے بھی بہت سی باتوں کا پہلے سے پتا ہوتا ہے لیکن بتاؤں گا اُس وقت جب وہ وقوع پذیر ہو جائیں گی۔۔۔۔۔ یہی احتیاط کا تقاضا ہے۔

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 60728 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.