دشمن

یقینا حیرت اور خوشی کے ملے جُلے تاثرات رقم تھے میرے چہرے پر جب آج اُسے میں نے اس حالت میں دیکھا کہ وہ بے دست و پا میرے سامنے تھا اور محبوس بھی، کمال کی بات یہ کہ میرے گھر میں اور میرے ہی کمرے میں، میں نے جیب میں رکھی زہر کی شیشی کو غیر ارادی طور پر محسوس کیا، جو بازار سے خرید کر لایا تھا اور اب اُس کے استعمال کا وقت قریب آن پہنچا تھا ۔ میں اُسے قتل کرنے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا، کیونکہ آج تو انتہا ہو گئی تھی، اُس سے قبل میں اُس کے دخل در معقولات پر چشم پوشی اختیار کر لیتا تھا کہ ہمارا ساتھ اُس وقت سے تھا جب سے میں نے ہوش سنبھالا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ سائے کی طرح میرے آس پاس پھٹکتا رہتا تھا، اور مانو اُسے مجھ سے اللہ واسطے کا بیر ہو۔ ہر کام پر کسی بڑے بزرگ کی طرح مجھے روکنا ٹوکنا اور کبھی کبھی تو لعن طعش کرنا، آخر کوئی حد ہوتی ہے کہ نہیں؟ لیکن آپ میری اور اُس کی دشمنی کی گہرائی کا اندازہ کیا کریں گے۔

نوید ہماری جماعت کا ذہین ترین طالبعلم تھا اور اساتذہ تو جیسے اُس پر جان چھڑکتے تھے، اگر بات یہیں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا، اب کیا کہوں کہ ہمارے مدرسہ کا نصاب انگریزی میں تھا اور مخلوط تعلیم تھی، آپ سمجھ ہی سکتے ہوں گے کہ لڑکیاں جب اُسے تعریفی نظر سے دیکھتیں اور وقت بے وقت اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتیں تو آس پاس کے لوگوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ اب سچ بات تو یہ ہے کہ بُرا تو مجھے بھی لگتا تھا، جو کہ قدرتی تھا ، یہاں تک کہ مصباح بھی اُس کی تعریف میں رطب اللسان پائی جاتی اور ایسے میں میرے سینے پر سانپ لوٹ جاتے اور اسی لیے مجھے نوید سے نفرت ہو گئی، اور اتنی ہوئی کہ ایک شام کرکٹ کے میدان کے پیچھے ہاتھ میں بلا لیے میں اُس گلی میں چھپا کھڑا تھا جہاں سے نوید اپنے گھر جایا کرتا، اور اس انتظار میں تھا کہ کب وہ گھڑی آئے اور میں اپنے دل کی حسرتیں نکالوں، کہ اچانک کسی بھوت کی طرح دشمن نمودار ہو گیا ؛؛میں اُس کا نام لینا بھی اچھا نہیں سمجھتا، اس لیے اُسے دشمن ہی کہوں گا؛؛۔

یہ کیا ہو رہا ہے؟: آتے کے ساتھ ہی اُس نے پوچھا تھا۔ : کچھ خاص نہیں : میں نے بلا غیر محسوس طور پر پشت پر لے جاتے ہوئے کہا۔

یہ تُمہارے ہاتھ میں کیا ہے : وہ بولا : بلا ہے، میں کرکٹ کھیلنے کے لئے لایا تھا: میں نے فورا جھوٹ گھڑتے ہوئے کہا

جھوٹ، تُمہیں پتا بھی ہے کہ کیا کرنے جا رہے ہو۔ نوید اکلوتا لڑکا ہے اپنے والدین کا، کیا ہو گا اُن کا؟ اگر چار پانچ لڑکیاں اُس پر مرتی ہیں تو چار پانچ تُمہیں بھی تو لفٹ کرواتی ہیں۔ آج تک تُمہیں تو کوئی مارنے نہیں آیا۔ پھر تُم کیوں؟ : اُس نے مجھے جھاڑ پلاتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے ، سب ٹھیک ہے لیکن وہ مصباح بھی تو ؟

