تذکرۂ غوث اعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم(قادِریوں کیلئے بِشارت)

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

(۸)25برس جنگلوں میں ۔۔۔
سرکارِ بغدادحُضورِ غوثِ پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی مَحَبَّت کا دم بھرنے والے اسلامی بھائیو! سرکارِغوثِ اعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم نے پچیس برس اﷲعَزَّوَجَلَّ کی رِضا کے لئے عِراق کے جنگلوں میں گزار دیئے ۔ کاش!ہمیں بھی تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیرغیر سیاسی تحریک’’دعوتِ اسلامی ‘‘کے سنّتوں کی تربیّت کی خاطر گاؤں بہ گاؤں ، شہر بہ شہر اورملک بہ ملک سفر کرنے والے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سفر کرنا نصیب ہوجائے ۔

(۹)زمین سے چُن چن کر ٹکڑے کھانا
سرکارِبغداد حضورِ غوثِ پاک رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ، میں شہر میں کھانے کے ارادے سے گرے پڑے ٹکڑے یا جنگل کی کوئی گھاس یا پتّی اٹھانا چاہتا اور جب دیکھتا کہ دوسرے فُقَراء بھی اِسی کی تلاش میں ہیں تو اپنے اسلامی بھائیوں پر ایثار کرتے ہوئے نہ اُٹھاتا بلکہ یونہی چھوڑدیتا تاکہ وہ اُٹھاکر لے جائیں اورخود بھوکا رَہتا۔ جب بھوک کے سبب کمزوری حد سے بڑھی اور قریبُ الْموت ہوگیا تو میں نے پھول والے بازار سے ایک کھانے کی چیز جو زمین پر پڑی تھی اُٹھائی اورایک کونے میں جاکر اُسے کھانے کیلئے بیٹھ گیا ۔اتنے میں ایک عَجمی نوجوان آیا، اُس کے پاس تازہ روٹیاں اوربھُنا ہوا گوشْتْ تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا ۔ اس کو کھاتا دیکھ کر میری کھانے کی خواہِش ایک دَم شدَّت اختیا ر کرگئی ۔ جب وہ اپنے کھانے کے لیے لُقمہ اٹھاتا تو بھوک کی بے تابی کی وجہ سے بے اختیارجی چاہتا کہ میں مُنہ کھول دوں تاکہ وہ میرے منہ میں لقمہ ڈال دے ۔ آخِر میں نے اپنے نَفْس کو ڈانٹا کہ ’’بے صبری مت کر اﷲ عَزَّوَجَلَّ میرے ساتھ ہے ۔ چاہے موت آجائے مگر میں اِس نوجوان سے مانگ کر ہرگز نہیں کھاؤں گا۔‘‘

یکایک وہ نوجوان میری طرف مُتَوجِّہ ہوا اورکہنے لگا، بھائی !آجائیے آپ بھی کھانے میں شریک ہوجائیے۔ میں نے انکار کیا ۔ اس نے اِصرا ر کیا ، میرے نفس نے مجھے کھانے کے لئے بہت اُبھارا لیکن میں نے پھر بھی انکار ہی کیا مگر اُس نوجوان کے پَیْہم اِصرار پر میں نے تھوڑا ساکھانا کھالیا ۔ اُس نے مجھ سے پوچھا ، کہاں کے رَہنے والے ہو؟ میں نے کہا،جِیلان کا ۔ وہ بولا، میں بھیجِیلان ہی کا ہوں ۔ اچھّایہ بتاؤ تم مشہور زاہِد حضرت سیِّد عبداﷲ صَومعی علیہ رحمۃ اﷲ القوی کے نواسے عبدُالقادِر کو جانتے ہو؟میں نے کہا، ’’وہ تو میں ہی ہوں۔‘‘یہ سُن کر وہ بے قرار ہوگیا اورکہنے لگا کہ میں بغداد آنے لگاتو آپکی امّی جان نے آپ کو دینے کے لئے مجھے 8 سَونے کی اشرفیاں دی تھیں میں یہاں بغداد آکرتَلاشتا رہا مگر آپ کا کسی نے پتا نہ دیا یہاں تک کہ میری اپنی تمام رقم خَرچ ہوگئی۔تین دن تک مجھے کھانے کو کچھ نہ ملا، میں جب بھوک سے نِڈھال ہوگیا اورمیر ی جان پربن گئی تو میں نے آپ کی امانت میں سے یہ روٹیاں اوربھُنا ہوا گوشْتْ خریدا۔ حضور! آپ بھی بخوشی اسے تناوُل فرمائیے کہ یہ آپ ہی کا مال ہے ۔پہلے آپ میرے مہمان تھے اوراب میں آپ کا مہمان ہوں۔ بقیّہ رقم پیش کرتے ہوئے بولا، میں مُعافی کا طلب گارہوں ۔ میں نے اِضطِراری حالت میں آپ کی رقم ہی سے کھانا خریداتھا۔میں بَہُت خوش ہوا۔ میں نے بچا ہوا کھانا اورمزید کچھ رقم اس کو پیش کی اس نے قَبول کی اور چلا گیا۔
(الذیل علی طبقات الحنابلۃ، ج۳،ص۲۵۰، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
طلب کا منہ تو کس قابِل ہے یا غوث
مگر تیرا کرم کامِل ہے یا غوث

محترم قارئین کرام!دیکھا آپ نے! ہمارے غوثُ الاعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم کا ایثار کتنا زبردست تھا اور آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اپنے نَفْس پر کس قدرغَلَبہ حاصل کرلیاتھا۔

(۱۰)بیدار رَہنے کا عجیب نُسخہ
سرکارِ غوثُ الاعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم تَحدیثِ نعمت اوراپنے غلاموں کی نصیحت کے لئے فرماتے ہیں، الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں پچیس سال تک عراق کے ویرانوں میں پھرتا رہا، اورچالیس سال تک عشاء کی نَماز کے وُضُو سے فجر کی نماز ادا کی، پندرہ سال تک روزانہ بعدنَمازِ عشاء نَوافِل میں ایک قرآنِ پاک خَتْم کرتا رہا۔ ابتِداء میں اپنے بدن پر رسّی باندھ کر اس کا دوسرا سِرا دیوار میں گڑی ہوئی کُھونٹی سے باندھ دیا کرتا تھاتاکہ اگر نیند کا غَلَبہ ہوتو اُ سکے جھٹکے سے آنکھ کھُل جائے۔ (بَہْجَۃُ الأسرارومعدن الأنوار،ص۱۱۸)

ایک رات جب میں نے اپنے معمولات کا قصدکیا تو نفس نے سستی کرتے ہوئے تھوڑی دیر سوجانے اوربعد میں اُٹھ کر عبادت بجالانے کا مشورہ دیا ۔ جس جگہ دل میں یہ خیال آیا تھا اُسی جگہ اور اُسی وقْت ایک قدم پر کھڑے ہوکر میں نے ایک قرآن شریف خَتْم کیا ۔ (بَہجَۃ القادریہ)
گِرانے لگی ہے ہمیں لغزشِ پا
سنبھالو! ضَعیفوں کو یا غوثِ اعظم

غوثُ الاعظمعلیہ رحمۃ اﷲ الاکرم کی مَحبَّت کا دم بھرنے والو!دیکھا آپ نے ! سرکارِ بغدادحُضورِ غوثِ پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کس قَدَر عبادت کا اہتمام فرماتے تھے !اب اگر ہم سے مَعاذَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پانچ وقْت کی نَماز بھی نہ پڑھی جائے تو ہم کس قِسم کے عاشِقانِ غوثُ الاعظمعلیہ رحمۃ اﷲ الاکرم ہیں؟

مجھے اپنی الفت میں ایسا گُما دے
نہ پاؤں پھر اپنا پتا غوث ِاعظم

(ذوق نعت)