سب پتہ ہے مجھے، یہ سب اُسی مصباح کی وجہ سے تو ہے: وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولا۔ : تُم خود کو اُس کے قابل کیوں نہیں بنا لیتے؟ یقین مانو کہ وہ ذہین ہونے کی وجہ سے نوید کا احترام کرتی ہے، اُس سے محبت نہیں کرتی۔ پھر تُم بھی تو ذہین ہو، تُم اُس کا دل جیت کیوں نہیں لیتے؟ : وہ بولا تھا

تُمہیں یقین ہے کہ اُسے نوید سے محبت نہیں؟ : میں نے پوچھا

بالکُل نہیں، اور وہ اُس کی کزن بھی ہے، اس لیے اُس سے بات چیت کرتی ہے، اب تُم یہ بلا پھینکو اور گھر جا کر پڑھو، تُمہیں مصباح کا دل جیتنا ہے: وہ بولا اور وہاں سے یکدم چلا گیا ہو جیسے۔

ارے تُم کھیلنے اتنی دیر سے آئے ہو؟ : اس آواز نے مجھے چونکا دیا، میں نے دیکھا تو نوید تھا، جو میرے سامنے کھڑا تھا۔

بس مجھے آتے آتے کچھ دیر ہو گئی، اب تو شام ہو رہی ہے، کل کھیلیں گے انشا اللہ : یہ کہتے ہوئے میں اُس کے ساتھ گھر کی جانب چل پڑا۔

دن گزرنے لگے اور میں اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ ذہانت میں کیسے نوید کو نیچا دکھاؤں یہاں تک کہ نوماہی امتحانات آ گئے۔ میں نے اپنے جسم کے خفیہ گوشوں میں جگہ جگہ بوٹیاں چھپا لیں اور کمرہ امتحان میں پہنچ گیا۔ جی کیا پوچھا آپ نے، بوٹیاں ؟؛؛ ارے صاحب اگر آپ کو بوٹیوں کا پتہ نہیں تو آپ شائد کبھی مدرسہ گئے ہی نہیں گئے؛؛

سوالات کا پرچہ دیکھتے ہی میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ٹانگیں تھر تھر کانپنے لگیں پر پھر جب مجھے یاد آیا کہ کچھ سوالات جو پرچے میں تھے اُن کے جوابات میرے پائنچوں میں موجود تھے، تو کچھ ڈھارس بندھی ۔ میں نے نظر بچا کر ایک کاغذ نکال ہی لیا، ابھی میں یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ اُن سوالوں میں سے ھے کہ نہیں جو پرچہ میں آئے تھے کہ دشمن کی منحوس آواز میرے کانوں میں آئی؛؛ باز آ جاؤ پکڑے گئے تو کیا ہو گا؟ ۔

اور لوگ بھی تو ایسا کرتے ہیں، تُم اپنی بکواس خود تک ہی محدود رکھو، وہی بہتر ہے تُمہارے لئے؛؛ میں نے حتی الامکان دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ اُس پر کچھ اثر نہ ہونا تھا نہ ہوا بلکہ اُس کمبخت نے پرچی جیسے میرے ہی ہاتھوں اساتذہ کی نظر بچاتے ہوئے کھڑکی سے باہر اُچھال دی۔ نتیجا وہی کہ میں بمشکل پاس ہوا تھا اُس امتحان میں اور پرنسپل صاحب نے محنت نہ کرنے کی صورت میں بورڈ کا داخلہ روکنے کی دھمکی بھی دی تھی-

میں نے اُس دن کے بعد فیصلہ کیا کہ دل لگا کر پڑھائی کرنا ہے، اسکول میں تو میں نوید کو شکست نہ دے پایا مگر کالج میں میں نے اُس کو جا لیا جہاں خوش قسمتی سے نوید، مصباح اور میں تینوں اکٹھے تھے، نوید نے پری میڈیکل میں داخلہ لیا تھا اور میں نے اور مصباح نے پری انجنیرنگ، یہاں مجھے یہ بتانے کی قطعا ضرورت نہیں کہ میں باوجودیکہ میڈیکل میں جانا چاہتا تھا، انجنیرنگ میں کیوں گیا۔