(۱۱)صاحِبِ قَبْر کی امداد
پِیروں کے پِیر ، روشن ضمیر ،شیخ عبدُالقادِرجِیلانی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّبّانی بروز بدھ ۲۷ذُوالحجَّۃُ الْحرام ۵۲۹ ھ کو شونیزیہ قبرِستان میں اپنے استاذِ محترم حضرتِ سیِّدُنا شیخ حَمّادشِیرہ فروش رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے مزار شریف پر عُلَماء وفُقَراء کے قافِلہ کے ہمراہ تشریف لے آئے اورکافی دیر تک کھڑے کھڑے دُعاء فرماتے رہے یہاں تک کہ دھوپ بَہُت تیز ہوگئی۔ جب لوٹے تو آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے چہر ۂ انورپر بَشاشت کے آثار تھے ۔ جب آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ سے اِس قَدَرطویل دُعاء کا سبب در یافت کیا گیا توفرمایا ، ’’۱۵ شعبانُ المُعظّم ۴۳۹ ھ بروز جُمُعہنَماز ادا کرنے کے لیے اس مزار میں آرام فرمانے والے میرے اُستاذِ گرامی سیِّدُنا شیخ حَمّادشِیرہ فَروش رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے ساتھ ایک قافِلہ جانب ِ’’ جامِع الرّضافہ‘‘ رواں دواں تھا۔ راستے میں ایک نَہَرکے پُل پر سے جب گزر ے توشیخ حَمّاد علیہ رحمۃ اﷲ الجواد نے اچانک مجھے دھکّا دے کرنَہَر میں گرادیا! سخْت سرد یو ں کے دن تھے ، میں نے بسم اللّٰہ پڑھ کرغُسلِجُمُعہ کی نیّت کرلی ۔ جُوں تُو ں پانی سے نکلااوراپنا صُوف(یعنی اُون کا جُبّہ) نِچوڑا اورقافِلے سے جا ملا ۔شیخ حَمّاد علیہ رحمۃ اﷲ الجواد کے مُرید خوش طَبْعی کرنے لگے ۔آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے انہیں ڈانٹا اور فرمایا، میں نے عبدُالقادِرکا امتحا ن لیا جس میں ان کو پہاڑ کی طرح مُسْتَحکَم پایا ۔حُضورِ غوثِ اعظم علیہ رحمۃاﷲ الاکرم نے مزید فرمایا کہ میں نے اپنے اُستاذ سیِّدُنا شیخ حَمّاد علیہ رحمۃ اﷲ الجواد کو ان کے مزارِ پُر انوار میں ہِیرے اور جواہرات کے لبا س میں ملبوس سرپر یاقوت کا تاج پہنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن اورپاؤں میں سونے کی نعلینِ شریفین میں ملاحَظہ کیا۔ مگر تَعَجُّب خیز بات جو دیکھی وہ یہ تھی کہ ان کا دایاں ہاتھ کام نہیں کررہا تھا ۔ میرے اِستِفسا ر پر بتایا ، ’’یہ وُہی ہاتھ ہے جس سے میں نے آپ کو نَہَر میں دھکیلا تھا۔کیا آپ مجھے مُعاف کرتے ہیں ؟ جب میں نے مُعاف کردیا تو اُنہوں نے کہا کہ آپ اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دُعاء فرمادیجئے کہ میرا دایاں ہاتھ ُدرُست ہوجائے ۔ لہٰذا میں اﷲ عَزَّوَجَلَّ سے دُعاء مانگتا رہا اورپانچ ہزار اَصحابِ مزار اولیاء ُ الغَفّا ر اپنے اپنے مزار میں ا ٰمین کہتے اورمیری سِفارش کرتے رہے یہاں تک کہ اﷲ عَزَّوَجَلَّنے انکا دایاں ہاتھ دُرُست فرمادیا جس سے اُنہوں نے خوش ہوکرمجھ سے مُصافَحہ کیا۔‘‘