کالج میں میں نے ٹاپ کیا تھا اور سبھی مجھے مبارک باد دینے آئے یہاں تک کہ مصباح بھی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہااُس دن مجھے لگا کہ میں دولت کونین پا گیا۔

کالج سے نکلتے ہی نوید تو میڈیکل میں چلا گیا اور میں اور مصباح انجنیرنگ میں داخل ہوئے۔

دشمن سے اس دوران مدبھیڑ ہوتی رہتی اور وہ ہمیشہ مجھے اپنے بزرگانہ لیکچرز سے بور کرتا رہتا، کئی بار میں نے اُس سے جان چھڑوانی چاہی لیکن وہ ہر بار کہیں نہ کہیں سے نمودار ہو جاتا اور میرا بنتا ہوا کام بھی بگڑ جاتا، اب کام تو کام ہے نا، اگر کسی طرح سے بھی بن پائے تو اُسے بن جانا چاہیے، جبکہ دشمن کا نظریہ بالکُل مختلف تھا اور وہ اصول، قواعد اور ضوابط کا پرچھار کرتا رہتا، کبھی کبھی تو میرا جی چاہتا کہ اس کا گلا گھونٹ دوں۔ میں آپ کو شائد بتا چکا ہوں کہ مجھے اُس سے نفرت تھی اور میں اُس کا نام لینا گوارا نہیں کرتا تھا، اسی لیے اُسے صرف دشمن کہتا تھا اور لکھ بھی رہا ہوں۔

انجنیرنگ کا آخری زبانی امتحان وائوا دیتے ہی میں نے مصباح کو جا گھیرا جو حسب معمول لائبریری میں تھی اور آج بھی کتاب ہاتھ میں لئے بیٹھی تھی؛؛ کیسی ہو؛؛ میں نے پوچھا۔ ؛؛ اللہ کا شکر ہے، آپ کیسے ہیں؛؛ وہ بولی۔ ؛؛ میں بھی ٹھیک ہوں، تُم آج بھی پڑھ رہی ہو؟؛؛ ۔ ؛؛ ہاں بس ایسے ہی اُداسی سی چھائی ہوئی تھی کہ اب یہاں سے جدا ہونے کا وقت آ گیا ہے؛؛ یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا ؛؛ مجھے تُم سے محبت ہے؛؛ جیسے ایک زلزلہ سا آ گیا ہو۔ وہ بات جو کبھی بھی ذہن کے دریچے سے باہر جھانک نہ پائی تھی آج جیسے دیوار توڑ کر باہر نکل آئی تھی۔ اُس نے جیسے شدید حیرت کے عالم میں مجھے دیکھا اور زور سے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ ؛؛ تُم پاگل تو نہیں ہو گئے ؛؛ وہ تو جیسے چیخ پڑی تھی۔ آس پاس بیٹھے جونئرز نے گھور کر ہمیں دیکھا اور وہ پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئی۔

بےعزتی اور خفت مجھے بھی جلد وہاں سے باہر نکال لائی، میرے کان جیسے سُرخ ہو رہے تھے۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور اُس میں سما جاؤں۔ میرا ایک ایک رواں انتقام انتقام چیخ رہا تھا اور میں اس شور کے آگے بے بس سا نظر آیا جب میں نے باہر نکل کر مصباح کو تنہا بس اسٹاپ پر کھڑے دیکھا، پتہ نہیں میں کس ارادے سے اُس کی طرف بڑھا ہی تھا کہ کسی چھلاوے کی طرح وہ منحوس نمودار ہوا ،؛؛ کیا کرنے جا رہے ہو؛؛۔ ؛؛ میں اسے ختم کر کے خود کو بھی مار دوں گا آج، اور تُم اپنی منحوس شکل لے کر یہاں سے چلے جاؤ، خون سوار ہے مجھ پر آج؛؛۔ اُس نے جیسے میرے پاؤں جکڑ لیے، پھر بس آئی اور مصباح چلی گئی۔ اُس کے جاتے ہی دشمن میرے پاؤں چھوڑ کر جیسے زمین میں دھنس گیا ہو، وہ غائب تھا۔

میں شدید غصہ کے عالم میں وہاں سے بازار پہنچا اور زہر کی شیشی خرید لی۔ میں تہیہ کر چکا تھا کہ دشمن کو موت کے گھاٹ اُتار دوں گا، گھر آیا تواب وہ میرے سامنے تھا، بے دست و پا، بے بس۔ ؛؛ تُم نے اُسے بچایا کیوں؛؛ میں نے چیختے ہوئے پوچھا۔

تُم قاتل بن جاتے اور تُمہارا مستقبل تباہ ہو جاتا؛؛ اُس نے حسب معمول بردبار لہجے میں جواب دیا۔ ؛؛ کیا برائی کی تھی میں نے، اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اُس سے محبت کا اظہار ہی تو کیا تھا میں نے؛؛ میں نے پھر چیختے ہوئے کہا۔

تُمہیں لائبریری ہی ملی تھی اس کام کے لیے، اور پھر اُس کا ہاتھ لوگوں کے سامنے پکڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ کوئی ایسی ویسی لڑکی تھی کیا جو تُمہیں وہاں کوئی مثبت جواب دیتی؛؛ اُس کا لیکچر پھر شروع ہو گیا۔ میں نے جیب میں شیشی نکالتے ہوئے زہرخند سے اُس کی جانب دیکھا اور قریب تھا کہ میں زہر کی ساری شیشی اُس کے گلے میں اُنڈیل دیتا کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔

کہاں ہو بیٹے ؟ دروازہ کھولو؟ کیا ہو رہا ہے ، نوید تُمہیں ملنے آیا ہے؛؛ ماں تھیں دروازے پر

اب کیا لینے آیا ہے وہ، مجھے کسی سے نہیں ملنا؛؛ میں نے جواب دیا

آج تُم نے کمرہ بند کیوں کیا ہے؛؛ ماں کی گھبرائی سی آواز سُنائی دی

میری زندگی میں کچھ بچا نہیں اب ، یہ نوید کیا جلی پر تیل چھڑکنے آیا ہے؛؛ میں نے چیختے ہوئے کہا

دروازہ کھولو ؛؛ اب کی بار نوید کی منحوس آواز کانوں میں پڑی

دفع ہو جاؤ، چلے جاؤ یہاں سے۔ اب میں تُمہارے اور مصباح کے راستے میں نہیں آؤں گا، منحوس ہو تُم؛؛ میں نے جیسے گلے کی آخری حد آزماتے ہوئے کہا تھا ۔ اور ساتھ ہی میرے ہاتھوں نے دشمن کی گردن دبوچ لی، اور شیشی اُس کے حلقوم کے اندر گُھسیڑ دی۔

مجھے مصباح نے ہی بھیجا ہے ، اُس نے کہا ہے کہ وہ اگر تُمہیں پسند ہے تو آنٹی اور انکل کو اُس کے گھر بھیجو، دروازہ کھولو۔ وہ میری بہن ہے پاگل؛؛ نوید کی آواز دروازے سے ایک لات پڑنے کی آواز کے ساتھ ہی آئی تھی-

کیا میں نے کہا تھا اور میرے ہاتھ جیسے یکدم دُشمن کی گردن پر ڈھیلے پڑ گئے ہوں میں نے شیشی جلدی سے باہر نکال لی، شکر ہے کہ زہر نکلا نہیں تھا ابھی تک-

اب کہو؟؛؛ دشمن کی منمناتی سی آواز آئی۔ اور میں نے شائد پہلی بار احترام اور پیار کی ملی جُلی نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔

پھر میں نے آئینے کے سامنے سے اُٹھ کر دروازہ کھولا اور نوید کو گلے لگا لیا تھا-
azharm
About the Author: azharm Read More Articles by azharm: 21 Articles with 22508 views Simply another mazdoor in the Gulf looking 4 daily wages .. View More