بغدادِ مُعَلّٰیمیں جب یہ خبر مشہورہوئی تو سیِّدُنا شیخ حَمّاد علیہ رحمۃ اﷲ الجواد کے بعض مُریدین پر شاق گزرااوروہ تصدیق کیلئے دربارِغوثیہ میں حاضِر ہوئے مگر آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی ہیبت کے سبب کسی کو پوچھنے کی ہمّت نہ ہوئی۔ پِیرانِ پیر روشن ضمیر،حُضُور غوثُ الاعظم دَسْتْ گیرعلیہ رحمۃ اﷲ القدیر نے ان لوگوں کے دلوں کا حال جان لیا اورخود ہی ارشاد فرمایا، آپ حضرات دوشیخ پسند کرلیں جو آپ کا یہ مسئلہ (مَسْ۔ ءَ۔لَہ) حل کریں ۔ چُنانچِہ یہ مُعاملہ حضرتِ سیِّدُنا شیخ یوسُف ہَمدانی اور حضرتِ سیِّدُناشیخ عبدالرحمن کُردی رحمہماا للّٰہ تعالٰی جو کہ اصحاب ِکشَف تھے سونپ دیا گیا اورحضورِ غوثُ الاعظم علیہ رَحمۃُ اﷲ ِالاکرم کی خدمت میں عرض کردی گئی کہ ہم آپ کو جُمُعہ تک مُہْلَت دیتے ہیں کہ یہ دونوں حضرات آپ کی تصد یق کردیں۔حضرتِ سیِّدُنا غوثِ اعظم علیہ رَحمۃُ اللّٰہِ الاکرم نے فرمایا ، ان شاءَ اللّٰہعزوجل آپ حضرات یہاں سے اُٹھنے بھی نہ پائیں گے کہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ یہ فرماکر حُضُور ِغوثِ اعظم علیہ رَحمۃُ اللّٰہِ الاکرمنے سرِانور جھُکالیا۔تمام حاضِرین نے بھی اپنا سرجھُکالیا۔ اتنے میں حضرتِ سیِّدُنا شیخ یوسُف ہمدانی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّباّنی پابَرہنَہ( یعنی ننگے پاؤں) جلدی جلدی تشریف لائے اوراِعلان کیا کہ اﷲ عَزَّوَجَلَّ کے حُکْم سے ابھی ابھی مجھ پر شیخ حمّاد علیہ رحمۃ اللّٰہ الجواد ظاہِر ہو ئے اورحُکْم دیا کہ فوراً شیخ عبدُالقادِرجیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّورَانی کے مدرَسہ میں جاکر سب کو یہ بتا دو، شیخ عبدُالقادرجیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّورَانینے آپ حضرات کو میرے بارے میں جو کچھ بتایا ہے وہ سچ ہے ۔‘‘ اتنے میں حضرت ِ سیِّدُناشیخ عبدالرحمن کُردی علیہ رحمۃ اﷲ القوی بھی آگئے اورانہوں نے بھی حضرتِ سیِّدُنا شیخ یوسُف ہمدانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّورَانی کی طرح ہی کہا۔ اس پر تمام حضرات نے حُضُورِ غوثِ اعظمعلیہ رحمۃ اﷲ الاکرم سے مُعافی مانگی ۔
(بَہجَۃ الأسرار و معدن الأنوار،ص۱۰۷)

جو ولی قبل تھے یا بعدہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا


قادِریوں کیلئے بِشارت
بَہجَۃُ الْاَسرار میں ہے ،پِیروں کے پِیر،پِیردسْتْ گیر،روشن ضمیر ، قُطبِ رَبّانی، محبوبِ سُبحانی ، پیرِلاثانی ،قِندِیلِ نُورانی،شَہبازِ لامکانی ، اَلشَّیخ ابو محمد سیِّد عبدُالقادِر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبّانیکا فرمانِ بِشارت نشان ہے ، مجھے ایک بَہُت بڑا رجسٹر دیا گیا جس میں میرے مُصاحِبوں اور میرے قِیامت تک ہونے والے مُریدوں کے نام درج تھے اورکہا گیا کہ یہ سارے افراد تمہارے حوالے کردیے گئے ہیں ۔ فرماتے ہیں ، میں نے داروغۂ جہنَّم سے اِسْتِفْسار کیا ، کیا جہنَّم میں میرا کوئی مُرید بھی ہے ؟ اُنہوں نے جواب دیا ،’’نہیں ۔‘‘آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے مزید فرمایا ، مجھے اپنے پروَرْدْگارعَزَّوَجَلَّ کی عزّت وجلا ل کی قسم !میرا دستِ حمایت میرے مُرید پر اس طرح ہے جس طرح آسمان زمین پر سایہ کناں ہے ۔ اگر میرا مُرید اچھّا نہ بھی ہوتو کیا ہوا ! الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں تو اچھّا ہوں ۔ مجھے اپنے پالنے والے عَزَّوَجَلَّ کی عزَّت وجلال کی قسم !میں اُس وقْت تک اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ سے نہ ہٹوں گا جب تک اپنے ایک ایک مُرید کو داخلِ جنَّت نہ کروالوں ۔ (بَہْجَۃُ الاَسرار ومَعدن الانوار، ص۱۹۳)

سرکارِ بغداد حُضُورِ غوثِ پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ، اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مُریدوں اورمیرے دوستوں کو جنَّت میں داخِل کرے گا۔تو جو کوئی اپنے آپ کو میرا مُرید کہے میں اسے قَبول کر کے اپنے مُریدوں میں شا مِل کرلیتاہوں اور اس کی طرف اپنی توجَّہ رکھتاہوں ۔ میں نے مُنکَر نکیرسے اس بات کا عہد لیا ہے کہ وہ قبر میں میرے مُریدوں کو نہیں ڈرا ئیں گے ۔ (بَہجَۃُ الأسرار ومعدن الأنوا ر ،ص ۱۹۳ملخصاً)

سنا لا تَخَفْ تیرا فرمانِ عالی!
غلاموں کی ڈھارس بندھی غوث اعظم

(قَبالۂ بخشِش)
’’یا غوثِ اعظم نگاہِِ کرم‘‘ کے سولہ
حُرُوف کی نسبت سے مُرشد کے16 حقوق

میرے آقا اعلیٰحضرت،اِمامِ اَہلسنّت، ولیٔ نِعمت،عظیمُ البَرَکت،عظیمُ المَرْتَبت،پروانۂِ شمعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِٔ سنّت،ماحِیِٔ بِدعت، عالِمِ شَرِےْعَت،پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علّامہ مولیٰناالحاج الحافِظ القاری الشّاہ امام اَحمد رضاخانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں،’’مُرشِدکے حُقوق مُرید پر شُمار سے (بھی) افزوں (بڑھ کر)ہیں،خُلاصہ یہ ہے کہ﴿ا﴾ ِان کے ہاتھ میں’’ مُرد ہ بدستِ زندہ‘‘( یعنی زندہ کے ہاتھو ں میں مُردہ کی طرح ) ہوکر رہے﴿۲﴾ اِن کی رِضا کو اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا اِن کی خوشی کو اﷲ عَزَّوَجَلَّ کی خوشی جانے﴿۳﴾انہیں اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے﴿۴﴾ اگر کوئی نعمت دوسرے سے ملے تو بھی اسے (اپنے )مُرشِد ہی کی عطا اور انہیں کی نظرِ توجَّہ کا صَدقہ جانے ﴿۵﴾ مال ،اولاد، جان سب اِن پر تصدُّق کرنے (یعنی لُٹانے) کو تیّار رہے﴿۶﴾ان کی جو بات اپنی نظر میں خِلافِ شَرعی بلکہ مَعاذ َاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کبیرہ (گناہ )معلوم ہو اس پر بھی نہ اِعتِراض کرے ،نہ دل میں بدگُمانی کو جگہ دے بلکہ یقین جانے کہ میری سمجھ کی غَلَطی ہے ﴿۷﴾ دوسرے کو اگر آسمان پر اُڑتا دیکھے جب بھی (اپنے )مُرشِد کے سوا دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کو سَخت آگ جانے ،ایک باپ سے دوسرے باپ نہ بنائے ﴿۸﴾ ان کے حُضور بات نہ کرے﴿۹﴾ ہنسنا تو بڑی چیز ہے اِن کے سامنے آنکھ کان ،دل ہَمہ تن (یعنی مکمّل طور پر) انہیں کی طرف مصروف رکھے ﴿۱۰ ﴾ جو وہ پوچھیں نہایت ہی نرم آواز سے بکمالِ ادب بتاکر جلد خاموش ہوجائے ﴿۱۱﴾ ان کے کپڑوں ،اِن کی بیٹھنے کی جگہ،اِن کی اولاد،اِن کے مکان ،اِن کے مَحَلّہ ،اِن کے شہر کی تعظیم کرے﴿۱۲﴾جو وہ حکم دیں ’’کیوں!‘‘نہ کہے(اور بجالانے میں )دیر نہ کرے (بلکہ)سب کاموں پر اسے تقدیم (یعنی اَوَّلیَّت )دے﴿۱۳﴾ اِنکی غَیبت (’’غَے۔بَتْ ۔‘‘یعنی غیر موجودَگی) میں بھی اِن کے بیٹھنے کی جگہ نہ بیٹھے﴿۱۴﴾ اِن کی موت کے بعد بھی ان کی زوجہ سے نکاح نہ کرے ﴿۱۵﴾روزانہ اگر زندہ ہیں اِ ن کی سلامتی و عافیّت کی دُعاء بکثرت کرتا رہے اور اِنتقا ل ہوگیا تو روزانہ اِن کے نام پر فاتحہ و دُرُود کا ثواب پہنچائے ﴿۱۶﴾ اِن کے دوست کا دوست،اِن کے دشمن کا دشمن رہے ۔غَرَض اﷲ و رسول جل جلالہٗ وصلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد اِن کے عِلاقہ (یعنی تعلُّق) کو تما م جہاں کے عِلاقہ( یعنی تعلُّق ) پر دل سے ترجیح دے اوراِسی پر کا ر بند رہے وغیرہ وغیرہ ۔جب ایسا ہوگا تو ہر وقت اﷲعَزَّوَجَلَّ و سیِّدِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم و حضراتِ مَشائخِ کرام رَحِمَہُم اللّٰہ تعالیٰ کی مدد زندگی میں، نَزْع میں، قبر میں ،حَشْر میں مِیزان پر ،صِراط پر، حوض پر ہر جگہ اس کے ساتھ رہے گی۔اِس کے مرشِد اگر خود کچھ نہیں تو ان کے مُرشِد تو کچھ ہیں یا مُرشِد کے مُرشِدیہاں تک کہ صاحِبِ سلسلہ حُضُور پُرنور غوثِ پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ پھر یہ سلسلہ مولیٰ علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم اور اُن سے سیِّدُ المرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اُن سے ربُّ العٰلمین عَزَّوَجَلَّ تک مسلسل چلاگیا ہے ، ہاں یہ ضَرور ہے کہ مُرشِد چاروں شرائطِ بَیعت کا جامِع ہو پھر اِن کا حُسنِ اِعتِقاد سب کچھ پھل لاسکتا ہے ،ان شاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ۔واللّٰہ تعالٰی اعلم
(فتاویٰ رضویہ شریف ج ۲۴ ص ۳۶۹)

’’مُرشِد ‘‘کے چار حُروف کی
نسبت سیبیعت کی 4 شرائط
پیری کیلئے چار شرطیں ہیں قبل از بَیعت انکا لحاظ فرض ہے ﴿۱﴾صحیح العقیدہ سنّی ہو ﴿۲﴾ اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضَروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے﴿۳﴾ فاسقِ مُعلن نہ ہو۔(ایک بارگناہِ کبیرہ (یعنی بڑا گناہ ) کرنے والا یا گناہِ صغیرہ (یعنی چھوٹا گناہ ) پر اِصرار کرنے والا یعنی تین یا اِس سے زِیادہ بار کرنے والا یا صغیرہ کو صغیرہ (یعنی چھوٹا) سمجھ کر ایک بار کرنے والا فاسِق اور اگر علی الاعلا ن کرے تو فاسقِ مُعلن ہے اگر باِلفرض کوئی کسی فاسقِ مُعلن کا مُرید بن گیا ہوتو اُسے بیعت توڑدینا ضَروری ہے۔اِس کیلئے اُس پِیر کو بتانا ضَروری نہیں ،اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے ،’’میں فُلاں کی بیعت توڑتا ہوں ‘‘ اِس طرح کہتے ہی بیعت ٹوٹ گئی اب کسی بھی جامعِ شرائط پیر صاحِب سے بیعت کرسکتا ہے ۔)
﴿۴﴾اس کا سلسلہ ٔبیعت نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک مُتَّصِل (یعنی ملا ہوا) ہو ۔
(بہارِ شریعت تخریج شدہ حصّہ اوّل ص ۱۵۳ مکتبۃ المدینہ ،فتاویٰ رضویہ ج ۲۱ ص ۶۰۳)

فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 351145 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.